غزہ خود سمندر کے کنارے ایک چھوٹا علاقہ ہے جسے عالمی توجہ ملی ہے اور خاص طور پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں یہاں کے رہائشیوں کے حق میں آواز...
غزہ خود سمندر کے کنارے ایک چھوٹا علاقہ ہے جسے عالمی توجہ ملی ہے اور خاص طور پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں یہاں کے رہائشیوں کے حق میں آواز بلند کرتی رہیں ہیں۔ “آزادی غزہ تحریک” کے تحت دنیا بھر کے کئی شہروں میں مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ غزہ نے حالیہ برسوں میں مغربی کنارے سے زیادہ توجہ لی ہے۔ مغربی کنارہ زیادہ بڑی اور امیر جگہ ہے اور تاریخ طور پر زیادہ اہم رہا ہے۔
غزہ کے رہائشیوں نے پچھلے چودہ برس میں اقتصادی بدحالی دیکھی ہے۔ غزہ عملی طور پر قیدخانہ ہے جس سے پرمٹ لے کر باہر نکلا جا سکتا ہے۔ پچیس میل لمبی اور چھ میل چوڑی اس پٹی پر انیس لاکھ لوگ آباد ہیں۔ آبادی نوجوان ہے۔ اوسط عمر صرف سولہ برس ہے۔ بہت سے لوگ اپنی پوری زندگی اس علاقے سے باہر نہیں نکلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزہ ہمیشہ سے اس قدر بدحال علاقہ نہیں تھا جتنا کہ آج ہے۔ 1994 میں یہاں غربت کی شرح سولہ فیصد تھی (امریکہ میں یہ شرح ساڑھے چودہ فیصد ہے)۔ لیکن نوے کی دہائی میں یہاں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ دوسرے انتفاضہ کے بعد سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری ختم ہو گئی۔
جب تک حماس نے علاقے کا سیاسی کنٹرول سنبھالا، حالات اچھے نہیں رہے تھے اور یہ مزید بگڑ گئے۔ اسرائیل نے یہاں سے 2005 میں جب انخلا کیا تو فی کس آمدنی 1375 ڈالر تھی جو 2015 میں 970 ڈالر رہ چکی تھی۔ یہ ان دس برسوں میں پرفارم کرنے والی دنیا کی بدترین اکانومی تھی۔ بے روزگاری کی شرح 30 فیصد تھی جو بڑھ کر اب پچاس فیصد تک جا چکی ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ اسرائیل کی ناکہ بندی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکی سے “آزادی غزہ تحریک” کی طرف سے چھ جہازوں کا قافلہ امدادی سامان لے کر اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنے غزہ کی طرف روانہ ہوا۔ اکتیس مئی 2010 کو اسرائیلی کمانڈوز اسے روکنے کے لئے آئے اور نتیجے میں دس ترک ہلاک ہو گئے۔ ترکی نے اسرائیل سے تعلقات توڑ لئے۔ ان کی بحالی اس وقت ہوئی جب اسرائیل نے اس پر معافی مانگی، ہلاک ہونے والوں کو معاوضہ دیا اور غزہ پر سے پابندیاں نرم کیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ناکہ بندی کے ابتدائی برسوں میں مصر کے ساتھ تجارت زیرِزمین سرنگوں کی مدد سے جاری رہی۔ حسنی مبارک اور محمد مرسی کے دور میں یہ چلتی رہی۔ ان سے ہر قسم کی اشیا کی تجارت، حتیٰ کہ گاڑیوں کی بھی ہوتی رہی۔ ایک اندازے کے مطابق غزہ کی اسی فیصد اکانومی اس طریقے سے چل رہی تھی۔ مصر میں فوجی حکومت 2013 میں آئی جبکہ جنرل سیسی نے 2015 میں ان سرنگوں کو بند کروا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت غزہ میں غربت کی شرح پچاس فیصد سے زائد ہے۔ ایندھن کی کمی کی وجہ سے بجلی دن میں چند گھنٹے ہی آتے ہے۔ نکاسی آب اور پانی کی فراہمی کے مسائل ہیں۔ اقوامِ متحدہ دس لاکھ فلسطینیوں کی غذائی امداد کرتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی سے حماس کے تعلقات اچھے نہیں۔ اپنے زیرِ انتظام علاقوں میں حماس اور فتح دوسری پارٹی سے تعلق یا ہمدردی رکھنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھتے۔ مخالف کو قید کئے جانا، تشدد کیے جانا یا اس سے بدتر عام ہے۔ فتح نے مغربی کنارے میں حماس کو کچلنے کی کوشش کی ہے جبکہ حماس نے فتح کے ساتھ غزہ میں ایسا کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طرزِ حکومت میں حماس اور فتح میں زیادہ فرق نہیں۔ ان میں جبر کا عنصر نمایاں رہا ہے۔ اگرچہ حماس کو اسلامی بنیاد پرست جماعت سمجھا جاتا ہے تاہم گورننس کے حساب سے، چند بار علامتی اقدامات لینے کے سوا، اس نے ایسا کوئی خاص قدم نہیں لیا۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر غزہ میں ساحلِ سمندر کی۔