اوسلو معاہدوں کے دستخط کے بعد فلسطین میں جشن منائے گئے تھے لیکن اس میں بہت زیادہ وقت نہیں لگا جب اس کی جگہ گہری مایوسی نے لے لی۔ چند لوگوں ک...
اوسلو معاہدوں کے دستخط کے بعد فلسطین میں جشن منائے گئے تھے لیکن اس میں بہت زیادہ وقت نہیں لگا جب اس کی جگہ گہری مایوسی نے لے لی۔
چند لوگوں کے لئے (جو فلسطینی اتھارٹی سے وابستہ تھے) حالات بہتر ہوئے۔ زیادہ تر کے لئے نہیں۔ معاہدوں کے ردِ عمل میں یہ عمل روکنے کے لئے کچھ فلسطینی گروپ اسرائیل پر حملہ آور ہوتے رہے۔ اس کے نتیجے میں دیواریں، ناکے اور پرمٹوں کے سسٹم آنے لگے۔ غزہ کا تعلق مغربی کنارے سے توڑ دیا گیا۔ مغربی کنارے کا یروشلم سے۔ غربت میں اضافہ ہوا۔
سیاسی قیادت اور فلسطینی اتھارٹی کے سرکاری اہلکاروں کے پاس VIP پاس تھے جن کی مدد سے وہ کہیں بھی جا سکتے تھے لیکن عام شہریوں کے لئے فلسطین میں سفر کرنا دوبھر ہو گیا۔ 1991 تک فلسطینیوں کی بڑی تعداد اسرائیل میں ملازمت کرتی تھی اور انہیں کسی خاص پرمٹ کی ضرورت نہیں تھی۔ مغربی کنارے اور غزہ کی نمبرپلیٹ والی گاڑی اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں میں کہیں بھی جا سکتی تھی۔
پابندیاں آتی گئیں۔ پرمٹ کی ضرورت پڑنے لگی اور پرمٹ کا حصول مشکل تھا۔ فلسطینیوں کے لئے سڑکیں الگ کر دی گئیں جن میں جابجا چیک پوائنٹ تھے۔ بہترین ہائی وے کے نیٹورک مقبوضہ حصوں میں بنائے گئے جس پر صرف اسرائیلی سفر کر سکتے تھے۔
غزہ سے نکلنا اور داخل ہونا سب سے دشوار تھا۔ زیادہ تر غزہ والوں کا انحصار اسرائیل میں ملازمت یا دوسرے علاقوں میں سامان فروخت کرنے پر تھا۔ ان پر لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے معاشی زندگی دشوار ہو گئی۔
یہ سب میڈیا کی خبر نہیں بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان حالات میں پہلے انتفاضہ کے وقت بننے والی جماعت حماس واپس منظرِ عام پر آ گئی۔ حماس نے عسکری مزاحمت ترک کرنے پر پی ایل او کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ مذاکرات کے عمل کی مخالفت کی تھی۔ یہ ردِ عمل کی تحریک تھی۔ جب امن پراسس میں پیشرفت ہو رہی تھی تو اس کی مقبولیت کم رہ گئی تھی اور یہ پس منظر میں چلی گئی تھی، لیکن بعد میں کئے جانے والے اسرائیلی اقدامات اسے مقبول کرتے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب عرفات اور باراک کے مذاکرات ناکام ہوئے تو اسرائیل کی طرف سے اس کا فائدہ لیکود پارٹی اور ایریل شیرون کو ہوا جبکہ فلسطین کی طرف سے حماس کو۔ پہلی بار فلسطین میں پی ایل او کو سنجیدہ سیاسی مقابلے کا سامنا ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باراک اور عرفات کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد سیاسی طور پر بہت تناوٗ کا وقت تھا۔ اور اس پس منظر میں صورتحال کو بھڑکنے کے لئے ماچس کی ایک تیلی درکار تھی۔ یہ پھینکنے والے ایریل شیرون تھے۔ 28 ستمبر 2000 میں وہ سینکڑوں مسلح گارڈز کے ساتھ حرم الشریف گئے۔ مذاکرات ناکام ہونے کے ساتھ ہی اس حساس جگہ پر جا کر تقریر کرنے کا مقصد ری ایکشن لینا تھا۔ “یہ ہمارے قبضے میں ہے اور ہمارے قبضے میں ہی رہے گا”۔ ان کی تقریر اشتعال دلانے کے لئے تھی۔ مطلوبہ ردِعمل مل گیا۔ اگلے روز نمازِ جمعہ کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا انتفاضہ 29 ستمبر 2000 کو شروع ہو گیا۔ چند ماہ بعد باراک حکومت گر گئی۔ شیرون انتخاب میں باراک کو بھاری شکست دے کر فروری 2001 میں وزیرِ اعظم تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقبوضہ علاقوں میں 1967 کے بعد بدترین حالات سامنے آئے۔ خود کش دھماکوں کی لہر آئی۔ پہلے انتفاضہ میں سالانہ مرنے والوں کی اوسط سالانہ تعداد 177 رہی تھی (جس میں بارہ فیصد اسرائیلی تھے)۔ انتفاضہ ختم ہونے کے بعد تعداد کم ہو کر سالانہ 20 تک رہ گئی تھی۔ دوسرے انتفاضہ (جو الاقصٰی انتفاضہ کہلایا) کے آٹھ برسوں میں یہ اوسط 825 سالانہ تھی جس میں سترہ فیصد اسرائیلی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیبرون کی مسجد میں 1994 میں ایک اسرائیلی دہشتگرد نے فائرنگ کر کے 29 لوگوں کو مارا تھا۔ خود کش حملے کے حربے کا استعمال اس کے بعد پہلی بار شروع ہوا تھا۔ حماس اور اس کی جونئیر پارٹنر اسلامی جہاد کا طریقہ کار خود کش حملوں کا رہا جو عام شہریوں پر کئے جاتے تھے۔ بس، بازار اور کیفے نشانہ بنتے تھے۔ شروع میں اسرائیل کے پاس اس حربے کا دفاع نہیں تھا۔ 2001 میں فتح نے بھی یہ طریقہ شروع کر دیا۔ یہ مقابلے کی دوڑ تھی۔ ایک سٹڈی کے مطابق چالیس فیصد خود کش حملے حماس نے کئے، چھبیس فیصد اسلامی جہاد نے، چھبیس فیصد الفتح نے اور باقی فتح کے ساتھی چھوٹے گروپس نے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا انتفاضہ فلسطین کاز کے لئے بے حد کامیاب رہا تھا۔ دوسرا اس کے بالکل برعکس۔ یہ فلسطینیوں کے لئے تباہ کن رہا۔ اسرائیلی آرمی نے 2002 میں ان تمام علاقوں پر واپس قبضہ کر لیا جو انہوں نے معاہدوں کے بعد خالی کئے تھے۔ یاسر عرفات کو ان کے ہیڈکوارٹر میں نظربند کر دیا گیا۔
امن کی کوئی بھی توقع ختم ہو گئی۔
ایک اور بڑا نتیجہ یہ رہا کہ فلسطینیوں کا پہلے انتفاضہ اور امن مذاکرات کی وجہ سے دنیا میں جو مثبت تاثر بنا تھا، وہ ختم ہو گیا۔ بسوں اور بازاروں میں خودکش حملوں کے مناظر نے ایک بار پھر اسرائیل کو مظلوم بنا دیا۔ اسرائیل میں رائے عامہ واضح طور پر فلسطینوں کے خلاف ہو گئی۔ کسی اسرائیلی سیاست دان کے لئے امن کی بات کرنا سیاسی طور پر ناممکن ہو گیا۔ ہر نئے حملے نے اسرائیلی قوم کو اختلافات بھلا کر، سیکورٹی کے معاملے میں سخت گیر لیڈر شیرون کے ساتھ کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصف صدی تک فلسطینوں کی قیادت کرنے والے یاسر عرفات نومبر 2004 میں پیرس کے ہسپتال میں چل بسے۔
یاسر عرفات کی جگہ محمود عباس نے لی جو 2005 میں چار سال کے لئے منتخب ہوئے تھے۔ محمود عباس اس کے بعد سے بغیر انتخاب کے صدر چلے آ رہے ہیں۔ جب تک ان کی مدتِ انتخاب ختم ہوئی، فلسطینی ریاست ایک خانہ جنگی کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ 2006 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے فلسطینی اتھارٹی صدارتی یا پارلیمانی انتخابات منعقد کروانے میں ناکام رہی ہے۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر رام اللہ میں یاسر عرفات کے مقبرے کی ہے۔