سرحدیں اگرچہ بہت سے برس لگے اور بہت سا خون بہا، لیکن دونوں اطراف سرکاری طور پر اس اصول پر اتفاق کر چکی ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کی الگ ریاس...
سرحدیں
اگرچہ بہت سے برس لگے اور بہت سا خون بہا، لیکن دونوں اطراف سرکاری طور پر اس اصول پر اتفاق کر چکی ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کی الگ ریاستیں ہوں گی۔ فلسطینی سائیڈ نے اس دو ریاستی حل پر 1988 میں اتفاق کیا تھا۔ اس سے بارہ سال بعد وزیرِاعظم ایہود باراک نے اسرائیل کی طرف سے۔ دائیں بازو کے نیتن ہاہو نے بھی جون 2009 کی اہم تقریر میں اس اصول سے اتفاق کر لیا تھا۔
مہاجرین کے مسئلے پر دونوں اطراف کی طرف سے اتفاق ہو جانے میں عملی طور پر دوری نہیں، فرق اصول کا ہے۔ سرحد کے معاملے میں اس سے الٹ ہے۔ اصول پر اتفاق ہے، جبکہ عملی طور پر دوری ہے۔
ان ریاستوں کی سرحدیں کیا ہوں گی؟ مسئلہ اس کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ایل او کا مطالبہ ہے کہ فلسطینی ریاست کی سرحد 1949 کی جنگ بندی کی لکیر “گرین لائن” ہو۔ اسرائیل کے لئے یہ قابلِ قبول نہیں کیونکہ اس سے سرحد “ناقابلِ دفاع” ہو جاتی ہے۔ مغربی کنارے میں کئی اسرائیلی بستیاں ہیں اور چار لاکھ اسرائیلی آبادکار ہیں۔ ان کو خالی کرنے کی سیاسی، معاشی اور سوشل قیمت کسی کے لئے بھی بہت بڑی ہے۔ اس لئے اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ سرحد ایسے بنائی جائے کہ گرین لائن کے قریب آباد بستیاں اسرائیلی سائیڈ پر آ جائیں۔
یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس پر بڑا اختلاف رہا ہے اور بظاہر ناقابلِ حل لگتا ہے لیکن ایسا نہیں۔
جب کیمپ ڈیوڈ مذاکرات ناکام ہوئے تو ایک نیا آئیڈیا پیش کیا گیا جو “زمین کے تبادلے” کا تھا۔ اسرائیل مغربی کنارے کی کچھ زمین کے بدلے اپنی مساوی زمین دے دے۔ جنوری 2001 میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کی 94 فیصد زمین کی پیشکش کی گئی اور ساتھ تین فیصد اسرائیلی زمین کی۔ لیکن یہ فلسطین کی طرف سے مسترد کر دی گئی۔ بعد میں اولمرٹ نے مغربی کنارے کی چھ فیصد زمین رکھنے کے بدلے (80 فیصد اسرائیلی آبادکار یہاں پر ہیں) پانچ فیصد اسرائیلی زمین کی پیشکش کی اور مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان محفوظ راستہ اور سڑک دینے کی۔
محمود عباس نے جواباً تجویز کیا کہ اسرائیل مغربی کنارے کا دو فیصد حصہ رکھ لے (جس میں کچھ حصہ مشرقی یروشلم کا بھی تھا) اور اس کے بدلے اتنی ہی زمین دے دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کے تبادلے کے اصول پر بھی اختلاف نہیں رہا۔ اب مسئلہ تفصیل کا ہے کہ کتنی اور کونسی زمین دی جائے۔ رائٹ ونگ اسرائیلی وہ زمین دینے کے حق میں ہیں جہاں اسرائیلی عرب آباد ہیں۔ فلسطینی (اور اسرائیلی عرب) اس کے مخالف ہیں اور ان کا مطالبہ خالی زمین دینے کا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح وقت گزرتا جاتا ہے، آبادی بڑھتی جاتی ہے، خالی زمین کے قطعات کم ہوتے جا رہے ہیں اور یہ تبادلہ مشکل ہوتا جائے گا۔
سب سے متنازعہ آبادی اسرائیلی آبادکاروں کی ایریل کی بستی ہے جہاں بڑی یونیورسٹی ہے اور بیس ہزار کی آبادی ہے۔ یہ مغربی کنارے کے گیارہ میل اندر ہے۔ اسرائیل اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے اور اس کو رکھنے کا مطلب بڑا علاقہ دینا ہے۔ جبکہ اس کو چھوڑنے کا مطلب بڑی اور اہم بستی مسمار کرنا ہو گا۔
فلسطینی جوابی پیشکش اس پر یہ ہے کہ آبادی کو یہاں پر ویسے ہی رہنے دیا جائے اور خالی نہ کیا جائے۔ یہاں رہنے والوں کو فلسطینی شہریت دی جائے گی اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری فلسطینی سیکورٹی فورس کی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیکورٹی
اسرائیل کی طرف سے فلسطینی ریاست کے انکار کی سب سے بڑی وجہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ رہی۔ اس کے مطابق اگر مستقبل میں فلسطین ریاست اپنی زمین پر کسی حریف بیرونی فوج کو آنے دیتی ہے یا پھر یہ اہلیت نہیں رکھتی کہ بیرونی مداخلت روک سکے، تو اسرائیل کے چھوٹے سائز اور “پتلی کمر” کی وجہ سے اس کے خلاف دفاع بہت مشکل ہو گا۔ مغربی کنارے سے بحیرہ روم کا فاصلہ تنگ مقام پر صرف نو میل کا ہے۔ ایسی جارحیت کا دفاع کرنا ناممکن ہو گا۔
اسرائیل کی خطے میں عسکری بالادستی کا ایک مطلب یہ ہے کہ اب دوسرے ممالک کی طرف سیکورٹی خدشات زیادہ سنگین نہیں رہے اور کئی ریٹائرڈ فوجی جنرل اور دیگر افسران فلسطین کی ریاست کے حق میں ہیں۔ ان کے خیال میں اگر فلسطین سیکورٹی کا بندوبست خود کر سکتا ہے تو اسرائیلی فوج کو اس سے فائدہ ہی ہو گا۔
اب “سیکورٹی خدشات” سے مراد اسرائیلی شہریوں اور خاص طور پر آبادکاروں کی سیکورٹی کو لیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خدشہ جس کا اظہار کیا جاتا ہے، وہ حماس ہے۔ لبنان کو اسرائیلی فوج نے 2000 میں خالی کیا اور غزہ کو 2005 میں۔ غزہ سے اسرائیلی آبادکار بستیاں بھی خالی کر دی گئیں۔ لیکن جلد ہی یہ جگہیں وہ مقامات بن گئے، جہاں سے اسرائیل پر حملے ہوتے ہیں۔ اس نے اسرائیلی عوام کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ مغربی کنارے کو اس طرح خالی نہیں کیا جانا چاہیے۔ حماس مغربی کنارے میں نہیں، لیکن اگر اس علاقے میں کوئی بھی تنظیم پاور میں آ جاتی ہے جو سرحدی علاقوں پر راکٹ استعمال کرے تو غزہ کے مقابلے میں یہ بڑا مسئلہ ہے۔ دوسرا خدشہ یہ ہے کہ مستقبل کی فلسطینی ریاست خود افراتفری اور خانہ جنگی کا شکار ہو سکتی ہے جیسے لیبیا اور یمن میں ہوا۔ اور فلسطین کے ساتھ ساتھ یہ اسرائیل کے لئے بری خبر ہو گی کیونکہ ان حالات میں ایسی جگہوں پر کنٹرول مشکل ہوتا ہے۔
مذاکرات میں جو شرائط اس حوالے سے پیش کی جاتی ہیں، اس میں فلسطینی ریاست کے غیرعسکری ہونے کی شرط کے علاوہ کسی بیرونی فوج کو اسرائیل کی اجازت کے بغیر جگہ نہ دینے کی شرط ہے۔ درآمدات کے معائنے کے حق کی شرط ہے تا کہ ہتھیار نہ آ سکیں۔ فضائی سپیس اور الیکٹرومیگنٹک سپیکٹرم تک رسائی کی شرط ہے۔
اگرچہ یہ کڑی شرائط ہیں لیکن فلسطینیوں نے اس بارے میں خاصی لچک دکھائی ہے۔ اولمرٹ کے ساتھ مذاکرات میں بڑی حد تک محمود عباس نے ان سے اتفاق کر لیا تھا۔ جو بڑا اختلاف ہے، وہ اردن کی وادی میں اردن کی سرحد پر اسرائیلی چیک پوسٹ برقرار رکھنے پر ہے۔ اس پر فلسطین نے محدود فورس کو پانچ سال تک برقرار رکھنے کی پیشکش کی تھی جبکہ اسرائیل کا مطالبہ غیرمعینہ مدت تک انہیں برقرار رکھنے کا ہے۔
اس پر ایک مصالحتی پیشکش یہ کی گئی تھی کہ ابتدائی برسوں میں اسرائیلی فوج ہو اور بعد میں اس کی جگہ انٹرنیشل فوج لے لے۔ فلسطین کی طرف سے اس پر اتفاق کر لیا گیا۔ اسرائیل نے اس سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ان کے تجربے کے مطابق لبنان میں اقوامِ متحدہ کی فورس بے کار رہی تھی۔ وہ اپنی سیکورٹی کا معاملہ ان کے حوالے کرنے کو تیار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختصراً، چار بڑے مسائل (یروشلم، مہاجرین، سرحدیں، سیکورٹی) پر فریقین کی یہ پوزیشن ہے۔
یہاں پر یہ نوٹ کرنے کی ایک اور چیز یہ ہے کہ کسی بھی فریق کی پوزیشن پتھر پر لکیر نہیں۔ وقت اور حالات کے حساب سے ان میں تبدیلی آتی رہی ہے اور دوسرا یہ کہ پبلک پوزیشن اور مذاکرات میں پوزیشن ایک نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن، کوئی نیا بریک تھرو ہونے کے امکانات اب تاریک لگ رہے ہیں۔ اس بارے میں بڑے پیمانے پر یاسیت پائی جاتی ہے۔ اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے سے بہت اختلاف رکھتے ہیں لیکن اس بات پر اب اتفاق ہے کہ قیامِ امن کا جلد ہونا اب ناممکن ہے۔
لیکن کم از کم اب بڑے مسائل اور دونوں اطراف کی پوزیشن سب پر واضح ہے۔ آخری مذاکرات، جو 2007 اور 2008 میں اولمرٹ اور محمود عباس کے درمیان ہوئے تھے، ان کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ قیامِ امن خاصا مشکل ہے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہ ناممکن ہے۔
(جاری ہے)
ساتھ لگے نقشے میں اولمرٹ کے امن پلان میں تجویز کردہ سرحدیں۔ اس میں نیلے رنگ میں وہ علاقہ تھا جس پر فلسطین کا دعویٰ ہے اور یہ اسرائیل کے پاس چلا جاتا۔ سرخ میں وہ علاقہ تھا جو اسرائیل کے پاس ہے اور یہ فلسطین کے پاس آ جاتا جبکہ غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان محفوظ سڑک فلسطینیوں کے استعمال میں رہتی۔