اس تنازعے کے حل میں چار بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ۱۔ یروشلم ۲۔ مہاجرین ۳۔ سرحدیں ۴۔ سیکورٹی اس کے علاوہ دیگر اہم مسائل بھی ہیں جن کا تعلق معیشت یا ذر...
اس تنازعے کے حل میں چار بڑی رکاوٹیں ہیں۔
۱۔ یروشلم
۲۔ مہاجرین
۳۔ سرحدیں
۴۔ سیکورٹی
اس کے علاوہ دیگر اہم مسائل بھی ہیں جن کا تعلق معیشت یا ذرائع سے ہے، جیسا کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ لیکن دونوں اطراف اس پر متفق ہیں کہ سب سے زیادہ اہمیت کے حامل یہ چار ہیں۔ یہ مسائل کیا ہیں اور دونوں طرف سے اس پر پوزیشن کیا ہے؟ ایک نظر اس پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یروشلم:
اس شہر کی تاریخی اہمیت ہے۔ جب اقوامِ متحدہ نے تقسیم کا پلان دیا تھا تو اس میں یروشلم کو عالمی انتظامیہ کے زیرِنگرانی دئے جانے کا پلان تھا۔ ایسا نہیں ہوا۔ 1949 کی جنگ بندی کے وقت اس شہر کا مغربی حصہ اسرائیل کے پاس آ گیا جبکہ مشرقی حصہ اردن کے پاس۔ (جس میں حرم شریف اور پرانا شہر ہے مشرقی حصے میں ہے)۔ یہ شہر 1967 تک اسی طرح تقسیم رہا۔ 1967 کی تیسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے مشرقی حصہ اردن سے حاصل کر لیا۔عملی طور پر اسرائیل نے اسے ضم کر لیا ہے اور یہاں رہنے والے فلسطینیوں کو رہائش کا حق دے دیا ہے۔ اگرچہ یہاں رہنے والے اسرائیلی شہریت کے لئے درخواست دے سکتے ہیں لیکن ایسا کم لوگ کرتے ہیں۔ یروشلم کے شہری اسرائیل کے مستقبل رہائشی کا سٹیٹس رکھتے ہیں اور اسرائیل میں کام کر سکتے ہیں۔ (یہ حق باقی فلسطینی علاقوں میں رہنے والوں کو حاصل نہیں۔ باقی فلسطینیوں کو پرمٹ کی ضرورت پڑتی ہے جس کا حصول آسان نہیں)۔
اسرائیل نے یروشلم کی شہری حدود پھیلا دیں اور مشرقی یروشلم میں درجن بھر یہودی بستیاں بنا دی ہیں جہاں 280,000 کے قریب اسرائیلی آباد ہیں۔
مشرقی یروشلم میں رہنے والوں کے لئے میونسپل سروسز کا معیار کمتر ہے۔ کچرا اٹھانا، صفائی، نکاسی آب، سڑکوں پر روشنی، پبلک ہیلتھ جیسے سہولیات کے معیار میں فرق ہے۔ فلسطینی آبادی 1967 کے مقابلے میں پانچ گنا ہو کر 370,000 تک پہنچ چکی ہے جو پورے شہر کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہے۔
اسرائیلی اور فلسطینی دونوں یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہتے ہیں۔ فلسطینی پورے شہر کو اپنا دارالحکومت اب نہیں کہتے اور ان کا دعویٰ مشرقی یروشلم پر ہے۔ جبکہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یروشلم اسرائیل کا غیرمنتقسم دارالحکومت ہے۔ اگرچہ عوام کے آگے اسرائیلی سیاستدان یہی کہتے ہیں لیکن مذاکرات میں مشرقی یروشلم پر فلسطینی آزادی کا حق تسلیم کرنے پر آمادہ رہے ہیں۔ ایہود باراک نے فلسطینیوں کو یروشلم کے مضافات میں اپنا دارالحکومت بنانے کی پیشکش کی تھی جبکہ ایہود اولمرٹ (جو 2006 سے 2009 تک وزیرِاعظم رہے) نے محمود عباس کو شہر کے فلسطینی علاقے دینے کی پیشکش کی۔ محمود عباس نے فارمولا تسلیم کر لیا لیکن حار ہوما کا علاقہ تھا، جس پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔
لیکن یہ تقسیم کاغذ پر آسان ہے، عملی طور پر نہیں۔ مشرقی یروشلم کی نصف آبادی مغربی یروشلم میں کام کرتی ہے۔ الگ ہو جانے کا مطلب ان سب کے لئے بیروزگاری ہو گا۔
ایک اور بڑا مسئلہ مقاماتِ مقدسہ کا کنٹرول ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ مقاماتِ مقدسہ پر بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں جو اس شہر کی آمدنی کا پرکشش ذریعہ ہے۔ دونوں اطراف کا مطالبہ پرانے شہر کا کنٹرول ہے۔ اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ مشترک کنٹرول کی تجویز پیش کی گئی ہے لیکن اس کو کسی سائیڈ نے قبول نہیں کیا۔
اولمرٹ نے ایک اور تجویز پیش کی تھی کہ دونوں اطراف اس علاقے سے دستبردار ہو جائیں اور اس کا کنٹرول عالمی کنسورشیم کے پاس دے دیا جائے جس میں اسرائیل، فلسطین، اردن، مصر، امریکہ اور سعودی عرب ہوں۔ محمود عباس نے اس سے اتفاق کر لیا تھا لیکن اس پر اتفاق نہیں ہو پایا تھا کہ انٹرنیشنل کنٹرول میں دیا گیا علاقہ کتنا بڑا ہو۔ اور اس کی سرحد کیا ہو۔
اولمرٹ کو بعد میں اندرونی معاملات کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا (ان پر کرپشن کے مقدمات تھے)۔ اگلے وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے ایسی کسی بھی تجویز کو مسترد کر دیا جو یروشلم کو تقسیم کرتی ہو۔
مستقبل میں کسی حل کے لئے شہر کی تقسیم ضروری ہو گی اور اگرچہ یہ متنازعہ ہو گی لیکن ایسے حل کی حمایت بڑھی ہے۔ اب یہ اسرائیلی عوام میں ناقابلِ قبول آئیڈیا نہیں۔ فلسطینی پہلے ہی اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ مغربی یروشلم اسرائیل کے پاس رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہاجرین:
مہاجرین کو “واپسی کا حق” دینا اسرائیل کے لئے نگلنے کی سب سے کڑوی گولی ہے۔ فلسطینی شناخت کا ایک اہم حصہ 1948 میں ہونے والی بے دخلی (نکبہ) ہے جس میں سات لاکھ فلسطینیوں کو گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کو اور ان کی اگلی نسل کو واپسی کا حق ہے اور چھوڑی گئی جائیداد پر دعویٰ ہے۔ اس کے علاوہ تین لاکھ لوگ جو بعد میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہوئے، ان کو بھی یہی حق دینا فلسطینیوں کی پوزیشن ہے۔
کئی فلسطینی مہاجرین ہیں جن کے پاس اپنے گھروں کی چابیاں بھی ہیں جو خاندان میں چلی آ رہی ہیں۔ واپسی کو مہاجرین اپنا حق کہتے ہیں۔
دہائیوں سے فلسطینی مہاجرین کو واپس آنے کی اجازت سے انکار کرنا فلسطینیوں کی نظر میں اسرائیل کا سب سے بڑا جرم ہے۔ اس لئے فلسطینیوں کی طرف سے امن قائم کرنے کی شرط فلسطینی مہاجرین کے ساتھ تاریخی ناانصافی کا قبول کرنا رہی ہے۔ ان کی اولاد میں سے اگر کوئی واپس آنا چاہے تو واپس آنے کی اجازت دینا اور چھینی گئی زمین کا معاوضہ دینا شرائط میں رہا ہے۔
النکبہ سے ستر سال بعد بھی بہت سے فلسطینی بغیر ریاست کے مہاجر کیمپوں میں ہیں۔ اس وجہ سے فلسطینوں کے لئے یہ مسئلہ ہے جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل کی سرکاری پوزیشن اس مطالبے سے الٹ ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی پوزیشن ہے کہ 1947 سے 1949 کے درمیان لوگوں نے اپنی مرضی سے علاقہ چھوڑا تھا۔ اور اس کی ذمہ داری عرب ریاستوں اور فلسطینی سیاسی قیادت کی ہے جس نے اقوامِ متحدہ کا پلان مسترد کر دیا تھا اور اسرائیل پر جنگ مسلط کر دی گئی تھی۔ جو لوگ اس جنگ کے خوف سے بھاگے تھے، انہیں عرب ریاستوں نے بسانے کے بجائے، اسرائیل سے جنگ میں مہرے کے طور پر استعمال کیا۔ اور اسرائیل پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ ان کی نسلوں کو واپس آنے کی اجازت دے۔
اسرائیل کو عملی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی مہاجرین کی واپسی سے ڈیموگرافک توازن خراب ہو جائے گا۔ اسرائیل میں یہودی اور عرب آبادی کے تعلقات مسائل کا شکار رہے ہیں۔ اضافی عرب آبادی کی آمد ریاست کے لئے خودکشی ہو سکتی ہے۔
اس وجہ سے فلسطینیوں کی واپسی کا حق اسرائیل کے لئے ناقابلِ قبول ہے جبکہ فلسطینیوں کے لئے لازمی۔ یہ مسئلہ بظاہر ناقابلِ حل لگتا ہے لیکن جب اس پر مذاکرات ہوئے تو دونوں اطراف نے بند کمروں میں اپنے پبلک بیانات کی نسبت خاصی لچک دکھائی۔
فلسطینی نمائندگان نے یہ تسلیم کیا کہ اسرائیل کے لئے کھلی اجازت دینا ممکن نہیں۔ رفتہ رفتہ کر کے اور تھوڑی تعداد میں واپس آنے دے۔ انہیں اسرائیلی شہریت دی جائے۔ باقیوں کو مستقبل میں فلسطینی ریاست میں یا پھر عرب دنیا میں جگہ دے دی جائے گی۔
ڈیڑھ لاکھ لوگ دس سال کے عرصے میں واپس آئیں۔ (لیک ہونے والی “فلسطین پیپرز” کے مطابق فلسطینی سائیڈ اس سے بھی خاصی کم تعداد پر تیار تھی)۔
اسرائیلی لیڈران باراک اور اولمرٹ نے کچھ تعداد میں مہاجرین کی واپسی قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ شرط یہ کہ ان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فیملی ری یونین کے تحت لایا جائے نہ کہ واپس آنے کے حق کے طور پر۔ اولمرٹ نے پچیس سے تیس ہزار مہاجرین کی واپسی کا عدد پیش کیا تھا۔ یہ پیشکش بھی کی تھی کہ فلسطینی مہاجرین کو ان کے نقصان کا معاوضہ دینے کے لئے عالمی فنڈ بنایا جائے جس میں اسرائیل اپنا حصہ ڈالے گا۔ واپسی کے اس پروگرام کے تحت لوٹنے والے مہاجرین کو مکمل اسرائیلی شہریت اور حقوق دئے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی دونوں اطراف معاملے کے حل کے اصولوں پر اتفاق سے بہت دور نہیں تھیں۔ تعداد اور معاوضے کی رقم پر فرق اتنا نہیں کہ یہ ناقابلِ عبور خلیج ہو۔ لیکن ذمہ داری قبول کرنا رکاوٹ رہا ہے۔
اسرائیلی یہودی آہستہ آہستہ اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ ملک کے قیام کے وقت بڑی تعداد میں لوگ بے دخل اور قتل کئے گئے تھے۔ اس بات کو بھی اب تسلیم بھی کیا جاتا ہے کہ فلسطینی آبادی نے اس دوران بہت تکالیف اٹھائیں۔ لیکن اس کا سختی سے انکار کیا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ داری ان پر آتی ہے۔
دوسری طرف فلسطینیوں نے اسرائیل کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے اور النکبہ پر معافی مانگنے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔
یہ حساس موضوع حل طلب ہے۔
(جاری ہے)
ساتھ لگا آرٹ ورک فلسطینیوں کے مسئلے کو نمایاں کرنے کے لئے۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد 194 میں مہاجرین کی جلد واپسی کا کہا گیا تھا۔ اس میں قرارداد کا نمبر لکھا ہے اور چابی بنی ہے۔ کئی فلسطینی گھروں میں پرانے گھروں کی چابیاں محفوظ ہیں۔ چابیاں اور حنظلہ فلسطینی مہاجرین کے مصائب کی علامت ہیں جن کو فلسطین میں استعمال کیا جاتا ہے۔