چار نومبر 1995 کو اسحاق رابین تل ابیب میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کر کے واپس آ رہے تھے کہ انہیں ایک انتہاپسند اسرائیلی نے گولی مار کے قتل کر د...
چار نومبر 1995 کو اسحاق رابین تل ابیب میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کر کے واپس آ رہے تھے کہ انہیں ایک انتہاپسند اسرائیلی نے گولی مار کے قتل کر دیا۔ قاتل کو امن کے عمل پر غصہ تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی زمین فلسطینیوں کو دی جا رہی ہے۔ اس کے مطابق اسحاق رابین غدار تھے۔ ان کے سیاسی مخالف بنججمن نیتن یاہو بھی سیاسی جلسے میں اسحاق رابین کو “ملک کی زمین کا سودا کرنے والا قوم کا غدار” کہہ چکے تھے۔ (رابین اسرائیل میں سیاستدان ہونے کے علاوہ جنگی ہیرو بھی تھے۔ 1949 کی جنگ میں ایلیٹ کمانڈو فورس میں تھے اور 1967 کی جنگ میں اسرائیلی فوج کے کمانڈر انچیف تھے)۔
رابین کا قتل امن عمل کے لئے دھچکا تھا لیکن یہ عمل اگلے پانچ سال لنگڑا کر چلتا رہا اور پھر دوسرا انتفاضہ شروع ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابین کے قتل نے اسرائیلی سوسائٹی کو تقسیم کر دیا۔ اپوزیشن لیڈر نیتن یاہو امن عمل کے بڑے مخالف تھے۔ رابین کو “غدار” کہنے پر رابین کی لیبر پارٹی نے نیتن یاہو پر قتل پر اکسانے کا الزام لگایا۔ گرما گرم ماحول میں انتخابات ہوئے۔ اس میں نیتن یاہو نے بڑے معمولی مارجن سے فتح حاصل کی۔ ان کا وزیرِاعظم بننا امن عمل کے لئے بڑا سیٹ بیک تھا۔
نیتن یاہو کی کامیابی کی ایک وجہ حماس تھی۔ فروری اور مارچ 1996 میں چار بسوں پر خود کش حملے کئے گئے جس میں 59 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ شمعون پیریز انتخابات میں “نئے مشرقِ وسطٰی” کا خواب دکھا رہے تھے جس میں نہ فوجیں ہوں گی اور نہ سرحدی پابندیاں۔ ان حملوں کے تناظر میں یہ غیرحقیقی اور خطرناک سراب لگتا تھا۔ اس کے مقابلے میں نیتن یاہو کا وعدہ “سیکورٹی” کا تھا۔ نیتن یاہو جیت گئے۔
رابین کے قاتل کی طرح حماس بھی امن پراسس کی مخالف تھی۔ ان کی کارروائیاں امن پراسس میں خلل ڈالنے کے لئے تھیں اور اپنا مقصد حاصل کرنے میں موثر رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیتن ہایو اوسلو معاہدوں کے سخت ناقد تھے اور پی ایل او سے کسی بھی تعلق کے مخالف بھی۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد عمل ختم نہیں کیا۔ تاہم اس کی رفتار سست پڑ گئی۔ وعدے کے مطابق غزہ میں ائیرپورٹ اور بندرگاہ کی تعمیر کروانے میں بار بار تاخیر کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی کو فنڈ ٹرانسفر کرنے میں تاخیر کی گئی۔ مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر دوبارہ شروع کر دی گئی۔ (غزہ میں تعمیر ہونے والے یاسر عرفات ائیرپورٹ پر پہلی پرواز 1998 میں اتری جو قاہرہ سے آئی تھی۔ انتفاضہ الاقصٰی میں اسرائیلی فورس نے کارروائی میں اس کا رن وے اکھاڑ دیا جو کبھی ٹھیک نہیں ہوا)۔
تعلقات خراب ہونے کے باوجود امن پراسس زندہ رہا۔ جنوری 1997 میں نیتن ہاہو اور یاسر عرفات نے ہیبرون پروٹوکول پر دستخط کئے جس کے تحت ہیبرون (قدیم نام: الخلیل) کا شہر فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ اکتوبر 1998 میں اگلا معاہدہ ہوا جس میں مزید زمین فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کی گئی۔ کچھ جزوی اور کچھ مکمل کنٹرول میں۔ ان معاہدوں کی وجہ سے نیتن ہاہو رائٹ ونگ حامیوں کی سپورٹ کھو بیٹھے اور ان کی حکومت گر گئی۔ جلد انتخابات کروانے پڑے جس میں انہیں شکست ہوئی۔ ایہود باراک اگلے وزیرِ اعظم بنے۔
باراک سابق جنرل تھے جو اسرائیلی تاریخ میں سب سے زیادہ عسکری اعزازات لے چکے تھے۔ انہوں نے انتخابی منشور میں اسرائیلی عوام سے سیریا اور فلسطین سے امن قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ صرف دو سال اقتدار میں رہے۔ اگرچہ انہوں نے لبنان پر اسرائیلی قبضہ ختم کیا لیکن انہی کا دور تھا جب امن پراسس مصر میں جنوری 2001 میں آخرکار اپنے اختتام کو پہنچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں پر آگے جانے سے پہلے ایک نظر اس پر کہ وہ بڑے مسائل کیا ہیں جن میں امن مذاکرات میں اتفاق نہیں ہو سکا۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی پہلی تصویر غزہ انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی 2000 میں لی گئی ہے۔ اس وقت یہ ائیرپورٹ کھنڈر ہے جس کے جلد واپس کھلنے کا امکان نظر نہیں آتا۔ اب یہ عمارت اس دقت کی یادگار ہے جب امن کی امید زندہ کچھ عرصے کے لئے زندہ ہوئی تھی۔
دوسری تصویر 14 دسمبر 1998 کی، جب غزہ ائیرپورٹ پر امریکی صدر اترے تھے۔ امریکی صدر کا فلسطین کا یہ اہم علامتی دورہ تھا۔
تیسری تصویر 19 اکتوبر 1999 کی جب اس ائیرپورٹ پر نیلسن منڈیلا نے لینڈ کیا۔