لبنان اور اسرائیل کا زمین پر تنازعہ نہیں۔ دوسرے ہمسائیوں کے برعکس لبنان نے اسرائیل سے جنگ نہیں لڑی تھی (اگرچہ 1948 میں علامتی شرکت کی تھی)۔ ...
لبنان اور اسرائیل کا زمین پر تنازعہ نہیں۔ دوسرے ہمسائیوں کے برعکس لبنان نے اسرائیل سے جنگ نہیں لڑی تھی (اگرچہ 1948 میں علامتی شرکت کی تھی)۔ لبنان جغرافیائی لحاظ سے چھوٹا، ملٹری کے لحاظ سے کمزور اور مذہبی لحاظ سے متنوع ملک ہے۔ یہ اپنے مشکل اندرونی مسائل کا شکار رہا ہے۔ لبنان میں ایک لاکھ فلسطینی مہاجرین گئے تھے۔ ان کو شہریت یا برابری کے حقوق نہیں ملے اور زیادہ تر مہاجر کیمپوں تک محدود رہے۔ اردن سے تنظیمِ آزادی فلسطین کی جبری بے دخلی کے بعد لبنان اس کا ہیڈکوارٹر بن گیا۔ مہاجر کیمپوں سے اس کے ممبر بننے لگے۔ یہاں ملٹری تربیتی کیمپ قائم ہوئے۔ لبنان کی جنوبی سرحد اسرائیل کے شمال سے ملتی ہے۔ یہاں پر آرٹلری پوزیشنز بنیں جہاں سے اسرائیل پر گولہ باری اور گوریلا حملے ہوا کرتے۔ سب سے مہلک ترین حملہ گیارہ مارچ 1978 کو ہوا جو coastal road massacre کے نام سے جانا جاتا ہے جب پی ایل او کے کمانڈوز جنوبی لبنان سے کشتی کے ذریعے اسرائیلی ساحل تک پہنچے۔ ایک ٹیکسی اور دو بسوں کو ہائی جیک کیا۔ تیرہ بچوں اور ایک سیاح سمیت 37 لوگوں کو قتل کیا۔
لبنان میں ایک اور پہلو شیعہ بمقابلہ سنی کا تھا جس میں پی ایل او اور شیعہ آبادی کے درمیان کی کشیدگی تھی۔
لبنان اسرائیلی حملوں کا ٹارگٹ بن گیا، ویسے ہی جیسے اس سے پہلے اردن کے ساتھ ہوا تھا۔ ان مہلک حملوں نے پی ایل او کے حملے تو نہیں روکے لیکن لبنانی کرسچن اور دروز آبادی کی پی ایل او سے کشیدگی میں اضافہ کر دیا، جن کے لئے یہ پرائی لڑائی تھی۔ اور ان وجوہات کی بنا پر لبنان میں 1975 میں ایک بدترین خانہ جنگی چھڑ گئی۔
اس میں سیریا کی فوج بھی شامل ہو گئی اور پینتیس ہزار فوجی لبنان میں آ گئے۔ اس خانہ جنگی کے درمیان مارچ 1978 کو اسرائیل نے جنوبی لبنان میں بڑا آپریشن (آپریشن لیطانی) کیا۔ اس کا مقصد پی ایل او کو اسرائیلی سرحد سے پیچھے دھکیل کر “سیکورٹی زون” قائم کرنے کا تھا جو لبنان کی کرسچن ملیشیا “فری لبنان آرمی” کے زیرِ تحت ہو۔ ایک ہفتے کے اندر ایک سے دو ہزار کے درمیان لبنانی اور فلسطینی اس میں مارے گئے جبکہ ایک لاکھ لوگوں کو گھر چھوڑنا پڑا۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف دو قراردادیں منظور ہوئیں اور اسرائیل کو جنوبی لبنان تین ماہ بعد چھوڑنا پڑا۔ اس علاقے میں اقوامِ متحدہ کی فورس آ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ میں اسرائیلی سفیر پر 3 جون 1982 پر حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ ابو ندال تنظیم نے کیا تھا۔ اس تنظیم کا ہیڈکوارٹر عراق میں تھا اور اس کو عراق کی حکمران بعث پارٹی کی سپورٹ تھی۔ شاید یہ اسرائیل کی طرف سے عراق کے نیوکلئیر ری ایکٹر پر 1981 میں کئے گئے حملے کا جواب ہو۔ جو بھی تھا، اسرائیلی انٹیلی جنس کو معلوم تھا کہ یہ پی ایل او کی طرف سے نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن دائیں بازو کی جماعت لیکود اس وقت حکومت میں تھی۔ بیگن وزیرِاعظم تھے اور ایریل شیرون وزیرِ دفاع۔ شیرون کا لبنان پر حملے کا پلان دیر سے تھا۔ اس سے انہیں موقع مل گیا۔ بیگن نے پی ایل او کو ذمہ دار قرار دیا اور لبنان میں پی ایل او کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کا حکم کر دیا۔
چار جون 1982 کو اسرائیلی کابینہ نے جنگ کی منظوری دے دی۔ اس کا نام “آپریشن پیس فار گلیلی” تھا۔ سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ لبنان میں پچیس میل سے زیادہ اندر نہیں جایا جائے گا اور یہ آپریشن 48 گھنٹے سے زیادہ نہیں رہے گا۔ اس میں اعلانیہ مقصد سرحد کے قریب پی ایل او کے بیس ختم کرنا تھا۔ لیکن کابینہ نے جس پلان کی منظوری دی تھی، شیرون اور ایتن کا بنایا ہوا پلان اس سے بہت زیادہ کا تھا۔ وہ پی ایل او کا پورے لبنان سے خاتمہ چاہتے تھے۔ ان کا یہ بھی پلان تھا کہ لبنان سے فلسطینوں کو اردن ہجرت پر مجبور کر دیں۔ (ایتن اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ فلسطین کا مطلب اردن ہے)۔ شیرون کا گرینڈ پلان یہ تھا کہ سیریا کی فوج کو لبنان سے نکال دیا جائے اور میرونائٹ کرسچن ملیشیا “فلانج” کی پرواسرائیل حکومت قائم ہو۔ اور یہ حکومت اسرائیل سے امن معاہدہ کر لے۔ فلسطین کا مسئلہ اس طریقے سے ختم کر دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ جون کو اسی ہزار کی فوج اور ٹینکوں نے لبنان پر پوری طاقت سے حملہ کیا۔ جلد ہی اسرائیلی کابینہ اور پبلک کو سمجھ آ گئی کہ انہیں غلط بتایا گیا تھا۔ جس طرح اسرائیلی افواج آگے بڑھتی گئیں، عوام میں جنگ کی مخالفت بڑھنے لگی۔ اسرائیل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنگ کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہو گئے۔ اور اس سے بھی زیادہ یہ ہوا کہ کئی اسرائیلیوں نے اعلانیہ طور پر جنگ میں لڑنے سے انکار کر دیا۔ ایسے معترضین نے “یش گوول” (ہر چیز کی حد ہے) کے نام سے تنظیم بنائی۔
اسرائیل نے مغربی بیروت کا دو ماہ تک محاصرہ کیا۔ یہ چودہ جون سے اکیس اگست تک جاری رہا۔ اس میں بھاری بمباری کی گئی۔ اس سے موصول ہونے والی تصاویر نے عالمی غم و غصہ پیدا کر دیا۔ دنیا بھر میں ان کو ٹیلی ویژن پر روزانہ دکھایا جاتا۔ اسرائیل کو بین الاقوامی میڈیا اور حکومتوں کی تنقید کا سامنا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے سب سے پکے دوست امریکہ نے بھی پابندیاں لگانے کی دھمکی دے دی۔
بیگن اور شیرون نے اندرونی اور بیرونی، ہر طرح کی تنقید سنی ان سنی کر دی۔ ان کا مقصد ہر قیمت پر پی ایل او کو جڑ سے اکھاڑ دینا تھا۔
(جاری ہے)