اسلام بطور نظام حیات قسط نمبر 1 لفظ اسلام کی لغوی و اصطلاحی تشریح : لفظ اسلام عربی زبان میں مصدر ہے جس کے معنی حسب ذیل ہیں:- 1- ...
اسلام بطور نظام حیات
قسط نمبر 1
لفظ اسلام کی لغوی و اصطلاحی تشریح :
لفظ اسلام عربی زبان میں مصدر ہے جس کے معنی حسب ذیل ہیں:-
1- سر تسلیم خم کرنا + کسی کے آگے جھک جانا۔
2- اطاعت قبول کرنا اور اس کے مقابلے میں اپنی آزادی سے دستبردار ہو جانا۔
گویا اللہ اور رسول کو تسلیم کرتے ہوئے بارگاہ خداوندی میں جھک جانا اور اپنےآپ کو اللہ پاک کی تحویل میں دے دینے کا نام اسلام ہے اور ایسا کرنے والے کو مسلمان کہتے ہیں۔
اسلام وہ دین ہے جو اللہ کی حاکمیت پر مبنی زندگی کا مکمل نظام پیش کرتا ہے جس میں ہر انسان امن اور سلامتی کی نعمتوں سے مالامال ہوتا ہے اور نہ صرف انسان کی موجودہ زندگی کے انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلو کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں بلکہ آنیوالی اخروی زندگی بھی سود مند ہو جاتی ہے ۔
اسی طرح انسان کا اپنے آپ کو کسی کی تحویل میں دے دینا دو طرح سے ہے ایک عقیدہ اور ایمان کے اعتبار سے اور دوسرا اسلام کے سماجی ، اخلاقی ، معاشی ، سیاسی اورانتظامی نظام کے اعتبار سے اور یہ اسلام کا وہ پہلو ہے جس سے غیر مسلم انسان بھی افادہ اور فائدہ حاصل کرتا ہے ، اس کو فقہائے اکرام نے باقاعدہ امت اجابت اور امت دعوت کی اصطلاحات استعمال کر تے ہوئے بیان فرمایا ہے۔
اسطرح لفظ نظام بھی عربی لغت کے اعتبار سے اپنے اندر بڑے وسیع اور کامل معنی رکھتا ہے لغت کے مطابق وہ دھاگہ جو تسبیح میں تمام دانوں اور چھوٹے امام دانوں کو تسبیح کے مرکزی امام دانے کے نیچے اکٹھا کر کے باندھ دیتا ہے ، نظام کہلاتا ہے تو گویا اسلام نظام حیات سے مراد تمام امت اجابت (تمام مسمان) اور امت دعوت (تمام غیر مسلم) کو تمام سیاسی ، سماجی ، معاشی ، تعلیمی ، عسکری مطلب ہر طرح کی نظامتوں کو مرکزی مجلس شوری کے نیچے باندھ دیتا ہے۔
“اسلام نظام حیات ہے” یہ وہ جملہ ہے جو ہم ہمیشہ سنتے ، پڑھتے اور سوچتے چلے آرہےہیں، میں عرصے تک اس معاملے میں الجھا ہوا سرگرداں رہا اور بالعموم مذہبی شخصیات اور افکار و نظریات کے حامل مختلف طبقات کے لوگوں سے اس سوال کے جواب میں کوئی تشنگی کو مٹانے والی گفتگو نہ سن سکا اور اسی طرح کتب کے مطالعے میں بھی کوئی سیر حاصل علم کا حصول ممکن نہ ہوا ، اسی فکر اور عملی تسلسل میں جب سیرت پاک کے مطالعہ میں مشغول ہوا تو ہر لمحہ آگے بڑھتے ہوئے مجھے میرے تشنگی آمیز سوالوں کے جوابات میسر آنے لگے اور میری روح تسکین آمیز رویوں سے آشنا ہوئی ۔
اسلام نظام حیات کے موضوع پر آگے بڑھنے اور دئیے گئے نظام کے خاکے کو سیرت کی روشنی میں مزید سمجھنے سے پہلے ہم کو چاہیےکہ ہم سیرت پاک کے حوالے سے بنیادی معلومات کا خزانہ ضرور حاصل کر لیں ۔
جس طرح اللہ پاک نے قرآن و حدیث کو تحفظ فراہم کیا بالکل اسی طرح اللہ پاک نے سیرت پاک کو بھی اپنی محبت اور لطف وکرم کے ساتھ انتہائی تحفظ فراہم کیا اور اپنے محبوب کے انداز زندگی(جو خود شریعت کا درجہ رکھتی ہے) کے گوشے گوشے کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ۔
اس سے بھی بہت پہلے جب حدیث کا علم معاشرتی اعتبار سے رواج پا چکا تھا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و واقعات راوی معاشرے میں عام طور پر بیان کرتے تھے، اہل بیت کے پاک گھرانے میں اس وقت بھی بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور اس کے نشیب و فراز پر مبنی واقعات سنائے جاتے اور یاد کروائے جاتے تھے ۔
اسطرح تحریری علم کے حوالے سے حضرت ابوبکر کے نواسے عروہ بن زبیر اور حضرت عثمان کے صاحبزادے ابان بن عثمان کے نام وہ نمایاں نام ہیں جنہوں نے باقاعدہ سیرت پر کتب تحریر کر لیں تھیں اور پھر اگلے وقتوں میں ابن اسحاق ( امام زہری کے شاگرد 151ھ ) نے سیرت پر مستقل فن کی حثیت سے کتاب تحریر کر دی اور ان کے بعد پھر ابن ہشام کا کام بھی سیرت نگاری کے فنی اعتبار سے آگے بڑھنے میں اپنی اہمیت رکھتا ھے، آپ ابن اسحاق کی فنی اور ثقاہت کے اعتبار سے حثیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ امام بخاری نے بخاری شریف میں کتاب الغزوات کا آغاز ہی ابن اسحاق کی روایات سے کیا ہے ۔
اسی طرح واقدی ، طبری ، محمد بن مسلم ، معمر بن راشد ، شرجیل بن اسد ، عاصم بن عمر اور مو’سی بن عقبہ علم سیرت کی تدوین و ترتیب کے بڑے اور جلیل القدر مصنفین ہیں۔
اس سے اگلا بڑا دور طبقات ابن سعد ، امام بہقی ، امام ابو نعیم ، امام ابن عساکر ، امام مقریزی ، امام صالحی ، امام حلبی ، امام ابن کثیر ، امام قسطلانی ، امام زرقانی، مصنف الشفاء، مصنف الوفا ، مصنف کتاب الشرف اور امام جلال الدین سیوطی کا ہے۔
اسی طرح اردو زبان میں علم سیرت پر بنیادی کام میں علامہ شبلی نعمانی اور ان کے وفادار شاگرد سید سلیمان ندوی کا نام نہایت اہم ہے اور اسی طرح اردو میں سیرت کی فنی اعتبار سے سے جدیدیت پر قاضی سلیمان منصورپوری اور ڈاکٹر حمید اللہ کے نام اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔
اس سے اگلے وقتوں میں جسٹس کرم شاہ الازہری بھی سیرت نگاری کی دنیا کا ایک نمایاں نام ہیں لیکن جو کام آج کے دور کے مجدد عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سیرت نگاری میں انجام دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے؛ انہوں نے سیرت نگاری میں میں نا صرف تجدیدیت کا فریضہ انجام دیا ہے بلکہ سیرت نگاری کے فنی محاسن پر قائم رہتے ہوئے اپنی سیرت کی کتاب کا آغاز ہی 2 جلدوں پر مشتمل مقدمہ نامی کتاب سے کیا ہے جس میں نا صرف اصول سیرت کو قائم رکھا ہے بلکہ اصول سائنس، کیوں، کیسے، کب اور کسطرح کو بھی عملی بنیادوں پر شامل فرما دیا ہے؛ آپ سے پہلے صرف تاریخ ، تفسیر اور حدیث کے مقدمے لکھے جاتے تھے اور بقیہ سیرت 14 جلدوں پر مشتمل الگ سے تحریر فرمائی ہے۔
یوں سیرت پاک آج کے اس دور میں اسلامی نظام و اعمال کو عملی بنیادوں پر سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے اپنا در وا کیے ہوئے ہے ۔
والسلام
اندھیروں میں صبح کی امید رکھنے والا
پروفیسر عبدالمنان ہل اسپائیر کالج شاہدرہ
(جاری ہے)
تحریر و تحقیق: پروفیسر عبدالمنان ہل