Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

نیکی کی تھیوری اور ارسطو (19)

ایسے شخص کا تصور کریں جسے ہمیشہ پتا ہو کہ کہنا کیا ہے۔ کسی بھی گرما گرم صورتحال کو ٹھنڈا کر دے۔ کسی کو بری خبر بڑے سلیقے سے دے۔ پراعتماد ہو ...


ایسے شخص کا تصور کریں جسے ہمیشہ پتا ہو کہ کہنا کیا ہے۔ کسی بھی گرما گرم صورتحال کو ٹھنڈا کر دے۔ کسی کو بری خبر بڑے سلیقے سے دے۔ پراعتماد ہو لیکن مغرور نہیں۔ بہادر ہو لیکن لاپرواہ نہیں۔ سخی ہو لیکن فضول خرچ نہیں۔ ایسا شخص جس کی صحبت میں ہر کوئی رہنا چاہے اور اس جیسا بننا چاہے۔ ایسا جس نے “شخص” ہونے کے آرٹ میں مہارت حاصل کر لی ہو۔
ارسطو کا خیال ہے کہ اگرچہ ایسے لوگ کمیاب ہیں لیکن موجود ہیں۔ اور ہمیں ایسا بننے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ اخلاقی تھیوری فرد کی نیکی کی بنیاد پر ہے۔
دوسری اخلاقی تھیوریوں کے برعکس یہ زیادہ وقت اس پر نہیں لگاتی کہ آپ کو کرنا کیا چاہیے۔ اس کا تمام فوکس شخصی کردار پر ہے۔ بجائے اس کے، کہ کہا جائے کہ “فلاں اصولوں کی پاسداری کرو تو اچھے انسان بن جاوٗ گے”، اس تھیوری میں زور اس پر ہے کہ فوکس اچھا انسان بننے پر کریں تو ٹھیک ایکشن اس کے بعد خود ہی بغیر زور لگائے کئے جا سکتے ہیں۔
اچھا انسان بنیں۔ باقی اس کے بعد ہو جائے گا۔
اگلا سوال یہ کہ آپ اچھا انسان کیوں بننا چاہیں گے؟ اس کی وجہ یوڈامونیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورچو تھیوری کی جڑ قدیم مفروضے پر ہے کہ انسانی فطرت فکسڈ ہے۔ اور اگر ہم اس فطرت کے ساتھ رہیں گے تو پھلیں پھولیں گے۔ ارسطو نے اس کی وضاحت “ٹھیک فنکشن” سے کی تھی۔ ہر شے کا فنکشن ہے اور اچھی شے وہ ہے جو اپنا فنکشن سرانجام دیتی ہے اور اگر ایسا نہیں کرتی تو بری ہے۔ مصنوعی چیزوں میں تو یہ دیکھنا آسان ہے۔ کند چاقو ٹھیک نہیں کاٹتا، اس لئے یہ اچھا چاقو نہیں ہے۔ یا پھر پھول اک فنکشن بڑھنا اور بڑھانا ہے۔ جو پھول ایسا نہیں کرتا، وہ برا پھول ہے۔
اور ایسا ہی انسانوں میں ہے۔ صحتمند طریقے سے بڑھنا ہمارا ایک فنکشن ہے۔ اس کے علاوہ ہم معقول حیوان بھی ہیں اور سماجی حیوان بھی ہیں۔ اس لئے ہمارے فنکشن میں عقل کا استعمال بھی ہے اور سب کے ساتھ ملکر رہنا بھی۔
(ارسطو کے یہ خیالات خاصی دیر تک نہ صرف اخلاقیات بلکہ سائنس میں بھی بااثر رہے۔ اور قرونِ وسطٰی میں نیچرل لاء تھیوری اسی بنیاد پر تھی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو کا کہنا تھا جیسے کسی بیج میں درخت بننے کی صلاحیت فطری ہے، ویسے ہی نیکی ہماری فطرت کا حصہ ہے۔ لیکن سوال یہ کہ باکردار ہونے کا مطلب کیا ہے؟
ارسطو نے اس کی تعریف کی کہ “باکردار ہونے کا مطلب یہ کہ ٹھیک وقت میں ٹھیک کام ٹھیک طریقے سے ٹھیک مقدار اور ٹھیک لوگوں کے ساتھ کیا جائے”۔
اس سے لگتا ہے کہ اس کا کوئی بھی مطلب نہیں۔ کیونکہ اس سے زیادہ مبہم بات کرنا خاصا مشکل ہے۔
لیکن ارسطو کے مطابق، یہاں پر اس سے زیادہ وضاحت کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر آپ نیک ہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کرنا کیا ہے۔ آپ ہمیشہ جانتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ کیسے معاملات رکھنے ہیں۔ آپ کے پاس اچھا فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ لوگوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ ٹھیک اور غلط کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو کے خیال میں نیکی شخصیت کی پائیدار خاصیتیں ہیں جو ایک بار اگر ڈویلپ ہو جائے تو اچھے رویے کی طرف
لے جائے گی۔
ارسطو کے مطابق اچھائی دو انتہاوٗں کے درمیان ہے اور یہ انتہائیں برائی ہیں۔ یہ افراط اور تفریط کے درمیان کی ٹھیک جگہ ہے۔
مثلاً، بہادری ایک اچھائی ہے۔ لیکن بہادری کیا ہے؟ اس کے لئے سوچ کا ایک تجربہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ رات کو گھر واپس جا رہے ہیں۔ آپ کو نظر آیا ہے کہ ایک شخص کسی کو لوٹ رہا ہے۔ بہادر شخص یہاں پر کیا کرے گا؟ شاید آپ کہیں کہ بہادر شخص دوڑ کر اس ڈکیتی کو روک دے گا کیونکہ بہادری کا مطلب یہ ہے کہ آپ اچھے مقصد کی خاطر اپنے نقصان کی پرواہ کئے بغیر عمل کریں۔ ٹھیک؟ نہیں۔
ارسطوئی معیار کے مطابق ایک اچھا شخص یہاں پر پہلے صورتحال کا جائزہ لے گا۔ وہ ڈاکو کو دیکھے گا اور اگر ایسا سمجھتا ہے کہ اس کا یہاں پر مداخلت کرنا محفوظ ہے تو پھر ایسا کرنا ایک بہادر انتخاب ہے۔ لیکن اگر وہ اندازہ لگاتا ہے کہ ایسا کرنے کا مطلب اپنے اور لٹنے والے کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہے تو بہادر انتخاب خود سے مداخلت کے بجائے، کسی کو مدد کے لئے بلانا ہو سکتا ہے۔
ارسطو کے مطابق، بہادری ڈرپوک اور لاپرواہ ہونے کی انتہاوٗں کے درمیان کی اچھائی ہے۔ بہادر ہونے کا مطلب بغیر سوچے سمجھے خطرے میں چھلانگ لگا دینا نہیں ہے۔ بہادر شخص صورتحال کو سمجھے گا، اپنی صلاحیت سے واقف ہو گا اور اس کے مطابق فیصلہ لے گا جو اس خاص وقت کے حساب سے درست ہو گا۔
اور بہادری کی صفت کا حصہ یہ بھی ہے۔ ٹھیک وقت پر ٹھیک عمل۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت بار (لیکن ہر بار نہیں) ایسا کام کرنے کی ہمت، جو آپ کر سکتے ہیں اگرچہ یہ آپ کو خوف زدہ کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو کے خیال میں تمام اچھائیاں اسی طرح کام کرتی ہیں۔ اچھائی انتہا سے دور میانہ روی کا نام ہے۔ اس تھیوری میں “سب کچھ” یا “کچھ نہیں” کی صورت نہیں۔ کسی بھی چیز میں بھی نہیں۔ یہاں تک کہ دیانتداری میں بھی نہیں۔
اس نکتہ نظر میں دیانتداری بھی دو برائی کی دو انتہاوں کے بیچ ہے۔ یہ “سفاک بات کہنے” اور “کہنے کے وقت خاموش رہ جانے” کی برائیوں کے درمیان ہے۔ مثلاً، کسی کو جا کر بتانا کہ اس کے چہرے پر نکلا بڑا دانہ بہت بھدا لگ رہا ہے ۔۔۔۔ “میں تو سچ ہی بتا رہا تھا” کے زمرے میں نہیں آتا۔ دیانتداری کی اچھائی کی صفت میں یہ جاننا بھی لازم ہے کہ کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے۔
اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ مشکل بات کو سلیقے سے کیسے کرنا ہے۔ بری خبر کیسے دینی ہے۔ تنقید کا طریقہ کیا ہے جو دوسرے کی روح کو نہ مسل دے۔
سخاوت کی اچھائی بھی ایسے ہی کام کرتی ہے۔ یہ کنجوسی اور فضول خرچی کی برائیوں کے درمیان ہے۔ کسی نشئی کو نشہ کرنے کے لئے رقم دینا سخاوت نہیں۔ دوستوں کو پارٹی دینا جب آپ کو اس رقم کی ضرورت گھر کا کرایہ دینے کے لئے ہے، اچھائی نہیں۔ سخاوت کی اچھائی کا مطلب یہ ہے کہ ٹھیک رقم اس وقت دینا جب آپ کے پاس ہو اور وہاں پر، جہاں اس کی ضرورت ہو۔
ظاہر ہے کہ اس کا مطلب کنجوسی نہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو پہچانا جائے کہ کب کس کو نہیں دینا چاہیے اور ہاتھ روک لینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ارسطو کی تعریف مکمل طور پر مبہم کیوں تھی۔ کیونکہ اس سنہری اوسط کا تعلق صورتحال سے ہے۔
اب اگلا سوال: اگر آپ کو ہر بات یہ فیصلہ لینا ہے کہ کیا  کئے جانا نیکی ہے اور کیا نہیں تو نیک بننا سیکھنا کبھی بھی کیسے ممکن ہو گا؟
ارسطو کا خیال تھا کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کتابوں سے سیکھی جا سکتی ہیں لیکن یہ نہیں کہ اچھا شخص کیسے بنا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیکی ایک مہارت ہے، زندگی کا ایک طریقہ ہے اور اس کو سیکھنے کا طریقہ صرف عمل اور فعل کے ذریعے آتا ہے۔ نیکی عملی دانائی ہے۔ کئے بغیر اسے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ آپ کو یہ خود سے اور اکیلے نہیں کرنا۔ ارسطو کے مطابق کردار “عادت” سے بنتا ہے۔ اگر آپ بار بار دہراتے رہیں گے تو رفتہ رفتہ اچھائی آپ کے کردار کا حصہ بنتی جائے گی۔ اور اس کے لئے آپ کسی ایسے شخص کو کاپی کریں جو پہلے سے اچھائی کی اقدار پر عمل پیرا ہو۔ باکردار لوگ دوسروں کے لئے اخلاقی مثال ہیں اور ہم یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ انہیں پہچان سکیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان جیسے بن سکیں۔ تو ہم دیکھ کے اور کر کے، نیکی کی اقدار حاصل کر سکتے ہیں۔
شروع میں اس میں مشکل ہوتی ہے۔ کئی بار یہ زبردستی کا کام لگ سکتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ طریقہ آپ کی شخصیت کا حصہ بن جائے گا اور آپ کی پائیدار خاصیت بھی۔ اور جب بھی اس کی ضرورت ہو گی، اس خاصیت کا اظہار بغیر محنت کے ہوتا رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیوں؟ آپ کو ایسا کرنے میں تحریک کیوں ہو گی؟ اگر آپ کی کوئی خواہش ہی نہیں کہ ہمیشہ ٹھیک بات کریں یا پھر آپ وہ شخص ہوں جس کے پاس ہمیشہ بوقتِ ضرورت، بات کہہ دینے کی جرات ہو؟
ورچو تھیوری کے مطابق آپ کو نیک اس لئے بننا چاہیے کہ یہی تو انسان ہونے کی معراج ہے۔ اور اس سے ہم یودامونیا حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ یونانی لفظ ہے اور اس کا اردو میں کوئی سادہ معنی نہیں۔ اس کا مطلب “ایک اچھی گزاری گئی زندگی” یا “ روحانی نمو کی زندگی” کے قریب تر ہیں۔
اور یوڈامونیا کی زندگی محنت کی زندگی ہے۔ اس کا مطلب خود کو اپنی حدود تک دھکیلنے کے ہیں اور کامیابی ڈھونڈنے کے۔ یہ خوشی کا مطلب کسی بہت مشکل چیز کو حاصل کر لینا ہے جو آپ کو براہِ راست نہیں دی گئی تھی۔  ایسی زندگی گزارنے کے انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں کوئی بھی ایسا مقام نہیں آئے گا جب کوئی کہہ دے کہ وہ اب اس سے مزید بہتر نہیں ہو سکتا۔ آپ مسلسل نئے ٹارگٹ بنا رہے ہیں اور ان تک پہنچنے کے لئے اپنے مسلز بھی۔ اور اس انتخاب کا مطلب یہ بھی ہے کہ بہت سے مواقع مایوسی اور ناکامی کے ہوں گے۔ یہ قوسِ قزح اور چاکلیٹ سے بھری زندگی کا انتخاب نہیں۔ سخت تھکا دینے والے دن کے بعد بستر پر گر جانے کی میٹھی خوشی کا انتخاب ہے۔ اس کا اطمینان ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے مقدور بھر کوشش کر لی کہ اپنی صلاحیت اور حالات کے مطابق وہ کر لیا جو بساط میں تھا۔ اس کا اطمینان کہ آپ اپنا بہترین ورژن ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو کی نظر میں یہ اخلاقیات ہیں۔ اپنی شخصیت کا بہترین روپ بننا۔ اپنی کمزوریوں پر قابو پانا اور اپنی خوبیوں پر مزید کام کرنا۔ اور ارسطو کے لئے، جو شخص ایسا طرزِ زندگی اپنائے گا، وہ اچھے کام کرے گا۔
(جاری ہے)


اس کی ویڈیو
https://youtu.be/PrvtOWEXDIQ