اسرائیل فلسطین تنازعہ نہ ہی سب سے تباہ کن ہے اور نہ ہی سب سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنے والا۔ سیریا کی جنگ میں چند برسوں میں اس سے زیادہ لو...
اسرائیل فلسطین تنازعہ نہ ہی سب سے تباہ کن ہے اور نہ ہی سب سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنے والا۔ سیریا کی جنگ میں چند برسوں میں اس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں جتنے فلسطین تنازعے میں دہائیوں میں۔ لیکن یہ دنیا کا طویل ترین اور مشکل ترین تنازعہ ہے۔ اور یہ حل ہونے کے قریب نہیں۔
نہ صرف یہ مشکل ترین ہے بلکہ کوئی اور تنازعہ نہیں جو دنیا کی اس قدر توجہ حاصل کرتا ہے۔ وہ لوگ بھی جو اس تنازعے سے بہت دور ہیں، ان کی بھی۔ دنیا بھر میں پارلیمان میں، عالمی تنظیموں میں، کالجوں میں اس پر بحث ہوتی ہے۔
اگرچہ اس میں لوگوں کی دلچسپی تو بہت ہے لیکن اس تنازعے سے واقفیت کم ہے۔ اس کی ایک وجہ اس سے وابستہ جذبات ہیں۔ اس کی پیچیدگی کو سمجھے بغیر صرف سادہ اور سطحی معلومات نعرہ بازی کے لئے تو کافی ہوتی ہے لیکن ایسا نکتہ نظر تنازعے کی باریکیاں نظر سے اوجھل کر دیتا ہے اور اس کو سمجھنا ناممکن بنا دیتا ہے۔ اگرچہ کہ ایسا ممکن نہیں کہ ہم اس تنازعے کو مکمل طور پر معروضی انداز میں سوچ سکیں۔ کیونکہ ہم سب اپنا ذاتی پس منظر اور ذہنی جھکاوٗ رکھتے ہیں۔ لیکن اس سیریز میں ہم ایک کوشش کر دیکھیں گے کہ اپنے تعصبات اور جذبات کو کچھ دیر کے لئے الگ کر سکیں۔ اگر یہ آپ کی دلچسپی کا ٹاپک ہے تو ایسا کرنا زیادہ مشکل ہو گا لیکن زیادہ ضروری بھی۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس تنازعے کے بارے میں لوگ اپنی انفارمیشن میڈیا سے لیتے ہیں۔ ایسا ضروری نہیں کہ میڈیا biased ہو (اگرچہ ہو سکتا ہے) لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا کوریج ہمیشہ سطحی نظارہ دکھاتی ہے اور اس روز کے دلچسپ واقعے سے زیادہ گہرائی میں نہیں جاتی۔ تناظر اور پس منظر جو اس کی طویل تاریخ کی وجہ ہے، میڈیا کے شور و غل کا حصہ نہیں بنتا۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر لوگ تنازعے کی گہری سمجھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ مسئلے کی طوالت کی وجہ سے آسان نہیں لگتا۔
اس سیریز میں اہم حقائق اور تنازعے کے بڑے معاملات کے بارے میں معلومات ہو گی۔ اگر آپ اس وقت اس سب کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تو بھی امید ہے کہ آپ کو یہ سیریز پڑھنے میں دشواری نہیں ہو گی۔
تنازعہ کیا ہے؟ اس کا حل اتنا مشکل کیوں ہے؟ اور وہ حل جو آپ کو کسی نے بتایا تھا، کام کیوں نہیں کرے گا؟ امید ہے کہ اس سیریز میں ان کے کچھ جوابات مل سکیں گے۔
اس سیریز میں اس تنازعے کے تمام پہلو اور واقعات نہیں۔ (ان کے لئے بہت سی اچھی کتابیں مل جائیں گی)۔ چیدہ چیدہ اہم واقعات کا ذکر ہے۔
فلسطینی اور اسرائیلی بیانیہ مختلف ہیں، الفاظ اور اصطلاحات بھی مختلف ہیں۔ جہاں پر متنازعہ اصطلاحات ہیں، وہاں پر اس سیریز میں فلسطینی اصطلاح استعمال کی گئی ہے (مثال کے طور پر جودیا اور سماریا نہیں بلکہ مغربی کنارہ کہا گیا ہے)۔ مختلف نکتہ نظر کا ذکر ہے لیکن الزام دینے سے حتی الامکان اجتناب کیا گیا ہے۔ یہ عصرِ حاضر کی ایک بڑی ٹریجڈی کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل فلسطین تنازعے میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ یہ صدیوں سے جاری ہے۔ یا اس کا تعلق قدیم مذہبی جھگڑوں سے ہے۔ یہاں تک کہ مذہب مخالف لوگ اس تنازعے کو مذاہب کو نفرتوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کی مثال کے طور پر دکھاتے ہیں۔ تاریخ اور حقائق کو ایسے نکتہ نظر سے اتفاق نہیں۔
ہاں، اس تنازعے میں مذہب کا پہلو اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن یہاں پر اسلام اور یہودیت کے درمیان تھیولوجیکل فرق کے بارے میں جھگڑا نہیں۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق کے بارے میں کوئی تنازعہ نہیں۔ نہ ہی اس پر کہ روزہ رمضان میں رکھا جائے یا یوم کپور پر۔ لیکن یہ تنازعہ زیادہ سنجیدہ ہے۔ اس کا تعلق ایک ہی زمین پر دعوے سے ہے۔ بلکہ نہیں، یہ اس سے بھی زیادہ سنجیدہ ہے۔ یہ شناخت کے بارے میں ہے۔ اس کا آغاز انیسویں صدی میں ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
اس سیریز میں مندرجہ ذیل کتابوں سے مواد ہے۔
The Israeli - Palestinian Conflict: Dov Waxman
The Hundred Years’ War on Palestine: Rashid Alkhalidi
The Israel - Palistine Conflict: A History: James. L Gelvin