Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پھیلتی کائنات

کائنات پھیل رہی ہے اور کائنات کو سمجھنے کے لئے کی جانے والی انسانی دریافتوں میں سے اس کو سب سے بڑی دریافت کہا جا سکتا ہے۔    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج...


کائنات پھیل رہی ہے اور کائنات کو سمجھنے کے لئے کی جانے والی انسانی دریافتوں میں سے اس کو سب سے بڑی دریافت کہا جا سکتا ہے۔   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے ایک سو سال پہلے ہمیں کائنات کا جو علم تھا، اس میں ہمارا سورج، اس کے گرد گردش کرنے والے آٹھ سیارے اور ستاروں کا جمگھٹا، جو ملکی وے کہلاتا تھا، تک محدود تھی۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ملکی وے جیسے دوسرے جمگھٹے یعنی کہکشائیں موجود ہیں۔ اندھیری  رات کے صاف آسمان پر چند ہزار ستارے نظر آتے تھے اور بس ۔۔۔
اس سے صرف چار سو سال پہلے یہ دریافت کیا گیا تھا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں اور پچھلی صدی کے آغاز پر یہ پتا لگا تھا کہ سورج بھی کائنات کا مرکز نہیں۔
اور پھر کائنات کے پھیلاوٗ کی دریافت ایک اور بڑا انقلاب تھی۔ کائنات جامد یا غیرمتغیر نہیں تھی۔ اور یہ کہ اس میں صرف ہماری کہکشاں ہی نہیں، اور بھی ہیں۔ دو چار یا پندرہ بیس نہیں، ایک کھرب مزید کہکشائیں ہیں جو اس مجموعی پھیلاوٗ کا حصہ ہیں۔ سپیس خود جامد نہیں، ڈائنامک ہے اور وقت کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب یہ معلوم ہو گیا تو پھر اگلے قدم میں یہ نتیجہ نکالنا آسان تھا کہ اس فلم کو اگر ریوائنڈ کیا جائے (یعنی الٹا چلایا جائے) تو پھر ہم اس کی ابتدا کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں۔ اس کی عمر بھی نکالی جا سکتی ہے۔ اس نے، بطورِ انسان، ہمارا زاویہ نگاہ ہی بدل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ معمہ کئی ٹکڑے ملا کر حل کیا گیا۔ آسٹرونومر ایڈون ہبل کیلے فورنیا میں ماونٹ ولسن آبزرویٹری میں کچھ فلکیاتی آبجیکٹس کی پیمائش کر رہے تھے جن کو نیبولا کہا جاتا ہے۔ نیبولا لاطینی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب “غیرواضح” ہے۔ ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا ہیں۔ اس وقت سوال یہ تھا کہ کیا یہ نیبولا ہماری کہکشاں سے باہر الگ کہکشائیں ہیں؟ یا پھر یہ کہکشاں کے اندر کے علاقے ہیں جہاں نئے ستارے بن رہے ہیں۔
ایڈون ہبل نے ان کی تصاویر کی سیریز اتاری۔ اس وقت ڈیجیٹل تصاویر تو تھی نہیں۔ یہ شیشے کی بڑی فوٹوگرافک پلیٹوں پر لی گئی تصاویر تھیں۔ یہ مختلف نیبولا کی وقت کی سیریز میں لی گئی تھیں۔ انہوں نے معلوم کیا کہ ان نیبولا کے اندر روشنی کے نقطے ہیں جن کی روشنی کی چمک وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔
جب ہم آسمان پر ستارے دیکھتے ہیں تو ان کی چمک میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ مختصر سی انسانی زندگی کے دوران کسی بھی ستارے کی روشنی مستقل ایک ہی رہتی ہے۔ لیکن کچھ صدیوں سے ہم یہ جانتے تھے کہ ستاروں کی ایک قسم ہے، جنہیں سیفڈ ویری ایبل (cepheid variable) کہا جاتا ہے، جن کی چمک دو دن سے سو دن کے ٹائم سکیل پر تبدیل ہوتی ہے، جو کہ انتہائی تیزرفتار تبدیلی ہے۔ اور یہ تبدیلی رینڈم نہیں، بڑے خاص طریقے سے ہوتی ہے۔ تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، عروج کا نقطہ آتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ چمک کم ہوتی جاتی ہے اور یہ سائیکل مسلسل دہرایا جاتا ہے۔
ہبل نے جو دیکھا، وہ یہ کہ نیبولا میں روشنی کے نقاط بھی سیفڈ ویری ایبل کی طرح کی خاصیت رکھتے ہیں۔ اور ان کی ایک خاص پراپرٹی تھی۔ جو ستارے جتنی زیادہ چمک رکھتے تھے، ان میں تبدیلی کی رفتار بھی اتنی ہی زیادہ تھی۔ یہ بہت ہی شاندار اور ٹائٹ تعلق تھا۔ (یہ تعلق سب سے پہلے ہارورڈ کی آسٹرونومر ہنریٹا لیوٹ نے دریافت کیا تھا)۔ اس تعلق کے ہونے کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم اس کی مدد سے ان کا فاصلہ معلوم کر سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے ہم اپنی کہکشاں میں قریب کے سیفڈ ویری ایبل کا فاصلہ دوسرے طریقوں سے جان سکتے ہیں۔ جبکہ ان کا موازنہ ان نیبولا کے سیفڈ ویری ایبلز کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ چمک تبدیل ہونے کا ریٹ اور چمک کا یہ موازنہ ہمیں بتا دے گا کہ ہمارا زیرِ مطالعہ آبجیکٹ کتنے فاصلے پر ہے۔ اس موازنے کے لئے صرف روشنی کا انورس سکوائر لاء کافی ہے۔
اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہبل نے دکھایا کہ دوسرے نیبولا کے یہ ستارے ملکی وے سے باہر ہیں۔ ان کا فاصلہ خاصا زیادہ تھا۔ یعنی ہماری کہکشاں کے علاوہ دوسری کہکشائیں بھی موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بڑی دریافت تھی۔ اس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ کائنات اس سے بہت زیادہ وسیع تھی جو اس وقت کا تصور تھا۔ ملکی وے کائنات کا احاطہ نہیں کرتی تھی، صرف اس کا ایک حصہ تھی۔ اور اس سے بہت زیادہ فاصلے پر دوسری کہکشائیں موجود تھیں۔
یہ بہت بڑا نتیجہ تھا لیکن ہبل یہاں پر نہیں رکے۔ انہیں معلوم تھا کہ پہلے کئی پیمائشیں کی جا چکی ہیں جن میں ان نیبولا کے سپیکٹرم کا مطالعہ کیا گیا تھا۔ یہ دکھاتا تھا کہ جب اس روشنی کا سپیکٹرم دیکھا جائے تو اس میں لیبارٹری میں پیمائش کئے جانے والے سپیکٹرم کے مقابلے میں شفٹ تھی۔ اور جن کہکشاوٗں کا فاصلہ جتنا زیادہ تھا، ان کی سپیکٹرل لائنز میں یہ شفٹ بھی اتنی زیادہ تھی۔   
اس سے انہوں نے نتیجہ نکالا یہ کائنات پھیل رہی ہے۔ جو ہم سے جتنا زیادہ دور ہے، وہ اتنی ہی زیادہ تیزی سے دور ہو رہا ہے۔
چند ایسی کہکشائیں ہیں جو ہم سے قریب ہیں جو ہماری کہکشاں کی طرف آ رہی ہیں جس کی وجہ ملکی وے گریویٹیشنل انٹر ایکشن ہے۔ لیکن دور کی کہکشائیں جتنی دور ہیں، ان کا سپیکٹرم اتنی ہی زیادہ ریڈشفٹ رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد کائنات کی عمر نکالنے کا طریقہ یہ تھا کہ کائنات کے پھیلاوٗ کی رفتار کو الٹ کر دیا جائے۔ اگر اس میں مادہ نہیں ہوتا تو پھر صرف یہ کرنا تھا کہ اسی رفتار کو الٹ کر دیا جاتا۔ لیکن مادے کی وجہ سے یہ کیلکولیشن تھوڑی پیچیدہ ہے۔ کیونکہ مادہ ایک دوسرے سے گریویٹی سے انٹرایکٹ کرتا ہے اور پھیلاوٗ کو سست رفتار کرتا ہے۔
اس کے لئے معلوم کرنا تھا کہ کائنات میں مادہ کتنا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور پیچیدگی ہے جس کا ہمیں حالیہ دہائیوں میں معلوم ہوا ہے، وہ یہ کہ کائنات کے پھیلاوٗ کی اپنی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان سب کی پیمائش اور کیلکولیشنز نے ہمیں وہ طریقہ دیا کہ جس سے ہم اس سوال کا جواب دینے کے قابل ہوئے جو ہمیشہ سے ہماری تجسس کا مرکز رہا۔ وہ یہ کہ کائنات کی پیدائش کیسے ہوئی اور یہ اپنی عمر میں کن مراحل سے گزری؟
کائنات کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں آگاہی دینے والی، اسکی عمر بتانے والی، اس کی ہیت اور سائز کی معلومات دینے والی ۔۔ کائنات کے پھیلاوٗ کی دریافت ایک اہم ترین انسانی دریافت تھی۔




یہ وینڈی فریڈمین کے انٹرویو سے جن کی شہرت ہبل کانسٹنٹ معلوم کرنے کی وجہ سے ہے۔ اس کو دیکھنے کیلئے
https://youtu.be/x8p7vnCuXhg