Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

نائیجیریا اور سکول کے بچے

نائیجیریا میں ایک بحران ہے۔ سکول کے بچے اغوا کئے جا رہے ہیں۔ عام طور پر ایک ہی وقت میں بہت سے بچوں اور بچیوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ ان کو ت...

نائیجیریا میں ایک بحران ہے۔ سکول کے بچے اغوا کئے جا رہے ہیں۔ عام طور پر ایک ہی وقت میں بہت سے بچوں اور بچیوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ ان کو تاوان کے لئے سکول سے اٹھایا جاتا ہے۔ کئی گھر واپس آ جاتے ہیں لیکن سارے نہیں۔ یہ اس وقت نائیجیریا میں بڑا بزنس بن چکا ہے۔ اور جرائم کی دنیا میں تیزی سے بڑھتی انٹرپرائز ہے۔
یہ کون کر رہا ہے؟ یہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اور اسے روکنے میں ناکامی کیوں ہو رہی ہے؟ یہ نائیجیریا کا بڑا سوال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکل ٹھیک تعداد معلوم کرنا مشکل ہے لیکن اس سال کے پہلے تین ماہ میں اغوا ہونے والوں کی تعداد سات سو کے قریب ہے جن میں سے تقریباً تمام سکول کے بچے ہیں۔ اور یہ اغوا پورے ملک میں ہو رہے ہیں۔
نائیجیریا میں اغوا برائے تاوان کا سلسلہ اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں شروع ہوا۔ شروع میں یہ نائیجر ڈیلٹا میں ہوا کرتے تھے جو نائیجیریا کا تیل پیدا کرنے والا علاقہ ہے۔ مسلح گروہ اور قزاق تیل کی تنصیبات میں کام کرنے والے ملازمین کو اغوا کر لیتے تھے۔ اغوا ہونے والوں میں وہ ملازمین بھی تھے جو دوسرے ممالک سے یہاں کام کرنے آتے تھے۔
مسلح گروہوں نے اس سے اچھی کمائی کی۔ کئی بار دوسرے ممالک کے سفارتخانے تاوان ادا کر دیا کرتے تھے، کئی بار فیملی کے افراد۔ 2009 میں یہ رجحان شمالی نائیجیریا تک پھیل گیا۔ یہ بوکو حرام کا علاقہ تھا۔
بوکوحرام دہشتگرد تنظیم ہے جو نائیجریا کے علاوہ چاڈ، نائیجر اور شمالی کیمرون میں پائی جاتی ہے (اس کا آفیشل نام “جماعة أهل السنة للدعوة والجہاد” ہے)۔ نائیجیریا میں اغوا کا مشہور ترین واقعہ چبوک میں سکول کی بچیوں کا ہے جو اس تنظیم نے 2014 میں کیا تھا۔ اس میں سکول سے 276 بچیوں کو اغوا کر کے کئی سال تک اپنے پاس رکھا گیا تھا۔ (آج سات سال گزرنے کے بعد بھی اغوا ہونے والیوں میں سو سے زیادہ بچیاں لاپتا ہیں)۔
بوکو حرام کا مقصد پیسے سے زیادہ نظریاتی تھا۔ ان کے نظریے میں مغربی تعلیم حرام ہے۔ ان کے لئے یہ قدم تعلیم کو روکنے کے لئے تھا۔ اس سے پہلے یہ تنظیم فیڈرل گورنمنٹ کالج پر حملہ کر کے 59 طلباء کو قتل کر کے سکول کے تمام عمارتیں نذرِ آتش کر چکے تھی۔
تاہم، بوکوحرام کو عالمی شہرت لڑکیوں کے اس اغوا سے ملی۔ اور اپنے اس مشن میں کامیابی ہوئی۔ اس سے پھیلے خوف و ہراس کے نتیجے میں شمالی نائیجریا میں بچیوں کو سکول بھیجنے کے رجحان میں کمی واقع ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس علاقے میں پُرتشدد اور اغوا کی کارروائیاں جاری ہیں۔ لیکن اب یہ وارداتیں وسطی اور شمال مغربی صوبوں تک پھیل چکی ہیں۔ دسمبر سے آج تک اوسطاً تین ہفتے میں ایک سکول کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔
بچوں اور بچیوں کو جنگل میں لے جایا جاتا ہے۔ کئی بار ان کو مارا پیٹا جاتا ہے (یا پھر اس سے بھی برا۔ کئی بچیوں کو ریپ بھی کیا گیا ہے۔ کئی حاملہ ہو کر واپس آئی ہیں)۔ تاوان کی ڈیمانڈ رکھی جاتی ہے۔ بچوں کی ویڈیو بنا کر نشر کی جاتی ہیں مثلاً، وارننگ جس میں کہا جاتا ہے کہ اگر کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ہم سب کو مار ڈالیں گے۔ ایک ملین ڈالر ادا کر کے ہمیں چھڑوایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اغوا کرنے والے کون ہیں؟ مقامی لوگ انہیں غنڈے کہتے ہیں۔ اس میں مجرموں کے گینگ بھی ہیں، بوکوحرام کے جنگجو بھی اور وہ نوجوان جو اس کے ذریعے دولت کمانے کا موقع دیکھتے ہیں۔
یہ غنڈے جنگلوں میں چھپتے ہیں جہاں پولیس موجود نہیں اور ان کے پاس بھاری اسلحہ ہوتا ہے۔ ایک حالیہ کارروائی میں سکول پر حملہ آور ہونے کے لئے اس کے گرد بنائی گئی مضبوط حفاظتی دیوار کو اینٹی ائیر کرافٹ گن سے توڑا گیا تھا جہاں سے ان کو ساتھ کلومیٹروں تک پھیلے گھنے جنگل میں لے جایا گیا۔ (ان بچوں کو ابھی تک بازیاب نہیں کروایا جا سکا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کی فیملی اتنا تاوان ادا نہیں کر سکتی لیکن مقامی حکومتیں کر سکتی ہیں ۔ کاٹسینا کی صوبائی حکومت نے پچھلے سال اغوا ہونے والے تین سو لڑکوں کو چھڑوانے کے لئے 76,000 ڈالر ادا کئے تھے۔
بچے ہم سب کے لئے جذباتی معاملہ ہیں۔ ان کے لئے ہر قسم کے اقدام لئے جاتے ہیں۔ غنڈہ گروپس سے مذاکرات بھی ہوتے ہیں اور تاوان بھی ادا کئے جاتے ہیں۔
ان مذاکرات میں طے کردہ معاملات میں کئی بار قیدی بھی چھڑوائے جاتے ہیں۔ اپنے لئے معافی بھی حاصل کی لی جاتی ہے۔ فروری میں قنقارا سے سینکڑوں بچے اغوا کرنے والے گینگ لیڈر نے اپنے پورے گروپ کے لئے معافی حاصل کی تھی۔ یہ جرم منافع بخش اور محفوظ بزنس ہے۔
جب بچے رہا ہوتے ہیں تو انہیں ٹی وی پر حکومت کی کامیابی دکھانے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کامیابی کا پریس کانفرنس اور دیگر میڈیا شو کے ذریعے اعلان ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اغوا کسی ویکیوم میں نہیں ہو رہے۔ حالات ان کے لئے سازگار ہیں۔ نائیجیریا کی معیشت بدحالی کا شکار ہے۔ بے روزگاری کی شرح بلند ہے۔ کرپشن عام ہے، عدلیہ میں بھی۔ نظامِ انصاف کام نہیں کرتا۔ لوگوں کی جوابدہی کا طریقہ نہیں۔ اور پھر سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ بوکوحرام جیسے مسلح گروہوں کے پاس شمال میں محفوظ علاقے ہیں۔ پولیس کے پاس ان سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں۔ سیکورٹی ادارے ان سے ڈیل نہیں کر پاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائیجیریا کے موجودہ صدر محمد بحاری ہیں۔ انہوں نے 2015 میں انتخاب مجرموں اور دہشتگردوں کے خلاف سختی سے نمٹنے کے نعرے پر جیتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ نائجیریا کی حکومت اغوا کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے سخت محنت کر رہی ہے۔ فوج اور پولیس ان غنڈوں کے پیچھے ہیں۔
لیکن نائیجیریا میں بے چینی ہے۔ اور بہت زیادہ بے چینی ہے۔ امید غائب ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اغوا خوفناک ہیں لیکن اس کا ایک اور اثر ہوا ہے۔ یہ نائیجیریا کے تعلیمی نظام پر ہے۔ سکول بند ہو رہے ہیں۔ خوفزدہ والدین اپنے بچوں کو سکول سے اٹھا رہے ہیں۔ اور ایسے ملک میں پہلے ہی ایک کروڑ بچے ایسے ہیں جو سکول نہیں جاتے۔
ملک کو لگنے والے یہ زخم طویل المدت اور گہرے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیس کروڑ کی آبادی اور تیل کی دولت سے مالامال  نائیجیریا افریقہ کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے جو مسائل کا شکار اور پسماندہ ہے۔ یہاں کا بڑا مسئلہ آبادی میں حالیہ دہائیوں میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ سمجھا جاتا ہے۔ صرف پچھلے پچیس برس میں آبادی دگنی ہو چکی ہے جس نے معاشرے کی کمر توڑ دی ہے۔
باہر سے دیکھنے والے کسی بھی اور کی طرح ہم صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ نائیجیریا بچوں کے اغوا کے اس سنگین مسئلے سے اور دوسرے مسائل سے نپٹ سکے گا
۔