چین انڈیا تعلقات 1954سے مشکلات کا شکار ہو گئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اکسائی چن کا علاقہ تھا جس پر دونوں کا دعویٰ تھا۔ دوسرا مسئلہ دیگر جگہوں پر ...
چین انڈیا تعلقات 1954سے مشکلات کا شکار ہو گئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اکسائی چن کا علاقہ تھا جس پر دونوں کا دعویٰ تھا۔ دوسرا مسئلہ دیگر جگہوں پر سرحدی مسائل تھے۔ انڈیا نے تبت کو چین کا حصہ تسلیم کر لیا تھا لیکن تعلقات میں مسائل رہے۔ “ہندی چینی بھائی بھائی” کا نعرہ “ہندی چینی بائے بائے” میں بدل گیا۔ 1962 میں جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے بعد رفتہ رفتہ تعلقات میں بہتری آئی ہے جس کی وجہ تجارتی تعلقات ہیں۔
چین نے 1957 میں مشرقی اکسائی چن میں ایک سڑک تعمیر کی جو کاشغر اور لہاسا کو ملاتی تھی۔ یہ سنکیانگ تبت ہائی وے ہے۔ انڈیا کو اس کا معلوم اس وقت ہوا جب چین نے اس کو نئے شائع کردہ نقشے میں دکھایا۔ اگرچہ اس علاقے کی ملکیت مبہم تھی لیکن انڈیا کا اس علاقے پر دعوٰی کمزور ہے (1941 سے 1961 کی انڈین مردم شماری میں یہ علاقہ موجود نہیں) لیکن انڈیا کے لئے یہ اہم اس لئے تھا کہ یہاں سے سرینگر کو لیہہ سے ملانے کے لئے سڑک بنانے کا ارادہ تھا۔ انڈیا نے اس علاقے پر 1958 میں رسمی طور پر دعویٰ کر دیا۔ اس وقت تک چین علاقے پر کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔
چین انڈیا ٹینشن 1959 میں بڑھ گئی۔ لہاسا میں گڑبڑ کے بڑے واقعت کی وجہ سے دلائی لامہ بھاگ کر انڈیا آ گئے۔ چین کے چراغ پا ہونے کے باوجود انڈیا نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ انڈیا نے تبت پر علاقے کے دعوے میں بھی بڑی پوزیشن لے لی۔
انڈیا نے ملٹری کو چین کے بارڈر پر لگا دیا۔ چین اس وقت عالمی حمایت سے محروم تھا۔ انڈیا نے چینی عسکری طاقت کا ٹھیک اندازہ نہیں لگایا تھا۔
اگست 1959 میں پہلی جھڑپ ہوئی۔ جس کے بعد حالات خراب تر ہوتے رہے۔ 20 اکتوبر 1962 کو باقاعدہ جنگ چھڑ گئی جو 21 نومبر تک جاری رہی۔ انڈیا کو جنگ میں شکست ہوئی۔ زیادہ ایکشن NEFA کے گھنے جنگلات میں ہوا۔ جہاں چینی فورس پچاس کلومیٹر اندر تیزپور تک پہنچ گئی۔ اکسائی چن میں بھی چین نے علاقہ حاصل کر لیا۔
حیرت انگیز طور پر اکیس نومبر کو چین نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا اور فوجوں کو واپس بلا لیا۔ اس کی ایک وجہ سردی کے موسم کی آمد تھی۔ اس دوران انڈیا نے امریکہ اور برطانیہ سے عسکری مدد کی درخواست کی۔ اس کے عوض دونوں ممالک نے انڈیا پر زور ڈالا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو کچھ زمین پاکستان کو دے کر حل کرے۔ اس پریشر نے کام نہیں کیا۔ انڈیا زمین دینے کو تیار نہیں تھا۔
انڈیا کو جنگ میں شکست ہوئی۔ لیکن اس کی وجہ سے انڈین ملٹری بجٹ کو دگنا کر دیا گیا۔ اس میں انڈیا ماوٗنٹین فورسز کو ڈویلپ کیا گیا۔ جن سے انڈیا کو آئندہ آنے والے واقعات میں مدد ملی جن میں دو واقعات چین کے ساتھ سقم میں 1967 میں ہوئے تھے۔ (سقم بعد میں 1975 میں بھارت کا حصہ بنا لیا گیا)۔ دوسرا استعمال سیاچین میں ہوا۔ جبکہ تیسرا 1978 میں اروناچل پردیش اور تبت کے درمیان ہونے والی کشیدگی پر۔ جہاں انڈیا کی مضبوط فورس کی وجہ سے جنگ ٹل گئی۔ انڈیا اور چین کے درمیان سرحدوں کے تعین پر مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ 2012 میں ہونے والے مذاکرات آٹھواں دور تھے۔ ان میں سرحدی تنازعات پر کچھ طے نہیں ہو سکا۔ چین کے پاسپورٹ پر بنے نقشے میں انڈیا کے کئی علاقے چین میں شامل دکھائے گئے ہیں۔ اب لگتا ہے کہ چین اس پر تیار ہے کہ اروناچل پردیش انڈیا لے لے جبکہ اکسائی چن کا علاقہ چین کو مل جائے۔
اگر ایسا ہو گیا تو یہ ریاستِ جموں و کشمیر سے منسلک ایک علاقے کا ہونے والا اہم حل ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارچ 1963 میں پاکستان چین نے اپنی سرحد پر اتفاق کیا جس میں راسکم اور شکسگام کے علاقوں پر چین کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ جبکہ پاکستان کو تقریبا ساڑھے سات سو مربع میل کا علاقہ مل گیا۔ یہ معاہدہ پاکستان کے حق میں سمجھا جاتا ہے کیونکہ جو علاقہ پاکستان نے چین کے سپرد کیا، وہ عملی طور پر پہلے ہی چین کے کنٹرول میں تھا جبکہ چین نے علاقہ خالی کیا۔
انڈیا اس کو غیرقانونی قرار دیتا ہے۔ چونکہ یہ معاہدہ پاکستان نے اس وقت کیا جب انڈیا چین سے نئی نئی جنگ ہارا تھا۔ اس پر انڈیا نے تلخ ردِ عمل دکھایا اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کر دئے۔ بیجنگ نے اعلان کیا کہ پاکستان چین معاہدہ عبوری ہے اور جب مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا تو پھر اس پر باقاعدہ معاہدہ کیا جائے گا۔
پاکستان کے لئے یہ چین سے دوستی کا اہم قدم تھا۔ اس کے بعد چین پاکستان کے بہترین عالمی دوستوں میں سے رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گلگت اور کاشغر کے درمیان ایک کچی سڑک موجود تھی۔ 1969 میں اس کو بہتر کیا گیا۔ یہ بہت مشکل علاقے میں ہونے والا بہت دشوار پراجیکٹ تھا۔ اس پر فور وہیل ڈرائیو والی گاڑیاں سفر کر سکتی تھیں۔ 1973 میں اس کو ایسی سڑک بنانے پر کام شروع ہوا جو سارا سال کھلی رہ سکے۔ یہ قراقرم ہائی وے بن گئی جو 1978 میں مکمل ہو گئی۔ یہ حویلیاں سے گلگت، خنجراب پاس اور پھر کاشغر تک جاتی ہے۔
جنوری 2010 میں ہونے والی بڑی لینڈسالائیڈ نے یہاں پر عطاآباد کے مقام پر جھیل بنا دی جس سے سڑک کا حصہ زیرِ آب آ گیا۔ اب اس راستے پر درمیان میں کشتی استعمال کرنا پڑتی ہے۔ اڑمچی سے کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن کا منصوبہ بھی زیرِغور ہے۔ یہ چین کے مغربی حصوں کے لئے اہم راستہ ہو گا۔
(جاری ہے)
چین نے 1957 میں مشرقی اکسائی چن میں ایک سڑک تعمیر کی جو کاشغر اور لہاسا کو ملاتی تھی۔ یہ سنکیانگ تبت ہائی وے ہے۔ انڈیا کو اس کا معلوم اس وقت ہوا جب چین نے اس کو نئے شائع کردہ نقشے میں دکھایا۔ اگرچہ اس علاقے کی ملکیت مبہم تھی لیکن انڈیا کا اس علاقے پر دعوٰی کمزور ہے (1941 سے 1961 کی انڈین مردم شماری میں یہ علاقہ موجود نہیں) لیکن انڈیا کے لئے یہ اہم اس لئے تھا کہ یہاں سے سرینگر کو لیہہ سے ملانے کے لئے سڑک بنانے کا ارادہ تھا۔ انڈیا نے اس علاقے پر 1958 میں رسمی طور پر دعویٰ کر دیا۔ اس وقت تک چین علاقے پر کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔
چین انڈیا ٹینشن 1959 میں بڑھ گئی۔ لہاسا میں گڑبڑ کے بڑے واقعت کی وجہ سے دلائی لامہ بھاگ کر انڈیا آ گئے۔ چین کے چراغ پا ہونے کے باوجود انڈیا نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ انڈیا نے تبت پر علاقے کے دعوے میں بھی بڑی پوزیشن لے لی۔
انڈیا نے ملٹری کو چین کے بارڈر پر لگا دیا۔ چین اس وقت عالمی حمایت سے محروم تھا۔ انڈیا نے چینی عسکری طاقت کا ٹھیک اندازہ نہیں لگایا تھا۔
اگست 1959 میں پہلی جھڑپ ہوئی۔ جس کے بعد حالات خراب تر ہوتے رہے۔ 20 اکتوبر 1962 کو باقاعدہ جنگ چھڑ گئی جو 21 نومبر تک جاری رہی۔ انڈیا کو جنگ میں شکست ہوئی۔ زیادہ ایکشن NEFA کے گھنے جنگلات میں ہوا۔ جہاں چینی فورس پچاس کلومیٹر اندر تیزپور تک پہنچ گئی۔ اکسائی چن میں بھی چین نے علاقہ حاصل کر لیا۔
حیرت انگیز طور پر اکیس نومبر کو چین نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا اور فوجوں کو واپس بلا لیا۔ اس کی ایک وجہ سردی کے موسم کی آمد تھی۔ اس دوران انڈیا نے امریکہ اور برطانیہ سے عسکری مدد کی درخواست کی۔ اس کے عوض دونوں ممالک نے انڈیا پر زور ڈالا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو کچھ زمین پاکستان کو دے کر حل کرے۔ اس پریشر نے کام نہیں کیا۔ انڈیا زمین دینے کو تیار نہیں تھا۔
انڈیا کو جنگ میں شکست ہوئی۔ لیکن اس کی وجہ سے انڈین ملٹری بجٹ کو دگنا کر دیا گیا۔ اس میں انڈیا ماوٗنٹین فورسز کو ڈویلپ کیا گیا۔ جن سے انڈیا کو آئندہ آنے والے واقعات میں مدد ملی جن میں دو واقعات چین کے ساتھ سقم میں 1967 میں ہوئے تھے۔ (سقم بعد میں 1975 میں بھارت کا حصہ بنا لیا گیا)۔ دوسرا استعمال سیاچین میں ہوا۔ جبکہ تیسرا 1978 میں اروناچل پردیش اور تبت کے درمیان ہونے والی کشیدگی پر۔ جہاں انڈیا کی مضبوط فورس کی وجہ سے جنگ ٹل گئی۔ انڈیا اور چین کے درمیان سرحدوں کے تعین پر مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ 2012 میں ہونے والے مذاکرات آٹھواں دور تھے۔ ان میں سرحدی تنازعات پر کچھ طے نہیں ہو سکا۔ چین کے پاسپورٹ پر بنے نقشے میں انڈیا کے کئی علاقے چین میں شامل دکھائے گئے ہیں۔ اب لگتا ہے کہ چین اس پر تیار ہے کہ اروناچل پردیش انڈیا لے لے جبکہ اکسائی چن کا علاقہ چین کو مل جائے۔
اگر ایسا ہو گیا تو یہ ریاستِ جموں و کشمیر سے منسلک ایک علاقے کا ہونے والا اہم حل ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارچ 1963 میں پاکستان چین نے اپنی سرحد پر اتفاق کیا جس میں راسکم اور شکسگام کے علاقوں پر چین کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ جبکہ پاکستان کو تقریبا ساڑھے سات سو مربع میل کا علاقہ مل گیا۔ یہ معاہدہ پاکستان کے حق میں سمجھا جاتا ہے کیونکہ جو علاقہ پاکستان نے چین کے سپرد کیا، وہ عملی طور پر پہلے ہی چین کے کنٹرول میں تھا جبکہ چین نے علاقہ خالی کیا۔
انڈیا اس کو غیرقانونی قرار دیتا ہے۔ چونکہ یہ معاہدہ پاکستان نے اس وقت کیا جب انڈیا چین سے نئی نئی جنگ ہارا تھا۔ اس پر انڈیا نے تلخ ردِ عمل دکھایا اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کر دئے۔ بیجنگ نے اعلان کیا کہ پاکستان چین معاہدہ عبوری ہے اور جب مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا تو پھر اس پر باقاعدہ معاہدہ کیا جائے گا۔
پاکستان کے لئے یہ چین سے دوستی کا اہم قدم تھا۔ اس کے بعد چین پاکستان کے بہترین عالمی دوستوں میں سے رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گلگت اور کاشغر کے درمیان ایک کچی سڑک موجود تھی۔ 1969 میں اس کو بہتر کیا گیا۔ یہ بہت مشکل علاقے میں ہونے والا بہت دشوار پراجیکٹ تھا۔ اس پر فور وہیل ڈرائیو والی گاڑیاں سفر کر سکتی تھیں۔ 1973 میں اس کو ایسی سڑک بنانے پر کام شروع ہوا جو سارا سال کھلی رہ سکے۔ یہ قراقرم ہائی وے بن گئی جو 1978 میں مکمل ہو گئی۔ یہ حویلیاں سے گلگت، خنجراب پاس اور پھر کاشغر تک جاتی ہے۔
جنوری 2010 میں ہونے والی بڑی لینڈسالائیڈ نے یہاں پر عطاآباد کے مقام پر جھیل بنا دی جس سے سڑک کا حصہ زیرِ آب آ گیا۔ اب اس راستے پر درمیان میں کشتی استعمال کرنا پڑتی ہے۔ اڑمچی سے کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن کا منصوبہ بھی زیرِغور ہے۔ یہ چین کے مغربی حصوں کے لئے اہم راستہ ہو گا۔
(جاری ہے)