برٹش کو افغانستان کی سمت سے 1839 میں بڑا خطرہ روسی سپرپاور سے تھا۔ افغانستان کے امیر اگرچہ برٹش مخالف نہیں تھے لیکن برٹش روس گریٹ گیم کے درم...
برٹش کو افغانستان کی سمت سے 1839 میں بڑا خطرہ روسی سپرپاور سے تھا۔ افغانستان کے امیر اگرچہ برٹش مخالف نہیں تھے لیکن برٹش روس گریٹ گیم کے درمیان اپنی آزاد پالیسی رکھنا چاہتے تھے۔ کلکتہ حکومت کے لئے یہ قابلِ قبول نہیں تھا۔ یا تو دوست محمد کو لالچ سے اپنے ساتھ ملا لیا جائے یا پھر شکست دے کر اپنی مرضی کا حکمران لایا جائے۔ برٹش نے دوسرا راستہ چنا۔ اور ان کے پاس ایک متبادل حکمران لدھیانہ میں تھے۔ یہ شاہ شجاع الملک تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ شجاع افغانستان کے حکمران رہے تھے اور ان کے بھائی نے 1809 میں ان کا تخت الٹ کر انہیں اٹک جیل میں قید کر دیا تھا۔ شجاع وہاں سے نکل کر کشمیر چلے گئے تھے۔ کشمیر اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔ شجاع نے کشیمر کو اپنے بھائی سے چھیننے کی کوشش کی تھی۔ اس میں ناکامی پر وہ لدھیانہ فرار ہو گئے تھے۔ شاہ شجاع نے 1834 میں خراسان کی بادشاہت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس میں دوست محمد کی افواج سے شکست کھا گئے تھے۔
اب برٹش دوست محمد کی جگہ شاہ شجاع الملک یا ہرات کے کامران شاہ کو افغان حکمران بنانا چاہتے تھے۔ چونکہ شجاع پہلے بھی حکمران رہے تھے تو قرعہ ان کے نام نکلا۔ دوست محمد کا قصور روسیوں سے پینگیں بڑھانا قرار پایا۔ اپریل 1839 میں برٹش انڈین آرمی دوست افغانستان پر بلوچستان اور بولان پاس کے راستے حملہ آور ہوئی۔ (اسی سال رنجیت سنگھ کی وفات کی وجہ سے سکھوں نے الگ سے کابل پر حملہ نہیں کیا)۔ اگست میں برٹش فوج شاہ شجاع کو افغان حکمران بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ 8 جولائی کو دوست محمد کابل کا اقتدار چھوڑ کر انڈیا آ گئے۔
برٹش انڈین آرمی کے لئے افغانستان میں یہ انتہائی آسان فتح ثابت ہوئی۔ کابل میں کرکٹ کھیلتے، گھوڑوں کی دوڑیں دیکھتے اور شہر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ انہیں کابل انتہائی پرامن شہر لگا تھا۔
برٹش اندازے غلط ثابت ہوئے۔ نومبر 1841 میں بغاوت ہوئی اور کابل میں موجود برٹش انڈین فوج کو افغانستان چھوڑنا پڑا۔ دوست محمد کے بیٹے اکبر خان نے واپس آتی فوج پر تیس ہزار کے لشکر سے حملہ کیا اور جنوری 1842 میں اس فوج پر جلال آباد سے اسی کلومیٹر دور آن لیا۔ انڈین آرمی کے چند سپاہیوں کے سوا کوئی بچ نہ پایا۔ دوسری طرف کابل میں شاہ شجاع الملک قتل ہوئے، اس کے بعد ان کا بیٹا افغان حکمران بنا۔ یہ اقتدار تین ماہ چلا۔ اکتوبر 1842 میں برٹش نے افغانستان مکمل طور پر چھوڑ دیا۔ دوست محمد انڈیا میں تھے۔ ان کو واپس افغانستان بھیج دیا اور وہ حکمران بن گئے۔ دوست محمد اس عرصہ کنفیوز رہے کہ آخر برٹش کو کیا ہوا تھا کہ انہوں نے یہ سارا کام کیا کیونکہ اس سے برٹش کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ دوست محمد اگرچہ آزاد پالیسی چاہتے تھے لیکن روس کے مقابلے میں برٹش کو پسند کرتے رہے تھے۔ حکمران بننے کے بعد برٹش افغان روابط دوستانہ رہے۔
افغانستان میں کئے جانے والے اس مِس ایڈونچر کے بعد برٹش توجہ اب پنجاب کی طرف ہو گئی۔ پنجاب کی کمزور پڑتی حکومت تھی۔ اس خوشحال علاقے میں زرخیز زرعی زمینیں تھیں۔ کشمیر بھی پنجاب حکومت کا حصہ تھا۔
سکھ سلطنت کے انہدام کا براہِ راست تعلق جموں کشمیر کی نوابی ریاست کی تخلیق سے ہے۔ اس کے انہدام کی بڑی وجہ رنجیت سنگھ کے بعد تخت کی جانشینی پر ہونے والی خانہ جنگی بنی۔ اور بالآخر شکست و ریخت کا شکار ہو جانے والی خالصہ سرکار کو برٹش نے دوسری اینگلو سکھ جنگ میں فتح کے بعد ختم کر دیا۔
(جاری ہے)
نوٹ: ساتھ لگی تصویر 1839 میں شاہ شجاع الملک درانی کی کابل کے بالا حصار قلعہ میں تخت پوشی کے موقع پر مصور نے بنائی۔ یہ اس تقریب میں موجود لیفٹینٹ جیمز راٹرے کی لکھی کتاب “افغانستان” سے ہے۔ راٹرے لکھتے ہیں، “شاہ بہت وجیہہ شخص تھے۔ کوئی ان کی عمر کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ یہ اتنی باوقار تقریب تھی کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ لوگ مکمل خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ قدیم سنگِ مرر کے سفید تخت پر بیٹھے۔ یہاں سے دربار کا نظارہ ہوتا تھا۔ لکڑی کی محرابیں اور ستونوں پر نقش و نگار بنے تھے۔ چھت سجی ہوئی تھی۔ ایک سال بعد شاہ شجاع قتل کر دئے گئے۔ یہ مقدس تخت کھانے کی میز میں تبدیل ہو گیا”۔