کشمیر کی 1931 میں ہونے والی بغاوت تو فرو کر دی گئی لیکن دہلی حکومت اور برٹش ریزیڈنٹ کی طرف سے مہاراجہ پر اصلاحات کا شدید دباوٗ آیا۔ اس کے ن...
کشمیر کی 1931 میں ہونے والی بغاوت تو فرو کر دی گئی لیکن دہلی حکومت اور برٹش ریزیڈنٹ کی طرف سے مہاراجہ پر اصلاحات کا شدید دباوٗ آیا۔ اس کے نتیجے میں بادلِ نخواستہ کچھ اختیارات پرجا کے سپرد کرنے پڑے، اگرچہ کہ یہ محدود تھے۔ کشمیر کی پہلی پارلیمنٹ قائم ہوئی جو 75 ارکان پر مشتمل تھی۔ ووٹ کا حق صرف پانچ فیصد لوگوں کو دیا گیا۔ اظہارِ رائے کی آزادی نہیں تھی۔ جلسے کرنے یا احتجاج کی آزادی نہیں دی گئی۔ سیاسی اپوزیشن کی آزادی نہیں دی گئی۔ 35 اراکین مہاراجہ کے نامزد تھے۔ باقی چالیس ارکان کا اشرافیہ سے تعلق ہونا لازم تھا۔ ان میں سے اکیس مسلمان، دس ہندو، دو سکھ اور چھ “خصوصی اراکین” تھے (جو عملی طور پر مہاراجہ کے نمائندہ ہی تھے)۔ ایک رکن پنشنرز کی نمائندگی کے لئے تھا۔ اس اسمبلی کا مقصد مخالف رائے ظاہر کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں تھا۔ لیکن مسلمان اراکین کی طرف سے مخالف آتی تھی۔ مہاراجہ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ 1938 سے 1946 کے درمیان جاری رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈوگرہ راج کو بڑا چیلنج 1946 میں آیا۔ شیخ عبداللہ اور ان کی جموں کشمیر نیشنل کانفرنس نے ڈوگرہ راج کے خلاف “کشمیر چھوڑو تحریک” شروع کی۔ اس سے پہلے 1942 میں یہ جماعت “نیا کشمیر” منشور دے چکی تھی۔ اس میں جموں اور کشمیر میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا ایجنڈا تھا۔ لیکن 1944 تک شیخ عبداللہ کا احتجاج آگے بڑھ چکا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ برٹش نے جس طریقے سے مہاراجہ گلاب سنگھ کو کشمیر فروخت کیا تھا، یہ غیرقانونی اور غیراخلاقی تھا۔ کشمیری خریدے اور بیچے نہیں جاتے۔ اگر ڈوگرہ جموں پر یا دوسرے علاقوں میں حکومت کرنا چاہیں تو ٹھیک لیکن کشمیر کو خالی کر دیں۔
اس تحریک کے جواب میں مہاراجہ کی ریاستی مشینری حرکت میں آئی۔ وادی کشمیر میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ نو سو سیاسی لیڈروں کو گرفتار کیا گیا اور تحریک کے بہت سے ممبران کو کشمیر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ شیخ عبداللہ بھی جیل گئے۔ ان کی پارٹی نے جنوری 1947 کے پراجا سبھا کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اس کے مخالف میں بڑی پارٹی جموں کشمیر مسلم کانفرنس تھی۔ یہ پارٹی جموں میں زیادہ مقبول تھی۔ اگرچہ یہ بھی دباوٗ میں تھی لیکن اس نے سولہ نشستیں جیت لیں۔ کشمیر میں آئندہ سیاست ان پارٹیوں کے گرد ہوتی رہی۔
اس تحریک کے اہم مضمرات نکلے۔ شیخ عبداللہ کو غداری کی کیس میں تین سال قیدِ بامشقت سنائی گئی۔ ان کے دوست اور وکیل جواہر لال نہرو تھے۔ جون میں مہاراجہ نے ان کو بھی جون 1946 میں کشمیر میں غیرقانونی داخلے کے الزام میں حراست میں لے لیا اور بعد میں جلاوطن کر دیا۔ یہ اہم واقعہ تھا۔ انڈیا کے مستقبل کے وزیرِاعظم نے اس پر کبھی ہری سنگھ کو معاف نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ کشمیر کا علاقہ انڈین کانگریس کے ایجنڈے پر اوپر رہا۔ جبکہ دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ کے لئے یہ علاقہ بڑی حد تک نظر سے اوجھل رہا۔ مسلم لیگ کے لیڈر محمد علی جناح کشمیر میں مئی 1944 میں آئے تھے۔ نیشنل کانفرنس کے چند لیڈروں کو چھوڑ کر ان کا بہت پرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔ لیکن مسلم لیگ کے پاس بہت سے دوسرے معاملات میں اس علاقے کی ترجیح اتنی زیادہ نہیں رہی تھی۔
کشمیر چھوڑو تحریک کا ایک اور اثر یہ ہوا کہ یہ تحریک کشمیری عوام کے لئے پرکشش رہی۔ اس نے وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس کو نمایاں کر دیا۔ اس دوران شیخ عبداللہ کی اپنی قریبی دوستی نہرو سے ہو چکی تھی۔ نہرو اور عبداللہ کے لئے ہری سنگھ ناپسندیدہ تھے۔ دوسری طرف نیشنل کانفرنس کی مخالف جماعت مسلم کانفرنس کے لیڈر زیادہ تر اس حصے سے تھے جو آزاد کشمیر ہے (یا پھر وہاں چلے گئے)۔ آزادی ہند کے بعد ہری سنگھ کا سیاسی انہدام بہت تیزی سے ہوا۔ نیشنل کانفرنس کشمیری سیاست پر حاوی رہی۔ اور اس نے کشمیر کی سیاست کے خدوخال طے کر دئے۔
ایک اور بڑی تبدیلی جو اس وجہ سے آئی، وہ یہ کہ علاقے کی سیاسی پاور کا مرکز جموں سے بدل کر کشمیر کی طرف چلا گیا۔
(جاری ہے)