ڈوگرہ راج نے گریٹر گلگت کو قابو کرنے کی کوشش 1848 سے شروع کر دی تھی۔ میرِ ہنزہ کے جنگجووں سے 1869 تک تین بار جنگ کی گئی۔ اس کے بعد امن رہا۔ ...
ڈوگرہ راج نے گریٹر گلگت کو قابو کرنے کی کوشش 1848 سے شروع کر دی تھی۔ میرِ ہنزہ کے جنگجووں سے 1869 تک تین بار جنگ کی گئی۔ اس کے بعد امن رہا۔ اس علاقے کے دو اہم علاقے ہنزہ اور نگر تھے جو دریائے ہنزہ کے مخالف کناروں پر آباد تھے اور ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ 1870 میں انہوں نے مہاراجہ رنبیر سنگھ سے امن معاہدہ کر لیا۔ ہنزہ، نگر، پونیال کے مقامی حکمران، اشکمان، کوہِ خضر اور یاسین کے منتظم ہر سال اپریل میں ڈوگرہ مہاراجہ کو خراج دیتے تھے۔ یہ گلگت میں پولو ٹورنامنٹ کے وقت ہوتا تھا۔ لیکن ہندو ڈوگرہ راج مقامی لوگوں میں پسند نہیں کیا جاتا تھا۔
ہنزہ میں حکمران خاندان میں 1888 میں جبکہ نگر میں 1891 میں پھوٹ پڑ گئی۔ اگلے آنے والے حکمران زیادہ جارحانہ تھے۔ 1888 میں ہنزہ کے نئے میر نے خراج دینے سے انکار کر دیا۔ ڈوگرہ دوبارہ حملہ آور ہوئے۔ اس بار ان کا مقابلہ ہنزہ اور نگر کی اتحادی قوت سے ہوا۔اس فورس نے چلت کے اہم قلعے پر قبضہ کر لیا۔ یہ اتحاد ڈوگرہ فوج کے لئے سرپرائز تھا کیونکہ ہنزہ اور نگر دونوں قدیم حریف اور تلخ دشمن رہے تھے۔ بیرونی دشمن نے انہیں متحد کر دیا تھا۔ ہنزہ اور نگر کے حکمران روسیوں سے تعلقات کے خواہشمند تھے۔ برٹش نے ان کو مشاہرے میں اضافہ کر کے روس سے اتحاد بنانے سے روکا تھا۔ انہوں نے کرنل ڈیورنڈ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے۔ اس میں اس پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ وہ تجارتی قافلے حفاظت سے گزرنے دیا کریں گے اور یہاں کے راستے پر لوٹ مار نہیں کی جائے گے۔ چونکہ یہاں پر زرعی زمین زیادہ نہیں تھی، اس لئے یہ حکمرانوں کی آمدنی کا ذریعہ تھا۔
ہنزہ اور نگر میں 1891 میں بغاوت شروع ہوئی۔ اس بار معاملہ ان علاقوں تک سڑک کی تعمیر کی مخالفت کا تھا۔ میرِ ہنزہ نے تاشقند سے مدد طلب کی جس کا انکار کر دیا گیا۔ برٹش نے “ہنزہ نگر فیلڈ فورس” اکٹھی کی جس کی قیادت الگورنون ڈیورنڈ کر رہے تھے۔ چار ہفتے کی مشکل لڑائی کے بعد سرد موسم میں پہلے نگر اور پھر ہنزہ کو شکست ہوئی۔ میرِ ہنزہ معزول ہو گئے اور انہیں اڑمچی فرار ہونا پڑا جہاں چین نے یارقند میں انہیں جاگیر دی۔ ان کے سوتیلے بھائی میر بنا دئے گئے۔ نگر کے بوڑھے میر کو برقرار رکھا گیا۔ لڑائی ان کے بیٹے نے پلان اور منظم کی تھی۔ بیٹے کو جلاوطن کر دیا گیا۔ اینگلو ڈوگرہ فوج کی فتح کے بعد گلگت ایجنسی کا تمام علاقہ مہاراجہ جموں و کشمیر کے کنٹرول میں پھر آ گیا۔
آہستہ آہستہ ہنزہ اور نگر کا انتظام برٹش نے بڑی حد تک سنبھال لیا۔ 1913 میں گلگت کور سکاوٗٹ کا قیام عمل میں آیا۔ اس فورس نے اور جموں کشمیر ریاستی فورس نے پہلی جنگِ عظیم میں بھی حصہ لیا۔ یہ فورس گلگت سکاوٗٹس میں بدل گئی۔ اس میں گلگت ایجنسی سے تعلق رکھنے والے فوجی تھے جو اس علاقے میں لڑنے کے لئے بہترین تھے۔ 1935 میں برٹش نے گلگت شہر کا علاقہ رسمی طور پر کنٹرول میں لے لیا۔ اس کو گلگت لیزڈ ایریا کہا گیا۔ نومبر 1947 میں گلگت سکاوٗٹس نے برٹش افسر کی قیادت میں مہاراجہ کے خلاف ہونے والی جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا پڑوسی علاقہ چترال تھا۔ یہ گلگت کے مغرب میں نوابی ریاست تھی۔ یہاں کے مہتر کا رابطہ بدخشاں اور واخان سے تھا۔ 1880 میں افغان امیر نے دعویٰ کیا تھا کہ چترال کا علاقہ افغانستان کا ہے۔ لیکن 1894 کی ڈیورنڈ لائن نے واضح طور پر اس کو برٹش انڈیا کا حصہ بنا دیا تھا۔ برٹش دوست مہترِ چترال امان الملک کی وفات کے بعد برٹش چترال تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ چترال کو 1895 میں مالاکنڈ ایجنسی میں شامل کیا گیا جس میں دیر اور سوات بھی تھے۔ یہ علاقے ریاستِ جموں و کشمیر کے پڑوس میں تھے۔
(جاری ہے)
ہنزہ میں حکمران خاندان میں 1888 میں جبکہ نگر میں 1891 میں پھوٹ پڑ گئی۔ اگلے آنے والے حکمران زیادہ جارحانہ تھے۔ 1888 میں ہنزہ کے نئے میر نے خراج دینے سے انکار کر دیا۔ ڈوگرہ دوبارہ حملہ آور ہوئے۔ اس بار ان کا مقابلہ ہنزہ اور نگر کی اتحادی قوت سے ہوا۔اس فورس نے چلت کے اہم قلعے پر قبضہ کر لیا۔ یہ اتحاد ڈوگرہ فوج کے لئے سرپرائز تھا کیونکہ ہنزہ اور نگر دونوں قدیم حریف اور تلخ دشمن رہے تھے۔ بیرونی دشمن نے انہیں متحد کر دیا تھا۔ ہنزہ اور نگر کے حکمران روسیوں سے تعلقات کے خواہشمند تھے۔ برٹش نے ان کو مشاہرے میں اضافہ کر کے روس سے اتحاد بنانے سے روکا تھا۔ انہوں نے کرنل ڈیورنڈ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے۔ اس میں اس پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ وہ تجارتی قافلے حفاظت سے گزرنے دیا کریں گے اور یہاں کے راستے پر لوٹ مار نہیں کی جائے گے۔ چونکہ یہاں پر زرعی زمین زیادہ نہیں تھی، اس لئے یہ حکمرانوں کی آمدنی کا ذریعہ تھا۔
ہنزہ اور نگر میں 1891 میں بغاوت شروع ہوئی۔ اس بار معاملہ ان علاقوں تک سڑک کی تعمیر کی مخالفت کا تھا۔ میرِ ہنزہ نے تاشقند سے مدد طلب کی جس کا انکار کر دیا گیا۔ برٹش نے “ہنزہ نگر فیلڈ فورس” اکٹھی کی جس کی قیادت الگورنون ڈیورنڈ کر رہے تھے۔ چار ہفتے کی مشکل لڑائی کے بعد سرد موسم میں پہلے نگر اور پھر ہنزہ کو شکست ہوئی۔ میرِ ہنزہ معزول ہو گئے اور انہیں اڑمچی فرار ہونا پڑا جہاں چین نے یارقند میں انہیں جاگیر دی۔ ان کے سوتیلے بھائی میر بنا دئے گئے۔ نگر کے بوڑھے میر کو برقرار رکھا گیا۔ لڑائی ان کے بیٹے نے پلان اور منظم کی تھی۔ بیٹے کو جلاوطن کر دیا گیا۔ اینگلو ڈوگرہ فوج کی فتح کے بعد گلگت ایجنسی کا تمام علاقہ مہاراجہ جموں و کشمیر کے کنٹرول میں پھر آ گیا۔
آہستہ آہستہ ہنزہ اور نگر کا انتظام برٹش نے بڑی حد تک سنبھال لیا۔ 1913 میں گلگت کور سکاوٗٹ کا قیام عمل میں آیا۔ اس فورس نے اور جموں کشمیر ریاستی فورس نے پہلی جنگِ عظیم میں بھی حصہ لیا۔ یہ فورس گلگت سکاوٗٹس میں بدل گئی۔ اس میں گلگت ایجنسی سے تعلق رکھنے والے فوجی تھے جو اس علاقے میں لڑنے کے لئے بہترین تھے۔ 1935 میں برٹش نے گلگت شہر کا علاقہ رسمی طور پر کنٹرول میں لے لیا۔ اس کو گلگت لیزڈ ایریا کہا گیا۔ نومبر 1947 میں گلگت سکاوٗٹس نے برٹش افسر کی قیادت میں مہاراجہ کے خلاف ہونے والی جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا پڑوسی علاقہ چترال تھا۔ یہ گلگت کے مغرب میں نوابی ریاست تھی۔ یہاں کے مہتر کا رابطہ بدخشاں اور واخان سے تھا۔ 1880 میں افغان امیر نے دعویٰ کیا تھا کہ چترال کا علاقہ افغانستان کا ہے۔ لیکن 1894 کی ڈیورنڈ لائن نے واضح طور پر اس کو برٹش انڈیا کا حصہ بنا دیا تھا۔ برٹش دوست مہترِ چترال امان الملک کی وفات کے بعد برٹش چترال تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ چترال کو 1895 میں مالاکنڈ ایجنسی میں شامل کیا گیا جس میں دیر اور سوات بھی تھے۔ یہ علاقے ریاستِ جموں و کشمیر کے پڑوس میں تھے۔
(جاری ہے)