Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کشمیر ۔ سرحدی لکیریں (۱۴)

دہلی میں منعقد باقاعدہ درباری تقریب میں 1877 میں ملکہ وکٹوریا نے انڈیا کی ملکہ کا لقب اختیار کیا۔ یہ وقت برٹش عروج کا تھا۔ عدن، سنگاپور، نکو...


دہلی میں منعقد باقاعدہ درباری تقریب میں 1877 میں ملکہ وکٹوریا نے انڈیا کی ملکہ کا لقب اختیار کیا۔ یہ وقت برٹش عروج کا تھا۔ عدن، سنگاپور، نکوبار، ماریشس، انڈیمان، آسٹریلیا میں برٹش کالونیوں نے بحرِ ہند کو برٹش جھیل بنا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف، روسی سلطنت کی توسیع جاری تھی۔ اس کو قفقاز اور داغستان میں بہت مزاحمت کا سامنا ہوا لیکن ترکستان پر قبضہ مقابلتاً آسان رہا۔ روس نے بخارا میں منگیت خاندان کو 1868 میں ختم کیا۔ اس کے بعد قنگرات خاندان کا خاتمہ ہوا اور خیوہ 1873 میں روس کے پاس آیا۔ ازبک منگ خاندان کو ختم کر کے قوقند 1876 میں روسی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ یہاں پر فرغانہ کی وادی سے دو سو میل دور کاشغر تھا۔ روس نے کیسپین کا علاقہ 1880 کی دہائی میں حاصل کر لیا۔ اگرچہ روس اور برٹش انڈیا میں فاصلہ تھا لیکن ہزاروں میل دور یورپ کے چھوٹے سے جزیرے سے آنے والے حکمرانوں کو اندازہ تھا کہ اس بڑھتی ہوئی طاقتور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست جموں و کشمیر کی سرحد شمال میں غیرمستحکم چین، پرسرار تبت، مشکل افغانستان اور روسی فرغانہ سے دور نہیں تھی۔   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمیر کا پہلا نقشہ پندرہ سال کی محنت کے بعد 1861 میں مکمل ہوا۔ یہ انڈین سرویئر جنرل آفس نے جاری کیا۔ پہلی بار لوگوں کی اندازاً گنتی 1873 میں کی گئی۔ 1861 کے نقشے میں استور، چیلاس، دراس، سورو اور زنسکار تھے۔ لیکن اس نقشے میں نہ ہی گلگت تھا، نہ ہی لداخ اور نہ ہی بلتستان۔ نہ ہی اس کی بین الاقوامی سرحد بنی تھی۔ پہاڑ بنائے گئے تھے جن پر “برف پوش چوٹی” لکھا گیا تھا۔ 1872 میں بنایا گیا نقشہ کچھ بہتر تھا۔ اس میں گلگت تھا لیکن اس کے شمال میں کوئی اور آبادی نہیں۔ تیسرا نقشہ 1875 میں بنا، وہ بھی زیادہ اچھا نہیں تھا۔ اس میں دیر، نگر اور یاسین کو ریاست کا حصہ نہیں دکھایا گیا جبکہ گلگت، بلتستان، بنجی اور استور کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں دیر کے علاقے کو برٹش انڈیا کا حصہ نہیں دکھایا گیا۔ 1890 میں بنائے گئے نقشے میں ہنزہ، یاسین، چترال، نگر، یاسین ٹھیک جگہ پر بنائے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلگت ایجنسی 1877 میں قائم ہوئی (اور چار سال بعد بند کر دی گئی)۔ یہ روس کے قوقند پر قبضے کے بعد کیا گیا۔ لاعلم برٹش کو کچھ خاص پتا بھی نہٰں تھا کہ قوقند کتنی دور واقع ہے۔ اور اگرچہ شمالی راستوں سے کوئی آرمی انڈیا داخل نہیں ہوئی لیکن برٹش خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ سرحدوں کا طے نہ ہونا خود میں پریشان کن تھا۔
دوسری طرف، برٹش اور روس کا آپسی محاذ استبول کے قریب کھل گیا تھا۔ روس اور عثمانی سلطنت پرانے حریف رہے تھے۔ کمزور پڑتی عثمانی سلطنت کو بھی طاقتور روس سے خطرہ تھا۔ عثمانیوں اور برطانیہ نے مشترک دشمن کے خلاف اتحاد کر لیا تھا۔ بحریہ برٹش سلطنت کی خاص طاقت رہی تھی۔ روسی بحریہ اس کے مقابلے کی نہیں تھی۔ مضبوط برٹش بحریہ کی وجہ سے روسی بحریہ استنبول کے قریب بھی نہیں آ پا رہی تھی۔
یہ کشمکش روس اور برطانیہ کے درمیان بفر سٹیٹ افغانستان تک بھی پہنچی۔ روس نے افغان حکمران شیر علی کے پاس اگست 1878 میں پیغام بھیجا کہ وہ کسی بھی برٹش مشن کو ملک میں نہ آنے دیں۔ شیر علی نے دباوٗ میں بادلِ نخواستہ یہ معاہدہ کر لیا۔ برٹش نے دھمکی بھجوائی کہ وہ اس پر معذرت کریں اور اکیس روز میں اس کو واپس لیں ورنہ وہ دشمن تصور ہوں گے۔ افغانستان ان دو سپرپاورز میں گھرا ہوا ایک گیند بن گیا تھا۔ اس کے پاس کوئی اچھا آپشن نہیں تھا۔ نومبر میں برٹش نے حملہ کیا۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ نے برٹش کا ساتھ دیا۔ روس نے وعدے کے باوجود افغانستان کی مدد نہیں کی۔ نئے افغان امیر یعقوب خان کے ساتھ مئی 1879 میں گنداماک میں معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں افغان کی خارجہ پالیسی برٹش کنٹرول میں آ گئی اور ساتھ ہی اہم دروں کا کنٹرول بھی۔
اس کے معاوضے کے طور پر افغان حکمران کا وظیفہ ساٹھ ہزار پاوٗنڈ طے ہوا۔ افغان حکمرانوں کے لئے یہ 1919 تک یہ وظیفہ جاری رہا۔ (1921 میں جب افغانستان کو آزادی ملی تو خارجہ پالیسی کا اختیار اس کے پاس واپس آیا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جولائی 1879 میں میوند کے مقام پر قبائلی فوج نے برٹش انڈین آرمی پر حملہ کیا اور ایک ہزار فوجی مار دئے گئے۔ یہ بھاری نقصان تھا۔ اس کا انتقام لینے کے لئے جنرل رابرٹس نے ستمبر میں دوبارہ حملہ کیا اور ظالمانہ طریقے سے انتقام لیا۔ شیر علی کے بھتیجے عبدالرحمان کو افغان امیر بنا دیا جنہوں نے پہلے کئے گئے معاہدے کی توثیق کی۔ ستمبر 1880 میں قندھار پر فتح کے بعد برٹش آرمی واپس چلی گئی۔ امیر عبدالرحمان قابل حکمران تھے۔ اس کے بعد برٹش انڈیا کو افغانستان کی طرف سے روسی خطرہ ٹل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
روس اور برطانیہ میں کچھ ناخوشگوار واقعات کے بعد 1887 میں اینگلو رشین باونڈری کمیشن نے ملکر افغانستان اور روس کی سرحد پر اتفاق کر لیا۔ اس کمیشن میں افغانستان کی نمائندگی نہیں تھی کیونکہ امیر اپنی خارجہ پالیسی برطانیہ کے حوالے کر چکے تھے۔ اس کمیشن کے بعد افغانستان کے شمال کی سرحد بڑی حد تک طے ہو گئی۔
اس سے اگلا معاملہ پامیر میں برٹش انڈیا کی شمالی سرحد طے کرنا تھا۔ 1893 میں اس کو طے کیا گیا ۔ اس میں پتلی سے پٹی افغانستان کو دی گئی۔ یہ واخان کی پٹی ہے جہاں افغانستان کی سرحد چین سے ملتی ہے۔ یہ 220 کلومیٹر لمبی اور 15 سے 65 کلومیٹر چوڑی ہے۔ یہ بہت آباد علاقہ نہیں۔ یہاں تھوڑی سی واخی آبادی ہے اور مشرق میں کرغز خانہ بدوش۔ اس کا مقصد روس اور انڈیا میں فاصلہ رکھنا تھا۔ اس بفر کو بنانے کا فیصلہ کرنے میں نہ ہی چین شامل تھا اور نہ ہی افغانستان۔ چین نے  اس کو 1964 میں قبول کیا۔
برٹش نے 1894 میں افغانستان اور انڈیا کی 1650 میل لمبی سرحد بنائی جو ڈیورنڈ لائن تھی۔ ڈیورنڈ لائن اس علاقے کی بڑی اہم سرحد تھی، جس نے موجودہ افغانستان کی سرحدی تشکیل مکمل کر دی۔
(جاری ہے)


نوٹ: انڈیا کا جموں و کشمیر پر دعویٰ ڈیورنڈ لائن تک ہے۔ اس وجہ سے “سرکاری” طور پر افغانستان کو اپنا ہمسایہ قرار دیتا ہے جس کی انڈیا کے ساتھ سرحد 65 کلومیٹر طویل ہے۔ جب 2010 میں امریکی سفیر نے کہا تھا کہ انڈیا اور افغانستان ہمسایہ ممالک نہیں تو انڈیا کے اس بیان پر سفارتی ہنگامہ برپا کرنے کی یہ وجہ تھی۔
دوسری طرف افغانستان نے بھی اس سرحد کو کبھی سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اس کا دعویٰ پاکستان کے صوبے خیبرپختونخواہ پر اور بلوچستان کے کچھ علاقے پر ہے۔ اگرچہ (انڈیا سمیت) کسی بھی ملک نے کبھی افغان دعوے کی حمایت نہیں کی۔  
دونوں ہمسایوں کی طرف سے کئے گئے سرحدی دعوے پاکستان کیلئے ایک مستقل دردِسر رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً یہاں پر تنازعات سر اٹھاتے رہے ہیں۔
ساتھ لگی تصویر میں جدید افغانستان کا نقشہ۔