جب 1889 میں برٹش نے گلگت ایجنسی بنائی، اس وقت ریاستِ جموں و کشمیر کے تین صوبے تھے۔ جموں، کشمیر اور فرنٹئیر ڈسٹرکٹ۔ سرکاری طور پر تو یہ سب کچ...
جب 1889 میں برٹش نے گلگت ایجنسی بنائی، اس وقت ریاستِ جموں و کشمیر کے تین صوبے تھے۔ جموں، کشمیر اور فرنٹئیر ڈسٹرکٹ۔ سرکاری طور پر تو یہ سب کچھ مہاراجہ کے پاس تھا لیکن کئی جگہوں پر استثنا تھا۔ ڈوگرہ راج کا دور کے علاقوں پر راج کمزور یا بالواسطہ تھا۔ گلگت میں کم اثر تھا۔ ہنزہ پر کبھی کنٹرول رہا، کبھی نہیں۔ میر ہنزہ دو سو سال سے چین کے چنگ خاندان کو خراج دیتے آئے تھے جو کاشغر میں موجود تھا۔ ان کے پاس چینی سنکیانگ کے علاقے یارقند میں جاگیر بھی تھی۔ یہ جاگیر انہیں چین کی طرف سے ترکستان بغاوت کے خلاف مدد کے صلے میں ملی تھی۔ میر کے پاس شکسگام اور راسکام میں زمینیں بھی تھیں۔ یہاں پر کنجوٹی قبائل ان کو زراعت اور چراہ گاہوں کے لئے استعمال کرتے اور چین کو اس کے عوض ٹیکس ادا کیا جاتا۔ میر کے زیرِ نگیں ایک اور حکمران تھے جو ہنزہ کے شمال میں تغدمباش پامیر کے تھے۔ (چین کے ساتھ ہنزہ کا یہ تعلق 1937 میں برٹش کے زور پر ختم ہوا)۔ سنکیانگ میں میر کے یہ زمینیں ہنزہ کے لئے اہم تھیں اور ڈوگرہ راج کے دائرہ اختیار سے باہر تھیں۔
برٹش 1935 سے 1947 تک گلگت لیزڈ ایریا کو کنٹرول کرتے رہے۔ اس میں ساتھ ریاستیں شامل تھیں۔ یہ علاقے سیاسی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھے لیکن ریاست سے کوئی گہرا تعلق نہیں تھا۔ برٹش نے اعلانیہ طور پر یکم اگست 1947 کو لیز ختم کر کے ان علاقوں کو واپس مہاراجہ ہری سنگھ کو دے دیا تھا۔ گلگت ایجنسی اور گلگت لیزڈ ایریا پاکستان میں ابتدائی سالوں کے نقشوں میں متنازعہ دکھائے جاتے رہے۔ (پاکستانی صدر ایوب خان کی اپنی لکھی کتاب “فرینڈز ناٹ ماسٹرز” میں بنے نقشے پر بھی ایسا ہی ہے)۔ بعد میں پاکستان نے اپنے نقشوں میں سے ان علاقوں کو متنازعہ کیٹگری سے نکال لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس علاقے میں “نقشے کی جارحیت” کی تاریخ پرانی ہے۔ جب لائن آف کنٹرول بنائی گئی تو یہ نامکمل تھی۔ یہ چین سے پچاس کلومیٹر جنوب میں ختم ہو جاتی ہے۔ (اس سے آگے ناقابلِ رہائش پہاڑ ہیں)۔ کئی پاکستانی اور انڈین نقشے اس لکیر کو چین تک لے جاتے ہیں (صرف یہ کہ باقی لکیر اپنی مرضی سے لگائی جاتی ہے)۔ دونوں طرف سے سرکاری نقشے گراونڈ کی صورتحال کو نظرانداز کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈوگرہ مہاراجہ کا اکسائی چن کے صحرا پر کنٹرول نہیں تھا (کسی کا بھی نہیں تھا)۔ جنرل زور آور نے سکردو اور لداخ کا علاقہ فتح کیا تھا۔ اکسائی چن بلتستان کے مشرق میں کوہِ قراقرم کے پار ہے۔ زورآور سنگھ نے کشمیر کی ریاست کے قیام سے قبل جو علاقہ فتح کیا تھا اس میں اس کو شمار کیا جاتا ہے۔ انڈین سروے افسر جانسن نے جب نقشہ بنایا تو اس میں اکسائی چن کو ریاست کے حصے کے طور پر بنایا۔ جانسن 1865 میں خوتان، سنکیانگ اور اکسائی چن گئے تھے۔ یہ لکیر ان کی اپنی سمجھ کے مطابق لگائی گئی تھی۔ اس علاقے کے بارے میں انڈیا سروے آفس میں کسی اور کو معلوم ہی نہیں تھا۔ جانسن لائن 1868 میں بنائی گئی۔ اور آج تک انڈیا کے اس علاقے پر دعوے کا یہ سب سے بڑا ایوڈنس کہا جاتا ہے۔ 1890 کے نقشے میں بھی برٹش ملٹری انٹیلی جنس کے سر جان آرڈاگ نے جانسن کی لکیر برقرار رکھی اور اس کی حدبندی کون لن رینج پر کر دی۔ لیکن اس نقشے کا چین کو نہیں بتایا گیا۔ چین نے اپنی طرف سے حدبندی 1892 میں کی۔ یہاں کی آٹھ پہاڑیوں پر انڈیا چین تنازعہ اس نقشہ بندی کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“نقشے کی جارحیت” کی ایک اور جگہ تبت کی طرف ہے۔ 1914 میں برٹش نے کمزور تبت سلطنت پر اپنی مرضی کا انڈیا تبت بارڈر بنا دیا۔ یہ دو ہزار میل لمبی سرحد ہے۔ اس کو میک ماہن لائن کہا جاتا ہے۔ اس کو شملہ میں انڈیا اور تبت کے آفیشلز نے طے کیا تھا۔ تبت الگ ریاست ہوا کرتی تھی جس کو چین نے بعد میں اپنا حصہ بنا لیا۔ چین کو اس سرحد پر اتفاق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پونچھ جاگیر 1936 تک ایک الگ اور نیم خودمختار علاقہ تھا جس پر اپنے ایک راجہ کی حکومت تھی۔ پونچھ کے راجہ جگت دیو سنگھ تھے جو مہاراجہ ہری سنگھ کے دور کے رشتہ دار تھے۔ یہاں پر نوے فیصد مسلمان آبادی تھی۔ راجہ کی اپنی چھوٹی فوج تھی۔ اپنا ٹیکس وصولی کا نظام تھا اور تیرہ گن کا سلیوٹ ملتا تھا۔ یہ 1627 مربع میل پر پھیلی جاگیر تھی اور کئی نوابی ریاستوں سے بڑی تھی۔ 1936 میں مہاراجہ ہری سنگھ پونچھ کے راجہ کو اپنے کنٹرول میں لے آئے۔ اور پونچھیوں پر اپنا ٹیکس کا نظام عائد کر دیا۔ یہ یہاں پر رہنے والوں پر اضافی ٹیکس تھا۔ ہری سنگھ کا یہ ایکشن آنے والے برسوں کے لئے اہم رہا۔ پونچھیوں کی طرف سے مہاراجہ کے خلاف بغاوت شروع ہوئی تھی جس نے آزاد کشمیر کا علاقہ تخلیق کیا۔ پونچھ کی جاگیر اس کا حصہ ہے۔
(جاری ہے)