Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

شمالی علاقہ جات کی آزادی (۲۷)

الحاق کے اعلان کے فوری بعد گلگت ایجنسی کے مسلمانوں نے آزاد کشمیر کی طرز پر ہری سنگھ کی فورس سے بغاوت کر دی۔ 17 جولائی کو جموں و کشمیر کے وز...


الحاق کے اعلان کے فوری بعد گلگت ایجنسی کے مسلمانوں نے آزاد کشمیر کی طرز پر ہری سنگھ کی فورس سے بغاوت کر دی۔ 17 جولائی کو جموں و کشمیر کے وزیرِ اعظم نے اعلان کیا تھا کہ مہاراجہ کی انتظامیہ گلگت کے پورے علاقے کا کنٹرول سنبھال لے گی۔ یکم اگست کو برٹش نے علاقے کی لیز چھوڑ کر اس کو مہاراجہ کو لوٹا دیا تھا۔ گلگت کے لوگ مسلمان تھے اور پروپاکستان تھے۔ انہیں مہاراجہ کا گورنر پسند نہیں تھا۔ انہیں خوف تھا کہ مہاراجہ اب انتظامیہ میں اپنے وفادار لگائیں گے اور ڈوگرہ قوانین کی واپسی ہو جائے گی۔
مقامی گلگت سکاوٗٹس کی مدد سے اور برٹش لیڈرشپ نے، گلگت میں بغاوت 3 نومبر کر دی۔ مہاراجہ کے تعینات کردہ نئے گورنر بریگیڈئیر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ گلگت ریزیڈنسی پر پاکستان کا پرچم سر ولیم براون نے لہرا دیا۔ عبوری حکومت بنی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ کراچی سے درخواست کی گئی کہ آزاد کردہ علاقے پر انتظامیہ قائم کریں۔ ایک ماہ بعد کراچی حکومت نے سردار محمد عالم خان کو اس علاقے کا ایڈمسٹریٹر مقرر کر دیا۔ ایک دوسرے ایڈمنسٹریٹر سکردو پہنچ گئے۔ بلتستان کے لوگ بھی خود کو الحاق کے اعلان کے بعد ریاستِ جموں و کشمیر سے آزاد کروا چکے تھے۔
الحاق کے اعلان کے بعد ہونے والی گلگت کی بغاوت ایک اہم واقعہ تھا۔ یہ مقامی لوگوں نے خود کی تھی۔ یہ دکھاتا تھا کہ مہاراجہ کا یکم اگست کے بعد اس علاقے پر کنٹرول قائم نہیں ہوا تھا۔ اور یہاں پر ڈوگرہ حکومت کے بارے میں اچھے خیالات نہیں تھے۔ ہنزہ کے حکمران میر محمد جمال خان اور نگر کے حکمران میر شوکت علی خان نے نومبر 1947 کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔ اس کے بعد یاسین کے گورنر راجہ میر محبوب علی خان اور پونیال کے گورنر راجہ محمد انور نے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا۔ اگرچہ “قانونی” طور پر یہ حکمران ایسا نہیں کر سکتے تھے لیکن یہ ان کی خواہشات کا اظہار تھا۔ کراچی حکومت نے اس الحاق کو رسمی طور پر قبول نہیں کیا۔ کیونکہ پاکستان کا مقصد جموں و کشمیر کی پوری ریاست حاصل کرنا تھا۔ لیکن یہ علاقے اس وقت سے پاکستان کے زیرِ انتظام ہیں۔ 2009 میں ان کو شمالی علاقہ جات سے بدل کر گلگت بلتستان کا نام دیا گیا اور یہاں کے رہنے والوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا نے پختون حملے سے فائدہ اٹھا کر ایک اور حربہ استعمال کیا۔ جموں و کشمیر میں انڈیا مخالف ہر فرد کو “گھس بیٹھیا” قرار دینا شروع کر دیا۔ اندرونی بغاوت کو بیرونی مداخلت کا رنگ دے دیا گیا۔ دہلی کا پراپگینڈا یہ رہا ہے کہ پختون قبائلیوں کی آمد کے بعد بغاوت 22 اکتوبر کو شروع ہوئی۔ یہ واقعاتی لحاظ سے غلط تھا (اور انڈیا کو اس کا علم تھا) لیکن کامیاب رہا۔ اس حد تک کہ پاکستان میں بھی اس کو قبول کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ جموں اور کشمیر کے رہائشیوں کی بغاوت تھی جو مقامی باغی تھے۔
جموں کے رہائشیوں کی اکثریت ہندو اور سکھ آبادی کی تھی۔ یہاں پر ہری سنگھ کے فیصلے سے اتفاق پایا جاتا تھا۔ لداخ کی بدھ آبادی بھی پروانڈیا تھی۔ کارگل کی شیعہ آبادی کی رائے نامعلوم تھی۔ لیکن غالباً وہ سکردو میں اپنے بھائیوں کی طرح پاکستان سے الحاق کے خواہشمند ہوں گے۔ گلگت، بلتستان، مغربی جموں اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو اپنی پسند کا انتخاب مل گیا تھا۔ جلد ہی تنازعے کا مرکز وادی کشمیر تک محدود رہ گیا۔ یہاں کے مسلمانوں نے پہلے پختون حملہ آوروں کے خلاف ملیشیا قائم کی تھی۔ اس میں ایک ہزار مسلح افراد تھے۔ انڈین آ
رمی ابتدا میں ان کے ساتھ تھی لیکن ان کے نکلنے کے بعد انڈین آرمی بہت جلد غیرمقبول ہو گئی۔

 

(جاری ہے)

ساتھ لگی تصویر سر ولیم براون کی۔ انہوں نے گلگت بغاوت کی قیادت کی۔ اٹھارہ سال تک پاکستان آرمی کا حصہ رہے۔ گلگت میں ان کے کردار کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز کا ایوارڈ دیا۔ “میں نے جو کیا، وہ اپنی ڈیوٹی کی خلاف ورزی تھی۔ آپ اسے غداری کہہ سکتے ہیں۔ لیکن میں نے وہی کیا جو مجھے ٹھیک لگا"۔