لندن میں بادشاہ جارج ششم نے 18 جولائی 1947 کو آزادی ہند ایکٹ پر دستخط کر دئے۔ برٹش کا انڈیا چھوڑ جانا طے ہو گیا۔ پہلے اس خطے کو دو نئے ممال...
لندن میں بادشاہ جارج ششم نے 18 جولائی 1947 کو آزادی ہند ایکٹ پر دستخط کر دئے۔ برٹش کا انڈیا چھوڑ جانا طے ہو گیا۔ پہلے اس خطے کو دو نئے ممالک میں تقسیم کیا گیا۔ بھارت اور پاکستان۔ اس پر انڈیا کی بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس نے اتفاق کر لیا تھا۔ اس کی منطق یہ طے پائی تھی کہ وہ علاقے جہاں برٹش براہِ راست کنٹرول ہو گا، وہاں مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان جبکہ باقی بھارت کا حصہ ہوں گے۔ جبکہ وہ علاقے جو نوابی ریاستیں ہیں، وہاں ریاست کے حکمران کی صوابدید ہو گی۔
دوسرا یہ کہ برٹش نے انڈیا کے نوابوں پر دباوٗ ڈالا کہ وہ جلد سے جلد فیصلہ کریں کہ وہ انڈیا یا پاکستان میں سے ایک کے ساتھ ملنے کا طے کر لیں۔ اور اس کی وجہ تھی۔ ان ریاستوں کا برٹش سے معاہدہ تھا کہ ان کے خارجہ، دفاع اور مواصلات کے امور برٹش کے پاس ہوں گے۔ اب برٹش یہ تعلق مزید نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ یہ اس خطے سے ہر قسم کا تعلق توڑ کر مکمل انخلا تھا۔ ان ریاستوں کا مکمل آزاد حیثیت میں رہنا عملاً ممکن نہیں تھا۔ انہیں ان معاملات میں اور معاشی طور پر بقا کے لئے ان نئی آزاد مملکتوں سے معاملہ کرنا ہی تھا۔ اگرچہ نوابوں اور راجوں کے لئے اپنی شخصی حکمرانی ترک کرنا بہت ہی ناخوشگوار تھا لیکن اس دباوٗ پر اور عملی صورتحال دیکھتے ہوئے، جب تک برٹش انخلا کا وقت آیا تو اول درجے کی تین ریاستوں کے سوا باق سب یا الحاق کا فیصلہ کر چکے تھے یا پھر اپنا ارادہ واضح کر چکے تھے۔
برٹش سیاسی سپورٹ ختم ہو جانے کے بعد انڈیا اور پاکستان نے بہت جلد ان ریاستوں کو مکمل طور پر ہی ختم کر دیا اور ان کے تمام امور اپنے پاس لے لئے۔ اس کے پس منظر میں تین بڑے فیکٹر تھے۔ آزادی کی وجہ سے اس خطے میں جوش اور ولولے کی ایک لہر پھیلی تھی۔ علاقوں کے عوام کے لئے خودمختار ممالک، پاکستان اور بھارت، پرکشش تھے، ذاتی بادشاہتیں نہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان اور بھارت طاقتور ممالک تھے۔ تیسرا یہ کہ ان ریاستوں میں اپنی جغرافیائی علیحدگی تھی۔ ان کا سیاسی تنہا وجود بھی ناممکن تھا اور یہ آپس میں اتحاد بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ ان حکمرانوں نے اپنے تعاون کے قیمت وصول کی۔ اپنی جائیداد، ذاتی دولت اپنے پاس رکھنے کا سودا کیا۔ اس ریاست سے پچھلے سال وصول ہونے والی آمدنی کا دس فیصد سے زیادہ انہیں ذاتی طور پر دیا گیا۔ یہ بھاری رقم تھی۔ پاکستان اور انڈیا، دونوں نے اپنی اپنی ریاستوں کے ساتھ کیا۔ لالچ اور خوف کے ملاپ نے کام کر دکھایا اور یہ نوابی ریاستیں تحلیل ہو گئیں۔ انڈیا کے ڈپٹی وزیرِ اعظم کے مطابق، “ادا کی جانے والی رقوم ان معاملات کو بغیر خون خرابے کے طے کرنے کے عوض معمولی قیمت تھی۔ خاموشی سے صدیوں پرانی یہ راج دہانیاں الٹا دی گئیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا لفظ acrostic ہے۔ اس کو مندرجہ ذیل حروف کو ملا کر بنایا گیا تھا۔
پ: پنجاب کے لئے
ا: افغانیہ کے لئے (اس کا مطلب پختون علاقے تھا)
ک: کشمیر کے لئے
س: سندھ کے لئے
تان: بلوچستان کے لئے
یہ علاقے غالباً اقبال کی تجویز سے لئے گئے تھے جو انہوں نے 1933 کے “اب یا کبھی نہیں” کے عنوان کے پمفلٹ میں لکھی تھی۔ اس لفظ کا دہرا مطلب تھا۔ پاکستان کا مطلب پاک لوگوں کی سرزمین ہے۔
اور اس نام سے دو چیزیں فوراً نمایاں ہو جاتی ہے۔ اس میں “ک” تھا۔ یعنی خیال یہ تھا کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ آئے گا جبکہ اس میں پاکستان کا زیادہ بڑا حصہ شامل نہیں تھا۔ اس میں “ب” نہیں تھا۔ یعنی بنگال کا ذکر نہیں تھا۔
پاکستان کا نام رکھنے والے چوہدری رحمت علی کا تصور یہ تھا کہ بھارت کے علاوہ تین الگ ممالک بنیں گے۔ پاکستان، بانگِ اسلام اور عثمانستان (جو حیدرآباد دکن کی آزاد ریاست تھی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب 1947 کا سال شروع ہوا تھا تو برٹش نے یہ فیصلہ نہیں لیا تھا کہ وہ ملک کو تقسیم کر کے جائیں گے یا جیسا ہے، ویسا ہی چھوڑ جائیں گے۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کے اصرار پر آزادی ہند کا معاملہ انتہائی سرعت کے ساتھ طے پایا تھا۔ یہ معمولی تبدیلی نہیں تھی۔ اس نے کئی مسائل کو جنم دیا۔ تقسیم کرنے کے فیصلے کا اعلان 3 جون کو کیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ریاستوں کے حکمرانوں کے پاس فیصلے کا وقت بہت کم تھا۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر میں وہ نقشہ جو چوہدری رحمت علی کی کتاب "ملت اینڈ دی مشن" سے لیا گیا ہے۔