Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کشمیر ۔ الحاق (۲۶)

جموں و کشمیر کی صورتحال میں بڑی تبدیلی 22 اکتوبر 1947 کو آئی۔ اس روز تین ہزار پختون قبائلی کشمیر میں داخل ہوئے۔ پاکستان کی پوزیشن یہ ہے کہ ...


جموں و کشمیر کی صورتحال میں بڑی تبدیلی 22 اکتوبر 1947 کو آئی۔ اس روز تین ہزار پختون قبائلی کشمیر میں داخل ہوئے۔ پاکستان کی پوزیشن یہ ہے کہ یہ رضاکار تھے۔ ان کو پاکستان نے گزرنے تو دیا تھا لیکن خود نہیں بھیجا تھا۔ انڈیا کی پوزیشن یہ ہے کہ ان کو پاکستان نے خود بھجوایا تھا۔
اس وقت تک ہری سنگھ نے فیصلہ نہیں لیا تھا۔ قانونی لحاظ سے مسلح افراد کا پاکستان کے علاقے سے ہونے والا حملہ تھا۔ اس سے قبل یہ معاملہ پاکستان اور انڈیا کا عسکری معاملہ نہیں تھا۔ اس نے سفارتی تنازعہ چھیڑ دیا۔
پختونخواہ کے وزیرِ اعلی خان عبدالقیوم خان تھے جو کشمیری تھے اور بارہمولہ سے تعلق رکھتے تھے۔ (ان کے بھائی عبدالحمید خان بعد میں آزاد کشمیر کے صدر اور وزیرِ اعظم بھی رہے)۔ اس آپریشن کا غالباً محمد علی جناح کو علم نہیں تھا۔ لیکن غالباً لیاقت علی خان کو علم تھا۔ “آپریشن گلمرگ” کے نام سے یہ آپریشن کشمیر فتح کرنے کے لئے تھا۔ اور انڈیا کو غالباً اس کی پیشگی اطلاع مل چکی تھی۔
انڈیا کی ملٹری نے ہری سنگھ کے الحاق کے اعلان کے چوبیس گھنٹے بعد 27 اکتوبر کو آپریشن شروع کر دیا۔
انڈیا کا دعویٰ ہے (جو کہ غلط ہے) کہ اینٹی مہاراجہ تحریک قبائلیوں کے حملے کے بعد شروع ہوئی۔
پاکستان کی طرف سے اس دعوے کو (غلط طور پر) رضاکارانہ کہا گیا۔ یہ اقدام کیوں لیا گیا؟ یہ کنفیوزنگ سوال ہے۔ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ مقصد ہری سنگھ سے زبردستی دستخط حاصل کرنا تھا۔ اکتوبر سردیوں کا آغاز تھا۔ اگر یہ لشکر وادی کشمیر پر قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو سردیوں اور برف میں راستے بند ہو جانے کی وجہ سے یہ علاقہ باقی برِصغیر سے کٹ جاتا اور انڈیا کے لئے قدم جمانا بہت مشکل ہو جاتا۔
بادی النظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دانشمندانہ اقدام نہیں تھا۔ یہ باقاعدہ فوج نہیں تھی اور منظم طریقے سے کام نہیں کیا۔ بجائے اس کے، کہ سرینگر کا رخ کرتے، یہ لشکر درمیان کے دیہاتوں میں قتل و غارت اور لوٹ مار میں مشغول ہو گیا۔ جب تک یہ سرینگر پہنچے، اس وقت تک انڈین آرمی سری نگر ایرپورٹ پر قبضہ حاصل کر چکی تھی اور دفاعی پوزیشنز حاصل کر لی تھیں۔
لشکر نے سب سے پہلے مظفر آباد پر حملہ کیا۔ یہاں پر قتل اور لوٹ مار کی گئی۔ اس کے بعد یوری کے ساتھ ایسا ہوا۔ پھر بارہمولہ میں۔ قتل کئے جانے والوں کی تعداد چار سو سے تین ہزار کے بیچ سمجھی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ کرنے میں صرف یہ لشکر ہی شامل نہیں تھا۔ قتل ہونے والوں میں برٹش شہری بھی تھے جس میں کیتھولک نن اور ایک کرنل شامل تھے۔ اس کی وجہ سے ان واقعات کو عالمی اخبارات میں کوریج ملی۔ اس وقت لندن سے اخباری رپورٹر سڈنی سمتھ سری نگر موجود تھے۔ وہ اس لشکر کی کشمیر آمد کے حالات فرنٹ لائن سے رپورٹ کرتے رہے۔
ان پرتشدد کارروائیوں کا ایک اثر یہ ہوا کہ کشمیریوں میں پاکستان کی سپورٹ کم ہو گئی۔ کشمیریوں کے خیال میں اس حملے کا ذمہ دار کراچی تھا۔ اور یہ فوج کشی ان کے لئے مسائل لے کر آئی تھی۔ 24 اکتوبر  کو لشکر نے علاقے کا واحد بجلی گھر تباہ کر دیا۔ یہ یوری کے مقام پر 1907 میں بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ علاقہ کافی عرصے تک بجلی سے محروم ہو گیا۔ ہری سنگھ اس کے بعد اپنی گاڑی میں سرینگر چھوڑ کر جموں چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی سپورٹ کم ہو جانے کے علاوہ لشکرکشی سے دو مزید نتائج نکلے۔ ایک تو یہ کہ اس سے دو روز بعد ہری سنگھ نے انڈیا سے رسمی الحاق کا اعلان کر دیا۔ دوسرا یہ کہ اس نے انڈیا کو عسکری آپریشن کے لئے قانونی بنیاد فراہم کر دی۔
انڈین آرمی 27 اکتوبر کو جب سرینگر ائیرپورٹ پر اتری تو سست رفتاری سے بڑھتا ہوا لشکر ابھی یہاں تک نہیں پہنچا تھا۔ آرمی کی آمد نے اس بات کا امکان ختم کر دیا کہ لشکر سرینگر پر قبضہ کر سکے۔ اس نے پاکستان کو وادی کشمیر سے محروم کر دیا۔
انڈیا کی ملٹری فورس کو فضائیہ کی مدد کے ساتھ ابتدائی کامیابی آسانی سے ہو گئی۔ اس کے بعد انڈیا نے جموں و کشمیر کی ریاست کے باقی حصوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ ان کے مقابلے میں رضاکاروں کے علاوہ کشمیریوں کی پروپاکستان “آزاد آرمی” تھی۔ قبائلی لشکر کے مقابلے میں آزاد آرمی سخت حریف تھی۔ یہ منظم تھے، اپنی زمین پر لڑ رہے تھے، جذبے سے لڑ رہے تھے اور مقامی علاقوں کی سپورٹ حاصل تھی۔ انڈین آرمی اور دوسری جنگِ عظیم کا تجربہ رکھنے والے تھے۔ انہوں نے انڈین آرمی کی پیشرفت روک دی۔
آزاد آرمی کی صلاحیت کی وجہ سے کئی انڈین ایسا سمجھتے تھے کہ پاکستان آرمی جموں و کشمیر میں لڑ رہی ہے۔ یہ غلط تھا۔ پاکستان آرمی باقاعدہ طور پر اس علاقے میں مئی 1948 میں آزاد آرمی کی مدد کے لئے داخل ہوئی۔ اس وقت انڈیا ملٹری فورس زیادہ ساز و سامان اور نفری علاقے میں لا چکی تھیں۔ مجتمع ہو رہی تھیں اور فضائیہ خطرے کا باعث بن رہی تھی۔ خطرہ تھا کہ انڈین آرمی بڑے علاقے پر قابض ہو سکتی ہے۔ (پاکستان نے اقوامِ متحدہ کو اس بارے میں تین ہفتے بعد 7 جولائی 1948 کو آگاہ کیا)۔ پاکستانی فوج کے علاقے میں آ جانے سے جموں و کشمیر کی صورتحال پہلی انڈیا پاکستان جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے پاس بہتر چوائس یہی تھی اور اس نے انڈین آرمی سے آزاد کشمیر کو بچا لیا۔ لیکن اسی کے ساتھ کشمیری اس معاملے میں پس منظر میں جانا شروع ہو گئے۔ یہ اب بین الاقوامی معاملہ بن چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہری سنگھ کے اعلانِ الحاق کے بعد انڈیا کا دعویٰ تھا کہ تمام ریاست انڈیا کی ہے۔ انڈیا نے فوری مطالبہ کیا کہ پاکستان اور اس کے مسلح حامی بھارتی سرزمین خالی کر دیں۔
 پاکستان کے لئے یہ بڑا سیٹ بیک تھا۔ پاکستان نے 30 اکتوبر کو بیان جاری کیا کہ وہ مہاراجہ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا۔
(جاری ہے)