کشمیر قدیم تاریخ میں بدھ مت اور ہندو مت کا بڑا مرکز رہا۔ پانچویں صدی میں بدھ مت کو کئی وجوہ کی بنا پر زوال آیا اور شیوا مت نے اس کی جگہ لی۔...
کشمیر قدیم تاریخ میں بدھ مت اور ہندو مت کا بڑا مرکز رہا۔ پانچویں صدی میں بدھ مت کو کئی وجوہ کی بنا پر زوال آیا اور شیوا مت نے اس کی جگہ لی۔ بڑے ہندو فلسفیوں میں ابھیناواگپتا کشمیری تھے اور ان کا تعلق شیوا مت سے تھا۔ گیارہویں صدی میں پنجاب کے راستے یہاں اسلام کی آمد ہوئی۔ تجارتی روابط کے ساتھ یہ یہاں پہنچا۔ اسلام اس خطے میں لانے والی اہم شخصیات میں ترکستان کے بلبل شاہ تھے اور ایران کے شاہ ہمدان۔ بلبل شاہ نے لداخ کے شہزادہ رنچن کو مسلمان کر لیا تھا۔ ان کے بعد 1339 میں آنے والے شاہ میر پہلے پیدائشی کشمیری مسلمان حکمران تھے۔ اس وقت تک کشمیر میں اسلام پھیلنے لگا تھا۔ شاہ میر نے سلطان خاندان کی بنیاد رکھی جس نے کشمیر پر 222 سال حکومت کی۔ اس خاندان کے جانے کے بعد مغل یا افغان یہاں 1819 تک حکومت کرتے رہے۔ جس کے بعد سکھوں نے علاقے پر قبضہ کر لیا اور ان کی حکومت 1846 تک رہی۔
برٹش سے آزادی کی تحریک میں دو اہم شخصیات کا پس منظر اس علاقے سے تھا۔ ایک کشمیری پنڈت جواہر لال نہرو جبکہ ان کے مخالف خیالات رکھنے والے سکالر اور فلسفی محمد اقبال۔
کشمیر میں مذہبی رواداری کی طویل روایت رہی ہے۔ کشمیری روحانی روایت رشی کہلاتی ہے۔ صوفی اور سنیاسی سنسکرت یا فارسی کے بجائے کشمیری زبان استعمال کرتے رہے۔ یہاں مذہبی روایات کے احترام کی تاریخ اور روایت کو “کشمیریت” کا نام دیا گیا ہے۔ مچھلی اور بکرے کا گوشت کھایا جاتا ہے لیکن عام طور پر نہ ہی یہاں سور کا گوشت کھایا جاتا رہا اور نہ ہی گائے کا۔
لیکن کشمیریت رومانوی لفظ ہے۔ ہم آہنگی ہمیشہ نہیں رہی۔ کشمیری پنڈتوں اور مسلمان کسانوں کے درمیان تناوٗ رہا ہے۔ شیعہ سنی مسائل رہے ہیں۔ اور انہی مسائل کی وجہ سے ہی تیسرے مغل بادشاہ، اکبر کو 1586 میں کشمیر فتح کرنے کا موقع ملا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمیر کی تنہائی اور دشوار گزار راستے کی وجہ سے اس کا باقی برِصغیر سے زیادہ سیاسی تعلق نہیں رہا۔ یہ 1586 میں تبدیل ہو گیا جب اکبر نے سلطان خاندان کا خاتمہ کر دیا۔ اکبر کو کشمیریوں سے سخت مقابلہ کرنا پڑا تھا۔ کشمیری جنگجو قوم تھی۔ کشمیریوں نے دو بار محمود غزنوی کی طاقتور فوج کو شکست دی تھی۔ جب بھی کشمیر پر کسی نے حملہ کیا تھا تو سخت جان کشمیریوں نے متحد ہو کر مقابلہ کیا تھا اور گوریلا جنگ سے بڑے دشمن کو شکست دی تھی۔ ظہیرالدین بابر کو بھی 1527 میں شکست کھانا پڑی تھی۔ اکبر کو 1568 میں ناکامی ہوئی تھی۔ لیکن پھر شیعہ سنی پھوٹ نے کشمیر کو زیر کر دیا۔ شیعہ حکمران کے خلاف باغی سنی تھے اور مغل بادشاہ اکبر بھی سنی تھے۔ انہوں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باغیوں کی مدد سے کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی ساٹھ سال کی ناکامیوں کے بعد ہونے والی مغل کامیابی تھی۔ اس کے بعد کشمیر کی علیحدہ سلطنت ختم ہو گئی۔ یہ مغل سلطنت کا صوبہ بن گیا۔
ایسا ہی بلتستان اور لداخ میں ہوا۔ تبت سے بچانے کے لئے مغلوں کی مدد حاصل کی گئی۔ اور یہ علاقہ مغل عملداری میں آ گیا۔ اکبر نے مقامی فوج تحلیل کر دی۔ کشمیری مرد آبادی کو لمبا لباس “پھرن” پہننا لازم کیا۔ اس لباس میں وجہ سے تلوار یا چاقو نکالنے میں دقت ہوتی۔ مغل دور میں عسکریت کی حوصلہ شکنی کے لئے کی جانے قانونی اور سماجی تبدیلیاں تھیں جس باعث کشمیریوں کو جنگجو نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مغلوں نے یہ تبدیلی کامیابی سے کر لی تھی۔ اور یہ وہ تاثر تھا جس وجہ سے برٹش کی مارشل ریس ڈاکٹرائن میں کشمیری نان مارشل قوم قرار پائے اور انہیں انڈین آرمی میں بھرتی نہیں کیا گیا۔
مغلوں کا کشمیر سے خاص تعلق رہا۔ اکبر نے تین بار کشمیر کا سفر کیا۔ اکبر کے بیٹے جہانگیر نے کشتواڑ کو مغل سلطنت کا حصہ بنایا اور آٹھ مرتبہ یہاں آئے۔ (سترہویں صدی کے دشوار گزار راستوں سے گزر کر اتنی مرتبہ آنا معمولی بات نہیں تھی)۔ انہوں نے یہاں باغات بنوائے۔ کہا جاتا ہے کہ بسترِ مرگ میں انہوں نے اپنی آخری خواہش “صرف کشمیر” کہی تھی۔ شاہ جہاں نے وادی میں باغات بنوائے۔ دارا شکوہ نے یہاں وقت گزارا۔ محل، مسجد، رصدگاہ اور صوفی درگاہ تعمیر کروائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغلوں کے بعد آنے والوں کے لئے اس علاقے کے ساتھ اس طرح کی جذباتی محبت نہیں تھی۔ خالصہ سرکار اور افغان حکمرانوں کے لئے اپنے دور میں یہ ایک دور دراز کا علاقہ تھا جس سے آمدنی حاصل ہوتی تھی لیکن انہیں اس علاقے میں یا یہاں کے لوگوں کے ساتھ دلچسپی نہیں تھی۔ ڈوگرہ دور میں سری نگر موسمِ گرما کا جبکہ جموں موسمِ سرما کا دارالحکومت تھا۔ اس دور میں یہ سیاحوں کی جگہ بننے لگا۔ لوگ چھٹیاں منانے آیا کرتے۔ 1940 میں انتیس ہزار سیاح سری نگر آئے جس میں آٹھ ہزار یورپ سے آئے تھے۔ کشتی گھروں میں یا ہوٹل میں رہتے۔ مچھلیاں پکڑتے، پہاڑوں پر چڑھتے، کیمپنگ کرتے۔
انڈیا میں 2009 میں آنے والے سیاحوں کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تھی جس میں چوبیس ہزار بیرونِ ملک سے آئے تھے۔ یہ تعداد پچیس سال سے پہلے کے مقابلے میں نصف تھی، جب وادی میں سیاحوں کی تعداد دس لاکھ تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ: ساتھ لگی تصویر جہانگیر کی کشمیر میں بنائی گئی ہے۔ یہ تصویر اس وقت برٹش میوزیم میں نمائش پر لگی ہے۔