عرب، فارس، یونان سے تاجر برِصغیر آتے رہے۔ ان کے لئے اس تک پہنچنے کے لئے اس علاقے کے مغرب میں ایک بڑا دریا تھا جس کو عبور کرنا مشکل تھا۔ سنس...
عرب، فارس، یونان سے تاجر برِصغیر آتے رہے۔ ان کے لئے اس تک پہنچنے کے لئے اس علاقے کے مغرب میں ایک بڑا دریا تھا جس کو عبور کرنا مشکل تھا۔ سنسکرت میں اس دریا کو سندھو کہا جاتا تھا (اس کا مطلب پانی کی بڑی باڈی ہے)۔ فارسی میں اس کو ہندو کہا گیا۔ یونانی اور رومن میں یہ انڈس کہلایا۔ اس دریا سے پرے کی زمین ہند، انڈ یا الہند کہلائی۔ اس زمین کا نام فارسی میں ہندوستان اور رومن میں انڈیا پڑ گیا۔ مغرب سے آنے والوں نے اس کے سمندر کو البحر الہندی کہا یا پھر انڈین سمندر۔ (آج یہ بحرِ ہند یا انڈین اوشن کہلاتا ہے)۔ اس نام کا ماخذ بڑا دریا اس کی مغربی سرحد تھی جو آج دریائے سندھ کہلاتا ہے۔
اگرچہ اس جغرافیائی خطے کو انڈیا کہا گیا لیکن یہ ایک مکمل یا یکجا سیاسی اکائی برٹش دور میں بنی۔ اس سے پہلے کوئی بھی ایسا حکمران نہیں رہا جس نے اس پورے خطے پر حکومت کی ہو۔ تاریخ میں دو مرتبہ اس کا بڑا حصہ ایک بادشاہت کے تلے آیا۔ ایک بار موریا سلطنت میں اشوکا کے دور میں ایسا 250 قبلِ مسیح میں ہوا۔ دوسری مرتبہ مغلیہ سلطنت میں اورنگزیب کے دور میں جو 1658 سے 1707 میں ہوا۔ ان مختصر ادوار میں بھی تمام علاقہ یکجا نہیں تھا۔ مثلاً، ان دونوں بادشاہوں کے پاس بھی کیرالہ اور تامل ناڈو نہیں تھے۔ موریا اور مغل دور میں برِصغیر کے باہر موجودہ افغانستان کا بڑا علاقہ بھی اس سلطنت کے زیرِ نگیں رہا۔ موجودہ انڈیا کی سیاسی صورت وہ ہے جو برٹش دور میں بنی۔ برٹش کے جانے کے بعد یہ 1947 میں تقسیم ہوا۔ دلچسپ چیز یہ کہ جس دریا کی بنیاد پر اس کا نام انڈیا یا ہندوستان پڑا، وہ اب تقریباً تمام، پاکستان میں بہتا ہے نہ کہ انڈیا میں۔
اور اصطلاحات کے حوالے سے ایک اور چیز کی وضاحت۔ انڈیا میں برٹش راج کی ابتدا تجارت کے لئے آنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہوئی تھی اور اس کے ملازمین انگلستان سے سترہویں صدی میں آئے تھے۔ لیکن بعد میں یہ انگریز کا نہیں، برٹش کا راج رہا تھا اور اسی نام سے مشہور ہے۔ حکومتی امور چلانے کے لئے آنے والوں میں انگریزوں کے علاوہ سکاٹ، آئرش، ویلش بھی تھے۔ اسی دور میں جموں اور کشمیر کی نوابی ریاست کی تشکیل ہوئی۔
انڈیا کے تصور میں ایک اور پیچیدگی بھی ہے۔ برٹش انڈیا کا “پراجیکٹ” 1849 میں مکمل ہوا تھا جب انہوں نے دوسری مرتبہ سکھوں کو شکست دے کر برِصغیر کے تمام بڑے علاقوں کا کنٹرول بالواسطہ یا بلاواسطہ حاصل کر لیا تھا۔ اس کے بعد دو تہائی علاقے کا انتظام خود رکھا۔ باقی پر مقامی حکمرانوں کے پاس رہا جو اپنے علاقوں پر حکومت کرتے رہے۔ یہ نوابی ریاستیں تھیں جو برٹش کی باجگزار تھیں لیکن خودمختار تھیں۔ جموں کشمیر ایسی ہی ریاست تھی۔ برٹش انڈیا اور نوابی ریاستوں کو ملا کر انڈین ایمپائر کہا جاتا تھا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے الگ ہو جانے کے بعد جو اکائی وجود میں آئی، اس کو یونین آف انڈیا یا بھارت کہا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جنگِ عظیم کی تباہ حالی کے بعد برطانیہ کو انڈیا سے جانے کی جلدی تھی۔ کس طریقے سے نکلا جاتا؟ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ تھا۔ 1937 میں انڈیا میں انتخابات سے بننے والی حکومت کے بعد یہ واضح ہو چکا تھا کہ اس کو ایک یونٹ کے طور پر چھوڑ کر چلے جانے کا مطلب خانہ جنگی ہوتا، لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کا کوئی بھی مثالی حل نہیں تھا۔ اس کی تقسیم دو یونٹس کے طور پر کی گئی اور بڑی حد تک مذہبی بنیاد پر ہوئی۔ شناخت کے معاملات بڑی حد تک جلد طے ہو گئے۔
اور اس تقسیم کے عمل نے نتیجے میں کشمیر کے تنازعے کو جنم دیا۔
(جاری ہے)