Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کشمیر ۔ راج کا خاتمہ (۱۹)

دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ برٹش راج خاتمے کو ہے۔ 1947 کے آغاز میں یہ ظاہر تھا کہ انڈین سیاستدانوں کو برٹش انڈیا کے ب...


دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ برٹش راج خاتمے کو ہے۔ 1947 کے آغاز میں یہ ظاہر تھا کہ انڈین سیاستدانوں کو برٹش انڈیا کے بارے میں فیصلے لینے ہیں۔ اور نوابی ریاستوں کے حکمرانوں کو بھی اپنی ریاستوں کا مستقبل طے کرنا ہے۔ اس وقت برٹش انڈیا میں مختلف سائز کے سترہ صوبے تھے۔ جبکہ 562 سے 584 کے درمیان نوابی ریاستیں تھیں۔ کچھ صرف چند ایکڑ پر تھیں اس لئے ان کی ٹھیک گنتی معلوم نہیں۔ سب سے چھوٹی ویجانونس تھی جو بائیس ایکڑ پر مشتمل تھی جس میں دو سو لوگ رہائش پذیر تھے۔ مغربی انڈیا میں کاٹھیاواڑ میں 282 ریاستیں تھیں جن کا رقبہ دس مربع میل سے کم تھا۔ جموں و کشمیر سب سے بڑی ریاست تھی۔ اس کی سرحدیں چین اور افغانستان کو چھوتی تھیں۔ یہاں سے سالانہ آمدنی 58 ملین روپے تھی۔ ان میں سے پندرہ فیصد مہاراجہ کے ذاتی استعمال میں جاتے تھے۔ دوسرا بڑا معاملہ حیدرآباد دکن کا تھا۔ اس کا رقبہ جموں و کشمیر سے کچھ ہی کم تھا لیکن کشمیر کی آبادی چار ملین تھی جبکہ حیدرآباد دکن کی ساڑھے دس ملین۔ حیدرآباد انڈیا کی امیر ترین ریاست تھی۔
انڈیا کی یہ ریاستیں تین درجوں کی تھیں۔ ان میں سے 118 فرسٹ ڈویژن کی تھیں۔ ان میں برٹش عمل دخل محدود ہوا کرتا تھا۔ ان کے حکمرانوں کو چیمبر آف پرنس میں نمائندگی حاصل تھی۔ ان کے حکمرانوں کو توپوں کا سلیوٹ ملتا تھا۔ 117 ریاستیں سیکنڈ ڈویژن تھیں۔ دس ریاستوں کے گروپ میں سے ایک نمائندہ چیمبر میں جا سکتا تھا۔ تھرڈ ڈویژن کی ریاستیں وراثتی جاگیریں تھیں اور ان کے پاس محدود حقوق تھے۔
کونسی ریاست کتنی اہم ہے؟ اس کا تعلق اس سے تھا کہ اس کو کتنی توپوں کی سلامی ملتی ہے۔ پانچ ریاستیں تھیں جن کے حکمرانوں کو اکیس توپوں کا سلیوٹ ملتا تھا۔ (صرف وائسرائے کو اکتیس توپوں کا سلیوٹ ملتا تھا)۔ ان پانچ میں جموں و کشمیر، برودا، گوالیار، حیدرآباد اور میسور تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان ریاستوں کے حکمران عام طور پر اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ ان کے عوام کا رابطہ باقی انڈیا کے عوام سے رہے۔ نہرو یا جناح جیسے لیڈروں کی ملک گیر مقبولیت ان ریاستوں کے لئے اچھی خبر نہیں تھی۔ ان ریاستوں میں سیاسی عمل موجود نہیں تھا اور سیاسی طور پر تنہا عوام کا تحریکِ آزادی میں کردار بھی محدود رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکم اگست 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست کے تین صوبے تھے۔ جموں، جہاں آبادی سب سے زیادہ تھی اور کشمیر سے کچھ بڑا تھا۔  اس میں پونچھ اور چنانی کی جاگیریں بھی تھیں جن کو محدود خودمختاری حاصل تھی۔ اس علاقے کا اچھا کنکشن پنجاب سے سڑک اور ریلوے سے تھا۔ جموں سے سری نگر تک سڑک جاتی تھی۔ یہ راستہ خراب موسم میں بند ہو جاتا تھا۔
کشمیر ریاست کے وسط میں تھا۔ اس کے مغرب میں مظفر آباد تھا۔ یہ کشمیر کا کم آبادی والا ڈسٹرکٹ تھا۔ اس کا کپیٹل مظفر آباد شہر تھا۔ راولپنڈی سے سرینگر جانے والی سڑک یہاں سے گزر کر جاتی تھی اور یہ سارا سال کھلی رہتی تھی۔
تیسرا حصہ فرنٹئیر ڈسٹرکٹس تھے جو بہت بڑا لیکن بہت کم آباد علاقہ تھا۔ افغانستان اور چین سے سرحد ملتی تھی۔ یہاں پر سال میں چھ مہینے ٹریفک بند رہتا تھا۔ اس آبادی کا نسلی اور مذہبی پس منظر کشمیری آبادی سے مختلف تھا۔ 1941 کی مردم شماری میں سری نگر کی آبادی 208,000 تھی۔ جموں کی آبادی 50,000 تھی۔ (سیالکوٹ کی 138,000 اور راولپنڈی کی 181,000 تھی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کشمیری عوام کی آزادی کے بارے میں کیا رائے تھی؟” بہت ہی مبہم سوال تھا۔ ان کی آواز سننے کا طریقہ نہیں تھا۔ ہری سنگھ نے عوام کو سیاسی عمل میں شرکت نہیں کرنے دی تھی۔ جب بادلِ نخواستہ اسمبلی بنائی گئی تھی تو اس میں محدود لوگ ووٹ ڈال سکتے تھے۔ یہاں کے مختلف علاقوں کے لوگوں کے آپس میں خاص تعلق اور رابطے نہیں تھے۔ آپس میں زبان بھی مشترک نہیں تھی۔ نہ ہی زیادہ سفر کیا جاتا تھا۔ اننت ناگ، کارگل، ہنزہ، مظفرآباد ۔۔۔ ان سب کو ایک یونٹ کہا نہیں جا سکتا تھا جن کی رائے کا ایک خاص مطلب ہو۔ ان کی اکٹھی سیاسی شناخت نہیں تھی۔ دوسری یہ کہ تقسیم کے طے کردہ قواعد کے مطابق ان لوگوں کی رائے کی اپنی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ یہ فیصلہ مہاراجہ کا صوابدید تھی۔   
ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مہاراجہ کی اولین ترجیح اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں تھی۔ اور ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی پرجا میں بہت سے لوگوں کو مہاراجہ قبول نہیں تھے۔
یہ اگست 1947 کا پس منظر تھا۔ برٹش راج ختم ہوا۔ برِصغیر سے یونین جیک لپیٹ دیا گیا۔ اب معاملات برِصغیر کے لوگوں کے اپنے ہاتھ میں تھے۔
(جاری ہے)