فروری 1846 کو پہلی اینگلو سکھ جنگ میں سکھ فوج کو شکست ہوئی۔ 9 مارچ کو لاہور میں آٹھ سالہ سکھ بادشاہ دلیپ سنگھ کے ساتھ برٹش معاہدہ ہوا۔ اس ...
فروری 1846 کو پہلی اینگلو سکھ جنگ میں سکھ فوج کو شکست ہوئی۔ 9 مارچ کو لاہور میں آٹھ سالہ سکھ بادشاہ دلیپ سنگھ کے ساتھ برٹش معاہدہ ہوا۔ اس سے صرف ایک ہفتے بعد 16 مارچ کو امرتسر میں جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو برٹش نے کشمیر فروخت کر دیا۔ پچھتر لاکھ نانک شاہی روپوں کے عوض یہ سودا طے پایا۔ پچاس لاکھ نقد فوری ادا کئے جانے تھے۔ باقی چار سال کی اقساط میں۔ گلاب سنگھ نے جو رقم لاہور سے لوٹی تھی، وہی ادائیگی کے لئے ادا کر دی گئی۔ اس معاہدے کے تحت دفاع، خارجہ اور مواصلات کے معاملات برٹش کے پاس رہنے تھے۔ ان کے علاوہ گلاب سنگھ خودمختار تھے۔ گلاب سنگھ کے لئے ان کی جائیداد میں یہ ایک اور اضافہ تھا۔ امرتسر سے پہلے ان کے پاس جموں، بلتستان، لداخ اور اکسائی چن کے علاقے تھے۔ کشمیر کے اضافے سے ریاستِ جموں و کشمیر تخلیق ہو گئی۔ یہ انڈیا کی سب سے بڑی نوابی ریاست تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ سودا کیوں کیا؟ کشمیر پر براہِ راست حکومت کیوں نہیں کی؟ یہ ایک کنفیوزنگ سوال ہے۔ نامعلوم علاقوں پر جا کر حکومت سنبھال لینا ان کے لئے اجنبی نہیں تھا۔ ایسا ہی کرتے آئے تھے۔ کشمیریوں کے لئے گلاب سنگھ کی جابرانہ حکومت کے مقابلے میں برٹش حکومت بہتر رہتی۔ کشمیریوں اور گلاب سنگھ کی ایک دوسرے سے ناپسندیدگی دو طرفہ تھی۔ برٹش کشمیر اپنے پاس رکھ کر اس سے منافع بھی کما سکتے تھے۔ ساتھ ساتھ یہ کہ اگرچہ گلاب سنگھ نے برٹش کا ساتھ دیا تھا لیکن برٹش انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کی حمایت کو برٹش نے موقع پرستی سمجھا گیا تھا۔ ان کو خودغرض اور مکار تصور کیا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی ایک وضاحت تو تاریخ کا یہ دور تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو پنجاب کی جنگ سستی نہیں پڑی تھی۔ اور اس سے بالکل پہلے مہنگی افغان مہم کی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی آخر میں تجارتی کمپنی تھی جس کو کیش کی ضرورت تھی۔ دوسرا یہ کہ اگرچہ کشمیر سکھ سلطنت کا دوسرا سب سے امیر صوبہ تھا لیکن برٹش کو اس وقت اس کا معلوم نہیں تھا۔ بعد میں ایک برٹش اہلکار نے کہا کہ، “ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم بیچ کیا رہے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمیر تنہا اور مشکل رسائی والا علاقہ تھا۔ برٹش کے پاس یہاں پہنچے کا براہِ راست کوئی راستہ نہیں رہا تھا کیونکہ اس کے لئے سکھ علاقے سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ کشمیر پہنچنے والے سب سے پہلے یورپی 1664 میں برنئیر تھے۔ اس کے بعد فورسٹر 1786 میں گئے تھے۔ مورکروفٹ، ٹریبک اور گوتھری 1823 میں۔ ژاک مونٹ 1831 میں اور وولف 1832 میں اور بس۔ ریاستِ جموں و کشمیر کی تخلیق کے وقت تک کوئی بھی اور یورپی کشمیر تک گیا بھی نہیں گیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے یہ بالکل نامعلوم علاقہ تھا۔
ایک اور فیکٹر یہ تھا کہ ابھی سکھ سلطنت سے خطرہ تھا۔ یہ کمزور ہوئی تھی لیکن ختم نہیں۔ برٹش نے پنجاب کو شکست بنگال آرمی کی مدد سے دی گئی تھی۔ اس میں 2415 فوجیوں کا جانی نقصان اٹھایا تھا اور ہلاک ہونے والوں میں سے نصف یورپی تھے۔ کشمیر کسی اور کے حوالے کر دینے کا مطلب یہ تھا کہ اس کا دفاع کرنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ تجربہ کار راجہ جو پڑوس کی ریاست جموں کا حاکم تھا، اس کے حوالے کر دینے کو ترجیح دی گئی۔ برٹش نے سکھوں کو فیصلہ کن شکست 1849 میں دی۔ اس وقت تک گلاب سنگھ کشمیر میں اپنی انتظامیہ قائم کر چکے تھے۔
پیسے کی ضرورت، کمزوری، لاعلمی اور گلاب سنگھ کی حکمتِ عملی، یہ بڑے فیکٹر رہے کہ کشمیر برٹش کنٹرول کے بجائے مہاراجہ کے پاس آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جائیداد کی اس فروخت نے 16 مارچ 1846 کو ریاستِ جموں و کشمیر تخلیق کر دی۔
(جاری ہے)