تبت سے سنگِ خباب نکلتا ہے جو لداخ اور گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں پہنچتا ہے۔ اس کو دریائے سندھ کہا جاتا ہے۔ پنجاب ...
تبت سے سنگِ خباب نکلتا ہے جو لداخ اور گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں پہنچتا ہے۔ اس کو دریائے سندھ کہا جاتا ہے۔ پنجاب کے پانچ دریا بالآخر اس میں گرتے ہیں۔ 1947 میں انڈس بیسن کی آبادی چار کروڑ تھی۔
انیسویں صدی کے پہلے نصف میں یہ علاقہ سرکارِ خالصہ کا گڑھ تھا۔ برٹش پنجابی سلطنت کی طاقت سے خائف رہے تھے۔ یہ انڈیا کی آخری بڑی طاقت تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا مقابلہ کر سکتی تھی۔ اس میں پشاور، کشمیر، ہزارہ اور جموں کے علاقے بھی آتے تھے۔
طاقتور سکھ بادشاہ رنجیت سنگھ نے 1799 میں سکھوں کی قیادت سنبھالی تھا۔ رنجیت کی زندگی میں یہ بادشاہت ناقابلِ شکست لگتی تھی۔ 1802 میں لاہور دارلحکومت بنا۔ ہمسایہ شہر امرتسر بھی رنجیت کے پاس تھا۔ 1813 میں سکھ سلطنت پورے پنجاب پر تھی اور پھیل رہی تھی۔ 1819 میں سکھ فوج نے درانی افغانوں سے کشمیر چھینا۔ اس کے ساتھ ہی 1399 سے جاری مسلمان حکومت کا یہاں سے خاتمہ ہو گیا۔ اس قبضے کے بعد کشمیر اور پنجاب کا گہرا تعلق بننے لگا جو اس سے قبل افغان قبضے میں مضبوط نہیں رہا تھا۔ کشمیر رنجیت سنگھ کا سب سے زیادہ پیداوار والا صوبہ تھا۔ کشمیریوں کے لئے سکھ حکومت افغانوں سے زیادہ بُری ثابت ہوئی۔ خاص ٹیکس لگائے گئے۔ سری نگر کی جامع مسجد کو بند کر دیا گیا اور یہ بیس سال تک بند رہی۔ سکھ اپنا علاقہ 1820 میں پشاور سے آگے تک پھیلا چکے تھے۔ افغانوں کی نااتفاقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 1834 میں سکھ سلطنت نے ٹرانس انڈس کا مشکل علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ یہ اس سلطنت کا نقطہ عروج تھا۔
سکھ اور برٹش کا تعلق اچھے ہمسایوں والا رہا تھا۔ پنجاب کے علاوہ ہزارہ، پختون اور کشمیری علاقے بھی سکھوں کے پاس تھے۔ اس کے آٹھ صوبے تھے۔ گجرات، جالندھر، جموں، کانگرا، کشمیر، لاہور، ملتان اور پشاور۔ ہر صوبے میں ایک نظام (گورنر) تعینات تھا۔
رنجیت سنگھ کو 1835 میں فالج ہوا اور 1839 میں انتقال۔ ان کے آٹھ بیٹے تھے جن میں لڑائیاں رہیں۔ تین بیٹے مختلف وقتوں میں تخت نشین ہوئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اب دریائے ستلج سے آگے بڑھنا چاہتی تھی۔ سکھ سلطنت کی عسکری طاقت خالصہ دَل تھا جو انتیس ہزار فوجیوں پر مشتمل تھا۔ یہ اچھی تربیت یافتہ اور اچھی لیڈرشپ والی فوجی قوت تھی۔ اس کے پاس 192 توپیں تھیں۔ خالصہ دل کے افسران میں سے 42 فوجی افسران یورپی تھے جن میں فرانس، اٹلی، برطانیہ، اٹلی، سپین، روس، سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے بھی تھے۔ برٹش کے لئے یہ طاقتور حریف تھا۔ برٹش فوج گوالیار اور جنوبی سندھ میں فتح حاصل کر چکی تھی اور یہ آخری اہم علاقہ بچا تھا۔ افغانستان کا معاملہ طے ہو جانے کے بعد اب پڑوس سے فوری خطرہ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اینگلو سکھ تعلقات کشیدہ تھے۔ اس کا آغاز 1845 میں سکھوں نے پیشگی حملے سے کیا۔ سکھوں کو شکست ہوئی اور نتیجے میں بھاری خراج ادا کرنا پڑا اور کشمیر کا علاقہ برٹش کے حوالے کرنا پڑا۔ کشمیر پر سکھوں کے ستائیس سال میں دس گورنر تبدیل ہوئے تھے اور یہ کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دور سمجھا جاتا ہے۔ کشمیر اب برٹش کے پاس آ گیا۔ برٹش کی یہاں پر حکومت زیادہ عرصہ نہیں رہی۔ بلکہ یہ صرف ایک ہفتہ ہی رہی۔ حیرت انگیز طور پر یہ بہت جلد راجا گلاب سنگھ کو فروخت کر دیا گیا۔
اپریل 1848 میں دوسری اینگلو سکھ جنگ شروع ہوئی۔اس کا آغاز ملتان میں ہونے والی اینٹی برٹش بغاوت سے ہوا تھا۔ جب یہ لڑائی جاری تھی تو موقع سے فائدہ اٹھا کر افغان امیر دوست محمد خان نے پشاور کو سکھوں سے چھیننے کے لئے حملہ کیا۔ لیکن دوست محمد کو کامیابی نہ ہوئی۔
مارچ 1849 میں سخت لڑائی کے بعد برٹش انڈین آرمی نے سکھ فوج کو شکست دے دی۔ اس کے بعد برٹش نے فیصلہ کیا کہ افغان سرحد تک کے تمام علاقے پر خود حکومت کریں گے۔ اسی ہزار مربع میل کے اس علاقے کی چالس لاکھ آبادی تھی۔ اس صوبے کے شمال مغربی سرحدی علاقے کو سرکاری طور پر فرنٹئیر ڈسٹرکٹس کہا گیا۔ یہاں پر پختون اکثریت تھی۔ اس سے 52 سال بعد 1901 میں کلکتہ سرکار نے اس علاقے کو الگ کر کے شمال مغربی سرحدی صوبہ بنا دیا گیا۔ اس تمام علاقے کے معاملات کے لئے تین لوگوں پر مشتمل بورڈ آف ایڈمنسٹریشن تھا۔ 1848 تک برٹش سندھ میں بھی غالب آ چکے تھے اور اس کے مغرب کے علاقے پر بھی جس کو انہوں نے بلوچستان کا نام دیا۔ اس میں خان آف قلات کا علاقہ بھی تھا جو براہوی تھے۔ خان نے 1877 میں بولان پاس اور کوئٹہ کا علاقہ برٹش کو لیز پر دے دیا۔ برٹش نے کوئٹہ کو ملٹری کنٹونمنٹ کے طور پر ڈویلپ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پختون علاقوں میں سکھوں کی دلچسپی میدانی علاقوں تک ہی تھی۔ آفریدی، وزیری، اور مہمند قبائل کے علاقوں میں سکھ نہیں گئے تھے۔ برٹش پختون قبائل کو روایتی طریقے سے کنٹرول نہیں کر پائے۔ ان کا طریقہ اس علاقے سے “گاجر اور چھڑی” سے معاملہ کرنے کا تھا۔ “گاجر” میں خودمختاری بھی شامل تھی اور قبائل عمائدین کو دی جانے والی باقاعدہ رقم بھی۔ یہ پیسے علاقے کے بڑوں میں تقسیم کئے جاتے تھے جو ملِک کہلاتے تھے۔ اس کے لئے اس وقت کا برٹش بجٹ سالانہ تین کروڑ روپے کا تھا۔ “چھڑی” میں ملٹری فورس تھی، جو کسی برٹش مفاد کو نقصان پہنچانے کے لئے کارروائی کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔ اس کو butcher and bolt (مارو اور واپس آ جاوٗ) تکنیک کا نام دیا گیا تھا۔ پچاس برس میں برٹش نے اس علاقے میں ساٹھ ملٹری آپریشن کئے جن میں سب سے بڑا آپریشن 1897 میں تھا جس میں تینتالیس ہزار برٹش انڈین فوجیوں نے بغاوت کچلی تھی۔ اس دوران باقی تمام انڈیا میں تئیس آپریشن کئے گئے تھے۔ 1850 سے 1922 تک برٹش کو اوسطاً ہر سال ایک آپریشن کی ضرورت پڑی۔ اس علاقے پر کنٹرول کی خواہش مغربی سمت سے برٹش انڈیا کا دفاع تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تاریخ اور پالیسی کا پس منظر تھا جو ہمیں ریاستِ جموں و کشمیر کی اس دور کی سیاست کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ اور اب ہم ان ہندو بھائیوں کی طرف جا سکتے ہیں جن کے سکھ ریاست میں غیرمعمولی عروج نے اس خطے کو شکل دی۔
(جاری ہے)