فلک شگاف برف پوش پہاڑوں اور نیلگوں جھیلوں کی زمین۔ برِصغیر پاک و ہند کے امن میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر کا تنازعہ ہے۔ اس تنازعے کی اپنی ع...
فلک شگاف برف پوش پہاڑوں اور نیلگوں جھیلوں کی زمین۔ برِصغیر پاک و ہند کے امن میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر کا تنازعہ ہے۔ اس تنازعے کی اپنی عمر بہتر سال ہے۔ یہ انڈیا اور پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی سے زیادہ عمررسیدہ ہے۔ (اگر اتنی عمر کسی شہری کی ہوتی تو آج ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہوتا)۔ برِصغیر کی تاریخ میں بہتر سال شاید اتنا بڑا عرصہ نہیں۔ لیکن اس پر کسی پیشرفت کا امکان نظر نہیں آتا۔ اور ان دونوں ممالک کے شہری اس علاقے کے اور اس تنازعے کے پس منظر سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مختصر سیریز میں اس کا صرف پسِ منظر اور تعارف ہے۔ اس میں صرف تاریخ اور واقعات کا ذکر ہو گا۔ کس نے کب کیا غلط اور صحیح کیا؟ یہ اس میں سیریز کا حصہ نہیں۔ (اس بارے بہت سی دوسری جگہوں سے بہت اچھا مواد مل جائے گا)۔
اس لئے اس بات کی پیشگی وارننگ: یہ خاصی بورنگ سیریز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصطلاحات اہم ہوتی ہیں۔ کشمیر کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے اس لفظ کو دیکھ لیتے ہیں کہ کشمیر کیا ہے۔ یہ لفظ اکثر بار 1846 میں قائم کی جانے والی سابق نوابی ریاست جموں کشمیر کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے کنفیوژن رہی ہے کیونکہ اس لفظ کے کئی معنی ہیں۔ جب پاکستانی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں تو کئی بار اس کا مطلب جموں اور کشمیر ہوتا ہے۔ کئی بار وادی کشمیر اور کئی بار آزاد کشمیر۔ جب پاکستان میں کشمیر تنازعے کا ذکر کیا جاتا ہے تو عام تصور وادی کشمیر کا لیا جاتا ہے۔ انڈیا کے پاس اس سابق ریاست کے دو مزید حصے ہیں۔ جموں اور لداخ۔ اور ان علاقوں میں آبادی کا میک اپ ایک سا نہیں۔ کشمیر میں مسلمان غالب اکثریت میں ہیں۔ جموں میں اقلیت میں۔ کشمیر میں سنی مسلمان ہیں۔ لداخ میں تقریباً تمام مسلمان شیعہ ہیں۔
جب انڈیا میں یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو تقریباً ہمیشہ ان کی مراد وادی کشمیر ہوتی ہے۔ جموں اور لداخ کو الگ تصور کیا جاتا ہے۔
جب عالمی تعلقاتِ عامہ میں “کشمیر تنازعے” کا ذکر ہوتا ہے تو عام طور پر جموں اور کشمیر کے لئے۔ کیونکہ کسی وقت یہ ایک سیاسی یونٹ تھا۔
جب سیاح اس کو استعمال کرتے ہیں تو انڈیا کے زیرِانتظام میں کشمیر کی وادی کے لئے۔ کیونکہ تاریخی طور پر یہ سیاحوں کے لئے مقبول منزل رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی طور پر وادی کشمیر کی قدیم جیوپولیٹیکل حیثیت رہی ہے۔ جبکہ ریاستِ جموں و کشمیر 1846 میں پہلی بار ایک سیاسی یونٹ بنا تھا۔ اسے مختصراً کشمیر اس وجہ سے کہا جاتا رہا ہے کہ یہ اس کا زیادہ پرکشش اور پاپولر حصہ تھا۔ آج جب مسئلہ کشمیر کی بات ہو تو اس کا تعلق ڈوگرہ راج کے زیرِ تحت 1846 میں بننے والی ریاست کا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادی پاکستان سے قبل اس ریاست کے تین صوبے تھے۔ جموں، کشمیر اور سرحدی اضلاع۔ (یہ بھی اتنا سادہ نہیں لیکن تفصیل بعد میں)۔ کشمیر کے صوبے کے تین اضلاع تھے۔ اننت ناگ، بارہمولہ اور مظفر آباد۔ مظفرآباد وادی کشمیر نہیں، بلکہ اس کے مغرب میں تھا۔
جب 1948 میں جنگ بندی ہوئی تو 1846 میں قائم کردہ ڈوگرہ ریاست کے پانچ علاقے بن چکے تھے۔
۱۔ آزاد کشمیر
۲۔ جموں
۳۔ کشمیر
۴۔ لداخ
۵۔ گلگت بلتستان (جس کو 2009 تک شمالی علاقہ جات کہا جاتا رہا)
ان میں سے تین علاقے انڈیا کے کنٹرول میں تھے جبکہ دو علاقے پاکستان کے پاس۔ اقوامِ متحدہ میں اس کا انٹرنیشنل سٹیٹس “انڈیا پاکستان کوئسچن” کہلاتا ہے۔ عام گفتگو میں اس کو تنازعہ کشمیر کہا جاتا ہے۔
(جاری ہے)