تاریخ کبھی جامد نہیں رہی۔ حالات جب بدلتے ہیں تو اچانک ہی بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ کیا اور کس وجہ سے ہو گا۔ رنج...
تاریخ کبھی جامد نہیں رہی۔ حالات جب بدلتے ہیں تو اچانک ہی بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ کیا اور کس وجہ سے ہو گا۔
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد طاقتور سکھ سلطنت بہت ہی جلد منہدم ہو گئی۔ (جس میں جموں کے گلاب سنگھ نے بہت کردار ادا کیا)۔ دو سپرپاورز (برطانیہ اور روس) کی “گریٹ گیم” آئی اور چلی گئی۔ اس گیم میں برٹش فتح بالشویک انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی ہو چکی تھی۔ لیکن فتوحات سے کیا ہوتا ہے۔ نئے حریف آ گئے۔ تیس سال بعد برٹش بھی علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ایک طرح سے دونوں سپرپاورز گریٹ گیم ہار گئیں۔
جموں و کشمیر کی ریاست کی تخلیق 1846 میں ہوئی۔ یہ طاقتور سلطنت 101 سال بعد برطانیہ کے برِصغیر چھوڑ دینے کے بعد فوراً ہی بکھر گئی۔
برطانیہ نے جنگِ عظیم دوئم جیت لی۔ لیکن اس نے برطانیہ کو کھوکھلا کر دیا۔ اس نے کالونیل دور ختم کر دیا۔ بھارت اور پاکستان کی پیدائش ہو گئی۔
دنیا کے جغرافیے کی تبدیلیاں ہمیں مسلسل نظر آتی ہیں۔ جب سوویت یونین منہدم ہوا تو ایسا ہونے کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی یوگوسلاویہ کے بھی ٹکڑے ہو گئے۔
کشمیر کے پڑوس میں چین تیزی سے ابھر رہا ہے جس پر انڈیا پریشان ہے اور پاکستانی مطمئن۔ لیکن یہ بھی جلد بدل سکتا ہے۔ چین سنکیانگ میں ایغور کے بارے میں پاکستان سے شکوک و شبہات رکھتا ہے۔ کسی وقت میں ایران کا کشمیر پر بڑا اثر رہا تھا، اب ایران خود بڑے مسائل سے دوچار ہے اور اس جگہ پر اثر نہیں رکھتا۔ پڑوس میں افغانستان کے ساتھ کشمیر کی کچھ مشترک تاریخ ہے۔ لیکن خدشہ ہے کہ افغانستان طویل عرصے تک غیرمستحکم رہے۔
لیکن کچھ بھی ہمیشہ نہیں رہتا۔ مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں۔ پرانی تاریخ کو اور موجودہ حالات کو سمجھ کر اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارت اور پاکستان، اپنی پیدائش کے بعد شکل بدلتے رہے ہیں۔ بھارت نے اکتوبر 1947 میں کشمیر کو اپنے ملک میں شامل کیا۔ 1948 میں حیدرآباد اور جوناگڑھ کو۔ 1954 میں پانڈی چری اور فرنچ انڈیا کو۔ 1961 میں گوا اور پرتگالی انڈیا کو، 1973 میں سقم کو۔ انڈیا کو کچھ سرحدی حصے کا نقصان چین سے اٹھانا پڑا۔ رن آف کچھ کا دس فیصد علاقہ پاکستان کو 1968 کو دینا پڑا۔
پاکستان نے 1947 میں آزاد کشمیر کا علاقہ حاصل کیا اور پھر گلگت بلتستان کا۔ 1948 میں قلات پاکستان کا حصہ بنا اور باقی نوابی ریاستیں جو پاکستان کے اندر واقع تھیں۔ 1958 میں گوادر کا سودا کیا اور اسے عمان سے خرید لیا۔ 1968 میں انڈیا سے رن آف کچھ کا دس فیصد لیا۔ جبکہ بڑا نقصان 1971 میں ہوا جب مشرقی حصہ الگ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومیں اور ملک ٹوٹ جاتے ہیں، غائب ہو جاتے ہیں، نئی قوموں میں بدل جاتے ہیں۔ یہ ایک چلتا چکر ہے۔ پاکستان اور انڈیا اپنے اپنے مسائل سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں مذہبی انتہاپسند اگر سردرد کا باعث رہے ہیں تو انڈیا میں ماوٗاِسٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب برٹش علاقہ چھوڑ کر گئے تو کم ہی کشمیریوں کا اندازہ ہو گا کہ ایک سو ایک سال پرانی ریاست ختم ہو جائے گی۔ شاید ہی کسی کا خیال ہو کہ پاکستان اور انڈیا کی اس پر طویل لڑائی ہو۔ بہتر سال تک منقسم حصے منقسم ہی رہیں۔ کشمیری جب اسی کی دہائی میں انڈیا کے خلاف اٹھے تھے تو کم ہی کسی کا خیال ہو گا کہ یہ بیس سال کی ناکام جدوجہد رہے گی۔ کم ہی کسی کا اندازہ ہو گا کہ چین اور پاکستان گہرے دوست بن جائیں گے۔
اسی طرح کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل میں چین کی دوستی کا رخ پاکستان سے بدل کر تیزی سے بڑھتی معاشی طاقت انڈیا کی طرف ہو جائے۔ اور ان کا اتحاد خطے کی قسمت کا فیصلہ کرے۔
یہ عین ممکن ہے کہ بہتر سال بعد بھی کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں ہو۔ “نئی نسل بہتر فیصلے کرے گئی” امید تو ہو سکتی ہے، گارنٹی نہیں۔
جبکہ دوسری طرف ٹھیک حالات اور ٹھیک لیڈرشپ کی وجہ سے یہ مسئلہ بہت جلد حل بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ یہ آخری مذاکرات میں حل ہونے کے قریب تھا۔
انڈیا نے یکطرفہ طور پر جموں اور لداخ کا علاقہ 2018 میں الگ کر کے اور سپیسل سٹیٹس منسوخ کر کے علاقے کی صورتحال میں بڑی تبدیلی کر دی۔ کیا انڈیا وادی کشمیر کے “سردرد” سے جان چھڑوا سکے گا؟
دوسری طرف مستقبل میں پاکستان گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو باقاعدہ صوبے کا درجہ دے سکتا ہے۔ اس پر انڈیا اعتراض کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتا۔ گلگت بلتستان کی آبادی پروپاکستان رہی ہے لیکن پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کی وجہ سے شیعہ اکثریت کے اس علاقے میں کچھ بے چینی بھی ہے۔ کیا اس وجہ سے علاقے کے موڈ میں تبدیلی آ سکتی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ایسی تبدیلی بہت جلد آتی ہے۔
پاکستان کو بڑا خطرہ مذہبی انتہاپسندی کا رہا۔ اور ایک گروہ پاکستان سے براہِ راست ٹکرایا اور پاکستان نے اپنی سرزمین کا کچھ حصہ بھی گنوا دیا۔ جب ریاستِ پاکستان سنجیدہ ہوئی تو جلد ہی قلع قمع کر دیا گیا۔ دوسرا خطرہ قومی انتہاپسندی کا رہا۔ جہاں پر یہ ایک طرف پاکستانی ریاست کی طاقت دکھاتا ہے، وہاں پر اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ایسے آپریشن مقامی آبادی میں غیرمقبول ہو جاتے ہیں۔ اور سنجیدہ مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور فیکٹر معاشی ترقی کا ہے۔ اس وقت بڑھوتری کی رفتار میں خاصا فرق ہے۔ اگر مستقبل میں دونوں ممالک میں عدم توازن بڑھ جاتا ہے تو پھر ان لوگوں کو ساتھ رکھنا مسئلہ بن سکتا ہے جو دونوں کے بیچ میں ہیں۔ لیکن ایسا طویل مدت میں ہی ممکن ہے۔
لیکن تیزرفتار ترقی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ انڈیا تنازعہ کشمیر حل کرنے کے موڈ میں نہیں۔ اس کے پاس وہ پہلے سے ہی ہے جو اس کو درکار تھا اور جو پاکستان کی خواہش تھی۔ کسی عالمی طاقت کو اس مسئلے میں دلچسپی نہیں۔ نہ ہی دونوں ممالک کو کسی تیسری پارٹی کو ملوث کرنے میں دلچسپی ہے۔ یہ تیسری پارٹی دراصل پہلی پارٹی ہے، جو کشمیری عوام ہیں۔ اس لئے لگتا یہ ہی ہے کہ یہ طویل عرصے تک جاری رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمیر کی تاریخ طویل ہے، کشمیری شناخت مضبوط۔ جب تک پاکستان اور انڈیا باقی ہیں اور تنازعہ کشمیر غیرحل شدہ رہتا ہے، اس پر کھینچا تانی جاری رہے گی۔ دونوں ممالک اپنے حریف کو وادی کشمیر سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ عبداللہ نے ان بھارت اور پاکستان کو “وہ عاشق جو عشق کی خاطر کچھ بھی قربان کرنے کو تیار ہوں” کہا تھا۔ دونوں نے آزادی سے آج تک اس کی خاطر بھاری نقصان اٹھایا ہے۔ لیکن جتنا زیادہ نقصان یہاں رہنے والوں کو ہوا ہے، وہ کہیں زیادہ ہے۔ کوئی وقت آئے گا جب یہ تبدیل ہو جائے گا۔ کب اور کیسے؟ یہ معلوم نہیں۔
سوا چار صدیاں پہلے اکبر نے کشمیر کو برِصغیر کا حصہ بنایا تھا۔ تین نیوکلئیر پاورز کے ہمسائے اس علاقے کی واپس آزادی کا عملی طور پر امکان نہیں۔ جہانگیر نے اسے جنتِ ارضی کہا تھا۔ جب بسترِ مرگ پر جہانگیر سے ان کی آخری خواہش کا پوچھا گیا تھا تو ان کا کہنا تھا “صرف کشمیر”۔ اگرچہ پاکستان اور انڈیا بسترِ مرگ پر نہیں لیکن یہ طویل تنازعہ ایسی ہی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ کشمیر اور کشمیری اس نتازعے کے درمیان میں ہیں۔ واحد چیز جو یقین سے کہی جا سکتی ہے، وہ یہ کہ ابھی ایسا طویل عرصے تک رہے گا۔
ختم شد
ساتھ والی تصویر کشمیر میں ہونے والے ایک سویرے کی کھینچی ہے۔