Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پانچ سوال، تین راہیں ۔ کوانٹم گریویٹی (۲)

فزکس کے بڑے سوالات میں کوانٹم گریویٹی حل طلب مسئلے کی بہت دلچسپ مثال ہے۔ اس میں پائے جانے والے اختلافات کی تاریخ طویل ہے۔ ان میں ایک بنیادی ...


فزکس کے بڑے سوالات میں کوانٹم گریویٹی حل طلب مسئلے کی بہت دلچسپ مثال ہے۔ اس میں پائے جانے والے اختلافات کی تاریخ طویل ہے۔ ان میں ایک بنیادی اختلاف اس پر ہے  کہ سپیس اور ٹائم کی نیچر کیا ہے؟ اور یہ اختلاف بھی نیا نہیں بلکہ نیوٹن کے وقت سے ہے۔ ایک رائے یہ رہی ہے کہ سپیس ایک بیک گراونڈ ہے۔ ہر شے اس میں ہے اور اس کی جیومیٹری میں ذرات اور فیلڈز کے طور پر اس میں اشیا کی خاصیتیں ڈیفائن ہوتی ہیں اور آپسی تعاملات اس سٹیج پر ہوتے ہیں۔  اس کو ہم “بیک گراونڈ پر منحصر” فزکس کہیں گے۔ دوسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ ایسا کوئی بیک گراونڈ نہیں۔ صرف اشیا کے آپسی انٹرایکشن ہیں۔ اس کو “بیک گراونڈ سے آزاد” فزکس کہیں گے۔ یہ دونوں سترہویں صدی کے تصورات ہیں۔ سترہویں صدی میں پہلا نیوٹن کا، جبکہ دوسرا لائبنز کا نکتہ نظر تھا۔ پہلے میں سپیس اور ٹائم کی خاصیتیں جامد ہیں اور تبدیل نہیں ہوتیں۔ دوسرے میں سپیس ٹائم ڈائنامک ہے۔ نیوٹن کی تمام فزکس پہلی ازمشن کے تحت تھی اور بہت ہی کامیاب رہی۔ لیکن آئن سٹائن نے اپنی تھیوری جو تبدیلی کی، وہ اسی نکتہ نظر میں تھی اور جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی نے سپیس ٹائم کو کائناتی کھیل کا متحرک کھلاڑی بنا دیا۔ اور یہ یاد رکھنے کا بہت بنیادی نکتہ ہے۔ کونسا نکتہ نظر درست ہے؟ اس پر کوئی اتفاق نہیں۔ کوانٹم مکینکس اور جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کا بڑا اختلاف یہاں پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوانٹم مکینکس اور فزکس کا سٹینڈرڈ ماڈل “بیک گراونڈ پر منحصر” ہے۔ جبکہ جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی “بیک گراونڈ سے آزاد” ہے۔ ان دونوں راستوں پر ہی ہمیں زبردست کامیابیاں ملی ہیں۔ اس وقت تک، جب تک کہ آپ کا واسطہ کوانٹم گریویٹی سے نہیں پڑ جاتا۔ کوانٹم مکینکس میں سپیس اور ٹائم سسٹم کے پسِ منظر میں ایک بیرونی جیومیٹری ہے جو کہ ایبسولیوٹ ہے۔ مثلاً، اس پارٹیکل کے کوآرڈینیٹ فلاں ہیں۔ کوانٹم فیلڈ تھیوری میں تمام فیلڈ سپیس ٹائم کی خاص جیومیٹری (منکوسکی) میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن فزکس جامد بیک گراونڈ کے مفروضے کے تحت ہی کی جاتی ہے۔ یہ بنیادی تصور فزکس کیلئے بہت کامیاب طریقہ ہے۔ اس نے ہمیں نیچر کو چھوٹے سکیل پر سمجھنے میں بہت مدد کی ہے۔
دوسری طرف جنرل ریلیٹیویٹی اس بارے میں مکمل طور پر اس کا متضاد تصور ہے۔  جولین باربر (Julian Barbour) ہمیں بہت واضح طور پر دکھاتے ہیں کہ جنرل ریلیٹویٹی کی کامیابی کا مطلب ہی یہی ہے کہ سپیس اور ٹائم ڈائنامک تعلقات کا ارتقا ہونے والا نیٹورک ہے۔ یہ بنیادی تصور بھی فزکس کیلئے بہت کامیاب طریقہ ہے۔  اس نے ہمیں نیچر کو بڑے سکیل پر سمجھنے میں بہت مدد کی ہے۔
اب ہمارے پاس ایک مزیدار مسئلہ ہے۔ کوانٹم گریویٹی اور یونی فیکیشن کے مسائل میں ہمیں حقیقت کی نیچر کے ان متضاد نکتہ نظر کو آپس میں ملانا ہے۔ کونسا راستہ لیا جائے؟ کس کو بنیادی تسلیم کر کے دوسرے کا اس کے ساتھ ملاپ کروانے کی کوشش کی جائے۔ اس راستے پر اختلاف 1930 کی دہائی سے ہے۔ یکجائی کی کوششیں دونوں راستوں سے کی گئی ہیں۔ الگ راستوں کی ایک جزوی وجہ یہ ہے کہ فزکس کرنے کے الگ سٹائل اور الگ کمیونیٹیز ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فزکس میں تحقیق کرنے کے دو مختلف سٹائل مقابلے پر رہے ہیں۔
۱۔ فاونڈیشنل۔ اس سٹائل کے سائنسدان زیادہ فلسفانہ رہے ہیں۔ یہ طریقہ وسطی یورپ میں زیادہ مقبول رہا۔ موجودہ تھیوریوں پر تنقیدی نظر۔ فلسفے اور تاریخ سے زیادہ واقفیت۔ الگ اور آزادانہ خیالات کے ساتھ اور ان کے درمیان مکالمے سے آگے چلنا۔ یہ طریقہ بڑے انقلابی خیالات کے لئے سازگار رہا ہے۔ اس نے ہمیں کوانٹم مکینکس اور ریلیٹیویٹی جیسی بڑی کامیابیاں دی ہیں۔ اس طرز کے بڑے سائنسدانوں میں آئن سٹائن، نیلز بوہر، ارون شروڈنگر، راجر پینروز، کونز جیسے نام ہیں۔ اس میں کوشش “بیک گراونڈ سے آزاد” فزکس کی رہی ہے۔
۲۔ پریگمیٹک۔ جب پہلا سٹائل فلسفانہ مسائل میں الجھ گیا تھا تو دوسرا سٹائل زیادہ سامنے آیا اور فزکس کو لے کر آگے بھاگا۔ یہ طریقہ امریکہ میں زیادہ مقبول رہا ہے۔ بڑے سائنسدانوں میں فرمی، فائنمین، وائن برگ، گلاشو اس سٹائل سے رہے ہیں۔ اس میں طریقہ کار یہ تھا کہ “جب ہمارے پاس فریم ورک موجود ہے تو چیزوں کے معنی کی فکر چھوڑو اور آگے بڑھو”۔ ریاضی پر توجہ دو۔ ٹیم ورک اس میں اہم تھا۔ اس میں موجودہ تھیوروں کی بنیاد آگے بڑھا گیا۔ اس طریقے سے ہمیں بتدریج بہتری ملی۔ اس سٹائل نے ہمیں فزکس کے سٹینڈرڈ ماڈل جیسی بڑی کامیابی دی۔ اس سٹائل کی ترجیح “بیک گراونڈ پر منحصر” فزکس کی رہی ہے۔ اس وقت کی فزکس میں یہ سٹائل غالب ہے۔
اور کوانٹم گریویٹی تک پہنچنے کی الگ راہوں میں ان دو انداز کی فزکس کا اثر نظر آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوانٹم گریویٹی کی پہلی کوشش ہائزنبرگ اور پالی نے 1929 میں کی اور ان کا کہنا تھا کہ “اس کیلئے ہمیں گریویٹی کو کوانٹائز کرنا ہو گا اور ایسی کوئی وجہ نہیں کہ جلد ہی گریویٹی بغیر مشکل کے نہ نکل آئے”۔ اس کو ایک ہم انتہائی بڑی under-estimation کہہ سکتے ہیں کیونکہ 91 سال بعد بھی یہ مسئلہ طے ہونے کے قریب بھی نہیں۔
دوسرے راستے سے پہلی کوشش 1935 میں برونسٹین نے کی جن کا تعلق لینن گراڈ سے تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ “ہمیں سپیس اور ٹائم کا عام تصور ترک کرنا ہو گا اور اس میں تبدیلی اور کچھ مزید گہرے تصورات کی ضرورت ہے”۔ برونسٹین اپنا کام آگے نہیں بڑھا سکے۔ دو سال بعد سوویت پولیس انہیں لے گئی اور پھر وہ زندہ نہیں رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بیک گراونڈ پر منحصر” راستے میں مسلسل ناکامیاں رہیں اور کوششیں کہیں نہیں پہنچیں۔ اس دوران ہونے والی کسی بھی طرح کی پہلی کامیابی 1974 میں سٹیفن ہاکنگ کی ہاکنگ ریڈی ایشن تھی۔ جبکہ اہم سنگِ میل 1984 میں سٹرنگ تھیوری تھی۔
دوسرے راستے میں ناکامیوں کی طویل فہرست رہی (یعنی تحقیق کو ختم کر دیا گیا)۔ پہلا اہم سنگِ میل 1986 میں لوپ کوانٹم گریویٹی تھی۔ دوسرا 1994 میں سپن فوم ماڈل تھا اور 1998 میں کازل ڈائنامیکل ٹرائنگولیشن تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹرنگ تھیوری اور لوپ کوانٹم گریویٹی کے پیچھے ایک خیال مشترک ہے۔ فنڈامینٹل شے ذرے نہیں بلکہ ایک ڈائمینشن کی لکیریں ہیں جو سپیس میں پھیلتی ہیں۔ سٹرنگ تھیوری میں کوانٹم فیلڈ لائن ایک فکسڈ جیومیٹری میں حرکت کرتی ہیں جبکہ لوپ کوانٹم گریویٹی میں کوانٹم فیلڈ لائن اس جیومیٹری کو تشکیل دیتی ہیں۔ (دونوں میں بنیادی اور بڑا فرق بیک گراونڈ کا ہی ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے ہم “بیک گراونڈ پر منحصر” راستے کا جائزہ لیتے ہیں جس میں بڑی امید سٹرنگ تھیوری سے رہی ہے۔  
(جاری ہے)