Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پانچ سوال، تین راہیں ۔ سوال (۱)

فزکس کا سٹینڈرڈ ماڈل 1973 میں ڈویلپ ہوا۔ یہ فزکس میں حاصل ہونے والا آخری بڑی کامیابی تھی۔ آج ہمارے پاس فزکس کے سب سے بڑے حل طلب سوالات تقر...


فزکس کا سٹینڈرڈ ماڈل 1973 میں ڈویلپ ہوا۔ یہ فزکس میں حاصل ہونے والا آخری بڑی کامیابی تھی۔ آج ہمارے پاس فزکس کے سب سے بڑے حل طلب سوالات تقریباً وہی ہیں جو ایک جنریشن پہلے کے تھے۔ اور یہ پانچ بڑے سوال ہیں۔
۱۔ کوانٹم مکینکس اور جنرل ریلیٹیویٹی کو یکجا کیسے کیا جائے؟ کوانٹم مکینکس ہمارے پاس 1926 سے ہے۔ جنرل ریلیٹیویٹی 1916 سے ہے۔ جس بھی فزیکل فینامینا کی ہم وضاحت کر سکتے ہیں، ان میں ان سے مدد لی جاتی ہے۔ یہ دونوں ہمیں نیچر کا بہت مختلف تصور دکھاتے ہیں۔ اپنی اپنی حد تک دونوں ہی بہت پریسژن سے درست ہیں، لیکن نیچر تو ایک ہی ہے۔ کچھ ایسے فینامینا ہیں، جن کی وضاحت اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک انہیں اکٹھا نہ کر لیا جائے۔ سوال یہ کہ ہے کیا ایسا ممکن ہو سکے گا؟
۲۔ کوانٹم مکینکس کا مطلب کیا ہے؟ اس بارے میں تنازعہ ہے کہ کیا کوانٹم مکینکس کو فنڈامینٹل فریم ورک تصور کیا جا سکتا ہے؟ یا پھر یہ ایک عبوری خیال ہے۔ اس کے کچھ بانیوں (آئن سٹائن، ڈی بروئے، شروڈنگر) کا خیال یہ تھا کہ کوانٹم مکینکس ادھوری ہے کیونکہ اس سے تجربات کے بارے میں صرف شماریاتی وضاحت ملتی ہے۔ کسی سسٹم کی پیمائش کرتے وقت اور اس کی پیمائش نہ کرتے وقت سسٹم کے ارتقا کے بالکل مختلف ہونے کی وجہ سے خیال یہ ہے کہ یہ کوانٹم مکینکس ایک سب سسٹم کی محض جزوی وضاحت ہے۔ یا تو ہمیں کوانٹم مکینکس کی سینس بنانا ہے یا پھر ایک مزید گہری تر تھیوری ڈھونڈنی ہے۔
۳۔ پارٹیکل فزکس کا سٹینڈرڈ ماڈل ہمیں سٹرانگ، ویک فورس اور الیکٹرومیگنیٹک انٹر ایکشن کی وضاحت دیتا ہے۔  لیکن ان کو مکمل طور پر یکجا نہیں کرتا (اور گریویٹی سے تو بالکل بھی نہیں کرتا)۔  کیا یہ چاروں فورسز کسی ایک فنڈامینٹل انٹرایکشن کے مختلف پرتو ہیں؟ سٹینڈرڈ ماڈل میں مختلف قسم کے پارٹیکل ہیں۔ ایک ہاپئوتھیسس ہے کہ یہ ایک قسم کے فنڈامینٹل پارٹیکل کے مختلف حالتیں ہیں۔ (مختلف طرح کی excitation یا کچھ اور)۔ اور پھر ہمارے پاس دو اقسام کی چیزیں کیوں ہیں؟ پارٹیکل اور فورسز (فرمیون اور بوزون)؟ کیا یہ صرف ایک قسم ہو سکتی ہے؟ یہ یکجائی کا مسئلہ ہے۔
۴۔ سٹینڈرڈ ماڈل کی تجربات کی بہت پریسیژن تک تصدیق ہو چکی ہے۔ اس ماڈل کی تشکیل کے بعد کئے جانے والے تجربات سے ملنے والے نتائج کی بنا پر ہم ان میں کچھ پیرامیٹرز کا اضافہ کر چکے ہیں (مثلاً نیوٹرینو کا ماس)۔ لیکن اس میں آزاد پیرامیٹرز کی فہرست ہے جن کو ہم نے صرف تجربات سے دیکھا ہے۔ ان میں پارٹیکلز کے ماس، فورسز کی طاقت اور مکسنگ ڈیکے اور دیگر پیرامیٹر شامل ہیں۔ ان کی کل تعداد 29 ہے۔ ہر پیرامیٹر وضاحت طلب ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمیں ایک مزید فنڈامنٹل یکجائی یا پھر ایک مزید فنڈامنٹل سمجھ کی ضرورت ہے جو ان میں سے کچھ کی وضاحت کر پائے۔ اور ان کی تعداد کم ہو سکے۔ یہ پیرامیٹر ایسے ہی کیوں ہیں؟
۵۔ تاریک مادہ کیا ہے؟ تاریک توانائی کیا ہے؟ 1930 کی دہائی میں ہمیں تاریک مادے کا علم ہوا تھا۔ کہکشاوٗں کے کلسٹر کو اکٹھا رکھنے کے لئے عام مادہ کافی نہیں تھا۔ 1960 اور 70 کی دہائی میں ہمارے پاس کئی تحقیقات اور کئی کہکشاوٗں کی سٹڈی سے اس بات کی اچھی تصدیق ہو چکی تھی کہ ستاروں کی حرکت کی وضاحت کیلئے یا تو ہمیں گریویٹی کی تھیوری (جنرل ریلیٹیویٹی) کو بڑے سکیل پر اس حرکت کی وضاحت کیلئے بدلنا ہو گا یا پھر اضافی مادے کو ان کی وضاحت کے لئے بیچ میں لانا ہو گا (یا پھر دونوں ہی کام کرنا ہوں گے)۔ 1978 میں تاریک توانائی دریافت ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میٹر ڈینسیٹی کا پریشر کائنات کے پھیلاوٗ منفی ہے جو میٹر ڈینسیٹی کی عام شکل نہیں۔ اس کا اگلی دہائیوں میں بہتر ایویڈنس ملا تو اس کے بارے میں مزید تصدیق ہو گئی۔ معاملہ مزید الجھ گیا۔ کائنات کے ماس میں چار فیصد پروٹون، نیوٹرون، الیکٹرون اور فوٹون کا ہے۔ چھبیس فیصد ڈارک میٹر کی نامعلوم نوع کا اور ستر فیصد ڈارک انرجی کی نامعلوم نوع کا۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ “ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کاسمولوجی کا علم ہے جبکہ ہمیں کائنات کے چھیانوے فیصد stuff کا معلوم نہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے، باوجود پوری توجہ اور محنت کے، ان سوالات پر کچھ بھی خاص پیشرفت نہیں کی۔ کچھ سوال تین دہائیاں پرانے ہیں جبکہ کچھ کو ایک صدی ہونے لگی ہے۔ اس وجہ سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فزکس بحران میں ہے۔
اس سے ایک اور مسئلہ بھی جنم لیتا ہے کہ سائنس کیا ہے اور کام کیسے کرتی ہے؟ کیونکہ ہم ایسی صورتحال میں ہیں جہاں پر ہزاروں بہترین تربیت یافتہ ماہرینِ فزکس کی محنت رنگ نہیں لا رہی۔ کیا ہمیں ایک قدم پیچھے لے کر سائنس کو پھر دیکھنا پڑے گا؟
گلیلیو کی ڈالی گئی روایت سے کی جانے والی سائنس سے پچھلے چار سو سال میں ہم نے نیچر کی تمام ڈومینز کی سمجھ میں ترقی کی ہے، جن تک ہمیں تجرباتی رسائی ملی ہے۔ یہ انسان کی کامیابی کی شاندار کہانی ہے۔
اگر آپ محقق ہیں تو جانتے ہوں گے کہ تحقیق ایک بڑا گڑبڑ والا اور نان لینئیر کام ہے جس کا کوئی خاص طریقہ نہیں اور اس میں کسی بھی چیز کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔  (اگر آپ محقق نہیں، تو شاید آپ نے اس بارے میں سکول یا کالج میں تحقیق کرنے کا کوئی طریقہ پڑھا ہو لیکن تحقیق اُس والے طریقے سے کبھی نہیں کی جاتی)۔ بیسویں صدی میں سائنس کے فلسفے پر بہت شدید مباحث رہے ہیں کہ سائنس کیا ہے؟ کامیاب کیوں ہے؟ کام کیسے کرتی ہے؟ لیکن اس سے ایک چیز واضح ہے کہ کم از کم ایسا نہیں کہ سائنسدانوں کو کوئی خاص طریقہ مل چکا ہے جس کو اپنا لیا جائے تو کامیابی ملتی ہے۔
سائنس کی انٹرپرائز کا اس کا سب سے اہم حصہ یہ رہا ہے کہ سائنسدان کمیونیٹیز بناتے رہے ہیں جس میں رضاکارانہ طور پر کچھ ایتھکس پر اتفاق رہا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کیسا رویہ رکھا جائے اور کیسے سچ تک پہنچا جائے۔ اس کے ایتھیکل اصولوں میں
۱۔ اگر کسی معاملے کے بارے میں نیک نیت لوگ منطقی دلائل سے فیصلہ کر سکیں جن کی بنیاد پبلک دستیاب شواہد سے ہو تو معاملہ طے سمجھا جائے گا۔ (خواہ کسی کا بھی اس نتیجے سے جمالیاتی، فلسفانہ یا کسی بھی اور وجہ سے اختلاف ہو)۔
۲۔ اگر پبلک دستیاب شواہد سے نیک نیت لوگ اتفاق نہ کر سکیں تو ہمیں لوگوں کو نہ صرف بالکل مختلف نتائج نکالنے کی اجازت دینی ہو گی بلکہ ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔   
مثال کے طور پر، اگر میرا خیال ہے کہ تاریک مادے کے لئے صرف جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کو تبدیل کرنا ہو گا تو یہ راہ لے سکتا ہوں۔ لیکن جب ہمیں 2016 میں بلٹ کلسٹر ملے اور یہ اچھے شواہد مل گئے کہ فورس کا تعلق اس سے نہیں کہ مادہ کہاں زیادہ ہے تو مجھے ہتھیار ڈالنا ہوں گے کہ میں اپنے خیال میں ٹھیک نہیں تھا۔ میری والی وضاحت کافی نہیں۔ اب ایویڈنس اتنا اچھا ہے کہ اب اس سمت کا راستہ بند ہے۔ لیکن دوسری طرف، اگر یہ اتنا اچھا نہیں کہ ماہرین اس کی بنیاد پر اتفاق بنا سکیں (اور یہاں پر ہم تربیت یافتہ ماہرین کی کمیونیٹی کی بات کر رہے ہیں) تو پھر ہم غیرمتفق ہونے پر اتفاق کر لیں گے اور اس پر اتفاق کر لیں گے کہ ہمیں جواب معلوم نہیں۔ ضدی اور مشکل مسائل کے لئے بڑے اور اچھوتے خیالات کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ غیرحل شدہ مسائل کو حل کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔ وقت سے پہلے اتفاق ہو جانا ترقی میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب کسی غیرماہر کی طرف سے بڑے تُکے لگانا نہیں بلکہ اس شعبے سے اچھی طرح واقف ماہر کا اس مسئلے کو نئے زاویے سے دیکھنا ہے۔  مثال کے طور پر، چونکہ تاریک مادے پر کھلے سوالات باقی ہیں اور اچھا جواب نہیں۔ جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی کی تبدیلی سرے سے ترک کر دینے کے بجائے اس کے ساتھ اضافی وجوہات ملا کر دیکھنا چاہے تو یہ ممکنہ راستہ بھی لیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں، فزکس بحران میں نہیں ہے۔ لیکن یہ دلچسپ وقت ضرور ہے۔ آگے بڑھنے کے لئے ابھی بہت سے ممکنہ راستے ہیں۔ اس لئے، ایک نظر اس پر کچھ زیادہ گہرائی میں ڈالتے ہیں۔
(جاری ہے)



نوٹ: اس پر پڑھنے کیلئے لی سمولن کی مندرجہ ذیل کتابیں۔
Trouble with Physics
Three Roads to Quantum Gravity