“میں صرف دیکھ رہا ہوں”۔ دکان پر سامان کو دیکھتے ہوئے دکاندار کو دی گئی وضاحت کے جواب میں “تو پھر دیکھنا بند کرو اور چلتے بنو”۔ کا جملہ ہیری ...
“میں صرف دیکھ رہا ہوں”۔ دکان پر سامان کو دیکھتے ہوئے دکاندار کو دی گئی وضاحت کے جواب میں “تو پھر دیکھنا بند کرو اور چلتے بنو”۔ کا جملہ ہیری گورڈن سیلفریج کے کان میں جھنجھناتا رہا۔ یہ 1888 تھا اور لندن میں اس تجربے نے سیلفریج کو ایک نیا آئیڈیا تھا۔ اگر ایسا سٹور بنایا جائے جہاں “میں صرف دیکھا رہا ہوں” نہ صرف قابلِ قبول ہو بلکہ گاہک کے لئے یہی اس کی کشش ہو۔
اس سے دو دہائیوں بعد لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ پر ٹرین سٹیشن کے قریب چھ ایکڑ پر محیط سیلفریج اینڈ کمپنی کا سٹور شہر کے لئے بڑی خبر تھی۔ شیشے کی کھڑکیوں والی سٹور تو کئی دہائیوں سے موجود تھے لیکن سیلفریج کا سٹور ڈیزائن ہی اس طریقے سے کیا گیا تھا کہ کوئی بھی آ کر “صرف دیکھ” سکے۔ اس سے پہلے سٹورز میں سامان دکھانے کے لئے دکاندار یا اسسٹنٹ کی مدد درکار تھی جو شیلف سے اتار کر یا الماری سے نکال کر سامان گاہک کو دیں۔ سیلفریج کے سٹور پر سامان کھلے شیلفوں میں پڑا تھا۔ گاہک اس کو اٹھا کر، الٹ پلٹ کر، ہر زاویے سے جائزہ لے سکتا تھا اور اس کے لئے کسی سیلزمین کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔ اخبار کے پورے صفحے پر اشتہار تھا جس کا مرکزی خیال تھا کہ “شاپنگ اب تفریح ہے”۔
اس سے پہلے اعلیٰ شاپنگ امراء کی تفریح تھی۔ شمعوں اور آئینوں سے سجے ڈسپلے میں نفیس مال۔ جس میں خریدار تیار ہو کر نہ صرف اسے دیکھنے، بلکہ خود کو دکھانے بھی جاتے تھے۔ سیلفریج کا ڈیپارٹمنٹ سٹور اشرافیہ کا یہ تجربہ جمہور تک پہنچاتا تھا۔ اس میں داخلے کے لئے کوئی اجازت یا کسی کارڈ کی ضرورت نہیں تھی۔
اس میں ایک اور اہم تصور انہوں نے ایک اور جگہ سے لیا تھا۔ بلاامتیاز “مفت داخلے” کا خیال سٹیورٹ کا تھا جو انہوں نے نیویارک میں اے ٹی سٹیورٹ کمپنی میں انیسویں صدی میں متعارف کروایا تھا۔ سٹیورٹ نے ایک اور نئی جدت بھی متعارف کروائی تھی جس سے آج ہر کوئی واقف ہو گا۔ یہ “کلئیرنس سیل” تھی۔ یہ نئے سامان کے لئے جگہ بنانے کے لئے پرانے سامان کو کم قیمت پر بیچ دینے کا طریقہ تھا۔ سٹیورٹ شاپنگ کے تجربے میں ایک اور جدت بھی لے کر آئے تھے۔ یہ اشیاء کی بلا پوچھے واپسی کا تصور تھا۔ اور دوسرا تصور ادھار پر اشیاء کی فروخت نہ کرنے کا تھا (جو اس وقت کے روایتی کاروبار کا حصہ تھا)، جس کی وجہ سے اشیاء کی واپسی کی پالیسی بنائی جا سکتی تھی۔
سٹیورٹ ایک اور بہت انوکھی جدت لے کر آئے۔ ان کا گمان تھا کہ ہر کوئی قیمت پر تکرار اور سودے بازی پسند نہیں کرتا۔ مناسب قیمت بتا دی جائے اور فیصلہ گاہک کا ہو کہ شے خرید لی جائے یا چھوڑ دی جائے۔ یہ “ون پرائز” پالیسی تھی۔ سٹیورٹ کا خیال تھا کہ اس طریقے سے وہ زیادہ اشیاء بیچ سکیں گے اور قیمت کی شفافیت سے زیادہ منافع کمایا جا سکے گا۔
یہ آئیڈیا اتنا انوکھا تھا کہ سٹیورٹ کے سیلزمین انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ سیلزمین کی مہارت ہی یہ سمجھی جاتی تھی کہ گاہک کی امارت کا اندازہ لگا کر اس سے زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کی جا سکے۔ جاتے وقت سیلزمین نے پیشگوئی کی تھی کہ ان کے اس سٹور کا ایک مہینے میں دیوالیہ نکل جائے گا۔ جب اس سے پچاس سال بعد سٹیورٹ فوت ہوئے تو وہ نیویارک کے امیر ترین افراد میں سے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلفریج کے قائم کردہ سٹور کی کامیابی کے بعد بڑے ڈیپارٹمنٹ سٹور تفریح کے مقامات بن گئے۔ بڈاپسٹ میں کورون نے سٹور میں لفٹ لگوائی۔ یہ اتنی مشہور ہوئی کہ کورون لفٹ کے استعمال پر پیسے وصول کیا کرتا اور اچھی آمدنی کما لیتا۔ لندن میں ہیرڈز نے 1898 میں چلنے والی سیڑھی نصب کی جس نے گاہکوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ ہر گھنٹے میں چار ہزار افراد اس کو استعمال کرتے تھے۔ ان سٹورز میں پنگھوڑے سے لے کر قبر کے کتبے تک ہر شے خریدی جا سکتی تھی۔ (ہیرڈز میں کفن، تابوت کے علاوہ جنازے کے انتظام کی خدمات بھی)۔ تصاویر کی گیلریاں، تمباکو نوشی کے کمرے، چائے کے کمرے، کنسرٹ۔۔
سیلفریج نے ایک اور موقع دیکھا جو خواتین خریداروں کا تھا۔ اگرچہ خواتین اور شاپنگ کے گھسے پٹے مذاق عام ہیں لیکن ٹائم یوز سٹڈیز یہ بتاتی ہیں کہ خواتین شاپنگ میں زیادہ وقت صرف کرتی ہیں اور شاپنگ کے تجربے کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ سیلفریج کے انقلابی اقدامات میں سٹور میں خواتین کے لئے ٹوائلٹ کا اضافہ بھی تھا تا کہ وہ زیادہ وقت سٹور میں لگا سکیں۔
سیلفریج خود کو سوشل ریفارمر بھی کہتے تھے۔ جب انہوں نے اپنے شکاگو سٹور میں نرسری کا اضافہ کیا جہاں پر خواتین چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر آسانی سے خریداری کر سکیں، تو ان کا کہنا تھا کہ “خواتین گھر سے باہر نکلنا چاہتی ہیں۔ اپنی مرضی اور آزادی سے کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ وہ سٹور میں آتی ہیں اور یہاں ان کے خوابوں کا تھوڑا سا حصہ سچ ہو جاتا ہے”۔
بڑے شاپنگ سٹورز کے عروج کا وقت کچھ پیچھے رہ چکا ہے۔ آن لائن شاپنگ اس کھیل کو بدل رہی ہے۔ لیکن ابھی بھی ڈیپارٹمنٹ سٹور کا تجربہ جہاں قطاروں میں لگی شیلفوں پر پہلے سے طے شدہ قیمت پر اشیاء خرید لانا ہمارے ساتھ رہے گا۔