Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ویڈیو گیم

ایک نوجوان طالبعلم پیٹر سیمپسن نے سرد رات اور صاف آسمان پر رات کو 1962 میں شہابیے کو آسمان سے گرتے دیکھا۔  بجائے تخلیق کی اس خوبصورتی سے ل...


ایک نوجوان طالبعلم پیٹر سیمپسن نے سرد رات اور صاف آسمان پر رات کو 1962 میں شہابیے کو آسمان سے گرتے دیکھا۔  بجائے تخلیق کی اس خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے، غیرشعوری طور پر ان کا ہاتھ اپنے گیم کنٹرولر کی طرف گیا کہ وہ اپنا سپیس شِپ بچا سکیں۔ ان کا ذہن hallucination کا شکار تھا۔ وہ اپنا بہت سے وقت ویڈیو گیم Spacewar کھیلنے میں صرف کر رہے تھے۔

ان کا فریبِ ذہن آنے والے ڈیجیٹل بخار کی آمد کا نقیب تھا۔ رات رات بھر لوگوں کے سکرین کے آگے بیٹھ کر نیند اڑا دینے والی گیمز کا۔ پیک مین، ٹیٹرس، پوکے مون، کینڈی کرش کے نشہ آور احساس کا۔ وہی نشہ جو کسی کو فیس بک پر اپنی اپڈیٹ چیک کرنے کا بھی ہوتا ہے۔ 1962 میں ذہن کے یہ فریب اور نشے کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھے، ماسوائے پیٹر سیمپسن یا ان کے چند ہیکر دوستوں کے۔ یہ دوست سپیس وار کے کھلاڑی تھے جسے پہلی نشہ آور ویڈیو گیم کہا جا سکتا ہے۔ وہ ایجاد جس نے سوشل دیوانگی اور گیمز کی بڑی صنعت کے راستے کھولے اور معاشرے کو اس سے زیادہ تبدیل کیا جس کا ادراک کیا جاتا ہے۔

سپیس وار سے پہلے کمپیوٹر خوفزدہ کر دینے والی اشیا تھے۔ خاص طور پر بنائے کمروں میں بہت بڑے گرے رنگ کے آلات جن تک صرف چند بہت تربیت یافتہ ماہرین کو رسائی تھی۔ وسیع اور مہنگے، ممنوع اور کارپوریٹ۔ کمپیوٹر حکومت، بینک یا بڑی کارپوریشنز کے کام کی شے تھی یا پھر ملٹری کے۔

لیکن ایم آئی ٹی میں 1960 کی دہائی میں نئے کمپیوٹر لگنا شروع ہوئے جو زیادہ دوستانہ تھے۔ ان کے لئے الگ کمرے مختص نہیں تھے۔ یہ زیادہ “عوامی” تھے۔ لیبارٹری فرنیچر کی طرح۔ طلباء ان سے تجربہ کر سکتے تھے۔ اس نے ایک نئی اصطلاح کو جنم دیا۔ ہیکر۔

آج ہیکر کی اصطلاح آج کسی تخریبی یا مجرمانہ ذہنیت اور بہت ہی فارغ وقت رکھنے والے نکمے لیکن کمپیوٹر سے واقف شخص کے لئے استعمال ہوتی ہے جو اپنا وقت اور زندگی سیکورٹی کو توڑنے میں برباد کرتا ہے۔ لیکن ابتدا میں اس کا مطلب یہ نہیں تھا۔ کمپیوٹر کے ساتھ تجربات کر کے نت نئے اثرات پیدا کرنا ہیکر کلچر تھا۔ ایم آئی ٹی نے اس کے لئے نیا کمپیوٹر PDP1 بنوایا تھا۔ یہ بہت چھوٹا تھا۔ بس کسی بڑے ریفریجریٹر کے سائز کا۔ اس کا استعمال آسان تھا اور یہ طاقتور تھا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنا دنیا سے رابطہ کرنے کے لئے یہ پرنٹر نہیں بلکہ کیتھوڈ رے ٹیوب استعمال کرتا تھا۔ یہ ویڈیو ڈسپلے تھا۔


ایک نوجوان محقق سلگ رسل نے جب اس کمپیوٹر کے بارے میں سنا تو انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ اس کا بہترین استعمال کرنے کا سوچنا شروع کیا۔ ان کا جنون سائنس فکشن تھا۔ اور ان کی تخلیق سٹار وارز کی گیم تھی۔ یہ دو کھلاڑیوں کی ویڈیو گیم تھی۔ اس میں دو خلائی جہازوں کے کپتان ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرتے تھے جس میں دوسرے کی طرف روشنی کے تارپیڈو پھینکے جاتے تھے۔

یہ شپ چند پکسل سے بنے تھے جن کو گھمایا جا سکتا تھا، آگے پیچھے کیا جا سکتا تھا اور تارپیڈو فائر کئے جا سکتے تھے۔ دوسرے شوقین بھی اس میں کود پڑے۔ اس گیم کو زیادہ بہتر اور تیز رفتار کیا۔ اس میں ستارے کا اضافہ کیا جس کی کشش اصل لگتی تھی۔ خاص کنٹرولر بنائے گئے جو لکڑی سے بنے تھے اور برقی سوچ لگے تھے۔ اس کے اوپر پلاسٹک کا کور۔  یہ سب ہیکروں کے کام تھے۔

ایک نے فیصلہ کیا کہ گیم کا بیک گراونڈ زبردست ہونا چاہیے اور ستاروں بھرے آسمان کی سب روٹین بنائی۔ یہ ستارے پانچ قسم کی روشنی میں تھے اور ویسا بنایا گیا تھا جیسا خطِ استوا سے دیکھنے پر آسمان کا نظارہ ہوتا ہے۔ اور یہ وہ وجہ تھی کہ اس کو کھیلنے کے سحر میں گم ہو جانے والے پیٹر سیمپسن نے اس روز شہابیہ گرتے دیکھ کر اپنے گیم کنٹرولر کو تلاش کیا تھا۔

جس طرح کمپیوٹر سستے ہوتے گئے۔ نئی جدتیں آنے لگیں۔ کمپیوٹر گیم کھیلنے والی آرکیڈ دکانیں شروع ہوئیں جس میں شائقین ٹوکن خرید کر انہیں گھنٹوں کھیلتے۔ پھر یہ گھروں میں پہنچ گئیں۔ نئی صنعت شروع ہو گئی۔ گھروں میں پہنچنے والی مشہور گیم آسٹرائیڈ تھی جو سپیس وار کے طرز پر تھی۔ اس میں اصل لگنے والی زیرو گریوٹی فزکس میں سپیس شپ گھومتا پھرتا تھا۔ کمپیوٹر گیمز فلموں کے مقابلے میں کمانے لگیں۔

نئے پیشے آنے لگے۔ کمانے کے نئے طریقے بنے۔ نئے کلچر بنے۔ 2001 میں نوراتھ ایک آن لائن دنیا تھی جس میں بیک وقت ساٹھ ہزار افراد اس کا حصہ ہوتے تھے۔اس میں کئی کام سرانجام دینے ہوتے تھے تا کہ ان کا کیریکٹر نئی صلاحیت لے سکے۔ کچھ کھلاڑی بے صبرے تھے۔ ان صلاحیتوں کی خرید و فروخت آن لائن ویب سائٹس پر ہونے لگی۔ نوراتھ میں کھیل کر اصل پیسے کمائے جا سکتے تھے۔

نیروبی سے مینلا تک کئی لوگوں نے اس کو پیشہ بنا لیا۔ کاسٹرونووا کے اندازے کے مطابق اس گیم سے فی گھنٹہ پانچ سو روپے کمائے جا سکتے تھے جو کچھ ممالک کے ٹین ایجرز کے لئے اچھی رقم تھی۔ ایسے کاروبار ابھی بھی جاری ہیں۔ جاپان کی نیلامی کی سائٹس پر ہر ماہ دسیوں ہزار ڈالر کا کاروبار ان کا ہوتا ہے۔

ورچوئل دنیا پیسے کمانے کی نہیں، تفریح کی ہے۔ تعاون کے ساتھ معمے حل کرنا،  گیم کے رولز کے مطابق پیچیدہ صلاحیتوں میں مہارت، اپنے تخیل کی دنیا میں پارٹی۔ نوراتھ چھوٹی دنیا تھی۔ جنوبی کوریا میں لائنیج میں پندرہ لاکھ کھلاڑی بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ پھر فیس بک میں فارم ول آیا۔ اس نے سوشل میڈیا اور گیم کے درمیان دنیا کی لکیر دھندلی کر دی۔ اور پھر موبائل پھر اینگری برڈز یا کینڈی کرش ساگا۔ پھر پوکے مون گو۔ 

گیم سکالر جین مک گوینگال کے اندازے کے مطابق 2011 میں دنیا کی آبادی میں سے نصف ارب لوگ اپنے وقت کا بڑا حصہ (اوسطاً دو گھنٹے فی دن) کمپیوٹر گیم کھیلتے گزارتے ہیں۔ یہ تعداد اب شاید ایک ارب کے قریب ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ اس سے دگنی نہ ہو سکے۔


اور یہ ایک اور دلچسپ سوال کی طرف لے جاتا ہے۔ لوگ اپنے اصل وقت اور اپنے اصل پیسے کو اس ورچوئل تفریح میں کیوں لگا رہے ہیں؟

کاسٹرونوا نے سائنسدانوں اور دانشوروں کی ایک کانفرنس میں اس کی ایک وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا، “آپ لوگ اصل دنیا کی گیم جیت رہے ہیں، ہر کوئی نہیں جیت سکتا۔ اور اگر انتخاب چائے کے ہوٹل میں ویٹر کا کام کرنے کا ہو یا خلائی جہاز کا کپتان بن جانے کا۔ تو پھر اس تصوراتی دنیا میں کمانڈ لینا کیا پاگل پن ہے؟”

کاسٹرونوا کا سوال کچھ عجیب لگے لیکن 2016 میں اکانومکس کے چار ریسرچرز کی تحقیق امریکی اکانومی کے بارے میں ایک عجیب فیکٹ عیاں کرتی ہے۔ اکانومی مضبوط ہو رہی تھی، بے روزگاری کی شرح کم تھی لیکن ایسے نوجوانوں کی تعداد کم نہیں تھی جو اپنے انتخاب سے جزوقتی ملازمت کر رہے تھے۔  لیکن اس سے زیادہ عجیب بات یہ تھی کہ بے روزگاری کا تعلق ناخوش زندگی سے ہوتا ہے۔ لیکن ان لوگوں کی زندگی میں خوشی کا لیول کم نہیں تھا۔ اس کی وجہ محققین کے مطابق یہ تھی کہ”ہاں، یہ اپنے والدین کے گھر میں رہ رہے تھے اور ویڈیو گیم کھیل رہے تھے۔ یہ ان نوجوانوں کا اپنا انتخاب تھا کہ وہ چائے پیش کرنے والے ویٹر کے بجائے خلائی جہاز کا کپتان بننا چاہتے ہیں”۔

ویڈیو گیم ایک بہت کامیاب صنعت ہے۔ ہر دور کا اپنا نشہ رہا ہے۔ نشے کی مارکیٹ ہمیشہ بڑی رہی ہے۔ سکرین پر حرکت کرتے کردار ہوں یا فیس بک کے نوٹی فیکشن، ان کا نشہ بالکل وہی ہے جو منشیات کا۔ اکیسویں صدی کی سکرین، افیم کی لت کی طرح کچھ دیر کے لئے زندگی کی مشکل سے توجہ ہٹا سکی ہے۔ لیکن افیم کی طرح ہی، اس کی مستقل پڑ جانے والی عادت اصل زندگی کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کرتی۔ ان کو مزید مشکل بنا سکتی ہے۔

متبادل حقیقت یا فریبِ ذہن کی اہمیت اور مضمرات کے سوال پرانے ہیں۔ اس ایجاد کی بہتر ہوتی ٹیکنالوجی اسے مزید آسان، پرلطف اور نشہ آور بنا رہی ہے۔ ہمارے ذہن کے قدیم سرکٹس کو ہیک کر رہی ہے۔ یہ خود ہمارے بارے میں کئی بڑے سوال لا کھڑے کر سکتی ہے۔ کمپیوٹر، موبائل، سوشل میڈیا، ورچوئل رئیلیٹی میں کھیلی جانے والی گیمز ہی وہ ایجاد تھی جس نے گھر گھر کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی پہنچائی۔

سوشل میڈیا کی طرح اپنے شایقین کا روزانہ گھنٹوں کا وقت چوس لینے والی، حقیقت سے فرار کا ایک قانونی راستہ دینے والی، ہر روز لاکھوں نئے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والی یہ ایک بڑا بزنس اور ایک اہم ایجاد ہے۔