Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ائیرکنڈیشنر

کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم موسم تبدیل کر سکتے۔ بٹن دبا کر درجہ حرارت بدل سکتے۔ سیلاب اور قحط روک سکتے۔ بارشیں برسا دیتے۔ ہماری فصلیں ناکام نہ ہ...

کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم موسم تبدیل کر سکتے۔ بٹن دبا کر درجہ حرارت بدل سکتے۔ سیلاب اور قحط روک سکتے۔ بارشیں برسا دیتے۔ ہماری فصلیں ناکام نہ ہوتیں۔ اور ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں پریشان نہ ہوتے۔ کلائمیٹ میں تبدیلی نے کئی نئے خیالات کو جنم دیا ہے۔ کیوں نہ گندھک کا تیزاب بالائی فضا میں سپرے کر کے اسے ٹھنڈا کر دیا جائے۔ چونا سمندروں میں پھینک کر ان سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے، بادلوں پر سلور آئیوڈائیڈ گرا کر بارش کروانے کے۔۔۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان کتنے بھی ہوشیار ہوں، موسم کو کسی بھی طریقے سے قابو کرنے کے قریب بھی نہیں (ماسوائے چند سازشی نظریات والوں کے گھڑے افسانوں کے)۔ لیکن یہ باہر کے موسم کے بارے میں ہے۔ ہم اندر کا موسم کنٹرول کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے والی ایجاد ائیر کنڈیشنر ہیں۔ اور اس ایجاد کے بہت دوررس اور غیرمتوقع اثرات رہے ہیں۔


جب ہمارے آباء نے آگ پر قابو پایا تھا، انسان سرد موسم میں گرمی حاصل کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ لیکن اس کا برعکس کرنا چیلنج تھا۔ رومن بادشاہ الگابالس نے پہلی کوشش کی تھی۔ اپنے غلاموں کو پہاڑوں پر بھیجا تھا کہ وہ برف کاٹ کر ان کے باغ میں ڈھیر کریں اور ہوا کے جھونکے سرد ہو کر محل کے اندر پہنچیں۔


یہ حل زیادہ بڑے پیمانے پر کام نہیں کرتا تھا۔ لیکن انیسویں صدی میں اس کو فریڈرک ٹیوڈر نے ممکن کر دیا۔ ٹیوڈر نے 1806 میں نیوانگلینڈ کی منجمد جھیلوں سے برف کاٹ کر اسے گرمیوں میں گرم علاقوں میں بھیجنے کا کاروبار شروع کیا۔ پگھلنے سے بچانے کے لئے اس کو برادے سے ڈھک دیا جاتا تھا۔ نیوانگلینڈ کی برف کا نشہ دنیا بھر میں پھیل گیا۔ جس سال سردی کم پڑتی تھی تو “برف کے قحط” کے خوف کی باتیں شروع ہو جاتیں۔  


جس طریقے کی ائیرکنڈیشننگ کو ہم جانتے ہیں، یہ 1902 میں ایجاد ہوئی اور اس کا مقصد انسانوں کو گرمی سے نجات دلانا نہیں تھا۔ نیویارک میں ساکٹ ولہلم پرنٹنگ کمپنی کو ایک مسئلہ تھا۔ نمی کا بدلتا تناسب رنگوں پر اثرانداز ہوتا تھا۔ ان کے رنگدار پرنٹ کے پراسس میں ایک صفحے کو چار رنگوں کی سیاہی سے یکے بعد دیگرے لکھا جاتا تھا۔ اگر اس دوران کاغذ ایک ملی میٹر بھی پھیل یا سکڑ جائے تو نتیجہ اچھا نہیں آتا تھا۔


انہوں نے ایک کمپنی بوفالو فورج کو ایسا سسٹم بنانے کو کہا جو نمی کی مقدار یکساں رکھ سکے۔ اس مسئلے پر ایک نوجوان انجینر ولس کیرئیر کو لگایا گیا۔ انہوں نے ایک حل ڈھونڈ لیا۔ ہوا کو کمپریس امونیا کی تاروں کے اوپر سے گزارا جائے تو نمی پچپن فیصد پر رکھی جا سکتی ہے۔ جدید ائیر کنڈیشنر کولنٹ کے لئے مختلف کیمیکل استعمال کرتے ہیں لیکن سرد کرنے کا بنیادی اصول یہی ہے۔


اس ایجاد سے پرنٹر خوش ہو گئے اور جہاں پر بھی نمی کا مسئلہ تھا، بوفالو فورج اس کو بیچنے لگی۔ ٹیکسٹائل مل سے لے کر آٹے کی مل سے جیلیٹ کمپنی تک، جس کے ریزر زیادہ نمی میں زنگ کھا جاتے تھے۔ ان صنعتی خریداروں کو یہ پرواہ نہیں تھی کہ درجہ حرارت سے ورکرز پر کیا اثر ہے۔ لیکن اس کا حادثاتی سائیڈ ایفیکٹ درجہ حرارت میں کمی تھا۔ کیرئیر نے یہاں پر موقع دیکھا۔ 1906 میں انہوں نے اس کا ممکنہ استعمال درجہ حرارت قابو کے لئے کا اندازہ کر لیا۔ انہوں نے تھیٹر اور پبلک عمارتوں سے بات چیت کرنا شروع کر دی۔


تاریخی طور پر تھیٹر گرمیوں میں بند رہا کرتے تھے۔ گرم دن میں ان کا کوئی ناظر نہیں تھا۔ بغیر کھڑکیوں کے بند ہال میں بہت سے لوگ اور بجلی کی ایجاد سے پہلے روشنی کے لئے جلتی مشعلیں ۔۔۔ نہیں، تھیٹر گرمیوں میں ناممکن تھا۔ نیوانگلینڈ کی برف نے کچھ جگہوں پر یہ ممکن کیا تھا۔ نیویارک کے میڈیسن سکوائر گارڈن میں روزانہ چار ٹن برف استعمال ہوتی تھی جس کے اوپر آٹھ فٹ کا پنکھا چلایا جاتا تھا اور حاضرین تک ہوا پہنچائی جاتی تھی۔ لیکن مسئلہ تھا۔ ہوا نم تھی، جھیلوں میں آلودگی میں اضافہ ہو رہا تھا جس وجہ سے آڈیٹوریم میں بساند رہ جاتی تھی۔


کیرئیر اور ان کا سسٹم زیادہ عملی تھا۔ 1920 کی دہائی میں نئے کھلتے فلم تھیٹر ائیرکنڈیشننگ کی ایجاد کے پہلے ابتدائی صارفین تھے اور ائیرکنڈیشنڈ ہال پبلک کے لئے پرکشش تھے اور اشتہاروں میں اسے نمایاں کیا جاتا تھا۔ گرمیوں میں ہالی وڈ نے بڑے بجٹ والی فلمیں بنانا شروع کر دی جو ایسے ہال میں دیکھی جا سکتی تھیں۔ اسی طرح شاپنگ مال بنانا بھی ممکن ہوئے۔


ائیرکنڈیشننگ محض ایک آرام کی شے نہیں۔ اگر کمپیوٹر زیادہ گرم یا نم ہو جائیں تو خراب ہو جاتے ہیں۔ ائیرکنڈیشننگ کمپیوٹر کے سرور فارم میں لازم ہے جو انٹرنیٹ کو پاور کرتے ہیں۔ اور اگر فیکٹریاں ہوا کی کوالٹی کنٹرول نہ کر سکیں تو سلیکون چپ نہیں بن سکتا۔ ائیرکنڈیشننگ ایک انقلابی ٹیکنالوجی تھی جس نے بہت کچھ ممکن کیا۔ جدید الیکٹرانکس، موبائل فون، کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اس کے بغیر نہیں آ سکتے تھے۔


ائیرکنڈیشننگ نے تعمیرات کا آرکیٹکچر تبدیل کر دیا۔ گرم علاقوں میں اس ایجاد سے پہلے کی عمارتیں اونچی چھت، روشن دان، موٹی دیواروں، بالکونی، ہوادار برآمدوں والی ہوا کرتی تھیں۔ چھپر گرمیوں میں رہنے کی اہم جگہ تھے۔ ائیرکنڈیشننگ کے بغیر شیشوں والی بلند بالا عمارتیں بننا ممکن نہیں تھا۔ ورنہ آپ بالائی منزلوں میں ابل جائیں۔ ائیرکنڈیشنر نے تعمیرات کا نیا طریقہ ممکن کیا۔


اور اس نے ان علاقوں میں بڑی آبادیاں ممکن کیں جہاں درجہ حرارت کی وجہ سے رہنا آسان نہیں تھا۔ دبئی، سنگاپور، ہیوسٹن، اٹلانٹا جیسے شہر بسے۔ امریکہ میں “سورج کی بیلٹ” میں فلوریڈا سے کیلے فورنیا تک بیسویں صدی میں تیزی سے آبادی ہوئی۔ شمال سے جنوب آبادکاری ہوئی، جس نے سیاست تبدیل کر دی۔


۱۹۸۰ میں امریکہ کی عالمی آبادی پانچ فیصد تھی لیکن یہ دنیا کی نصف ائیرکنڈیشننگ استعمال کرتا تھا۔ نئی ابھرتی اکانومیوں نے جلد یہ تبدیل کر دیا۔ چین اس وقت اس میں سرِ فہرست ہے۔ چینی شہروں میں ائیرکنڈیشنڈ گھروں کا تناسب دس فیصد سے دو تہائی پر صرف دس برس کے عرصے میں بڑھا ہے۔ انڈیا، پاکستان، انڈونیشیا، برازیل میں اس کی مارکیٹ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ منیلا سے کنشاسا تک یہ ایجاد طرزِ زندگی بدل رہی ہے۔


سخت گرمی کی لہروں میں گرمی سے مرنے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ دفاتر میں ملازمین زیادہ پروڈکٹو ہوئے ہیں۔ کئی سٹڈیز بتاتی ہیں کہ مناسب درجہ حرارت دفتری ملازمین کے کام پر بہت فرق ڈالتا ہے۔ ییل یونیورسٹی میں تحقیق نے بتایا کہ گرم ممالک میں گرم برسوں میں پیداوار گر جاتی ہے۔ بہترین انسانی پروڈکشن اٹھارہ سے پچیس ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہوتی ہے۔ اس لئے یہ ایجاد گرم علاقوں والوں کے لئے بہت اچھی خبر ہے۔ معیشت اور پیداواری صلاحیت میں اس سے بہتری آ رہی ہے۔


زبردست ایجاد؟ نہیں، اس کے ساتھ مشکل سچ بھی موجود ہے۔ آپ اندر کو صرف اس وقت سرد کر سکتے ہیں جب باہر کو گرم کر دیں۔ ائیرکنڈیشننگ حرارت کو باہر دھکیلنے کا پمپ ہے۔ فینکس میں ایک سٹڈی نے معلوم کیا کہ ائیرکنڈیشننگ کی وجہ سے شہر کے درجہ حرارت میں رات کو پڑنے والا فرق دو ڈگری تک ہے اور اس کے لئے ائیرکنڈیشننگ کو پھر مزید کام کرنا پڑتا ہے اور باہر کا درجہ حرارت مزید زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے بجلی گیس یا پٹرولیم یا کوئلہ جلا کر بنائی جاتی ہے۔ اس کی کولنٹ گیس طاقتور گرین ہاوس گیس ہے جو کئی بار لیک ہو جاتی ہے۔ یہ ایجاد گلوبل وارمنگ میں حصہ ڈال رہی ہے۔


اندازہ ہے کہ 2050 تک توانائی کی کھپت آٹھ گنا بڑھ سکتی ہے اور یہ کلائمیٹ کی تبدیلی کی لئے پریشان کن خبر ہے۔


کیا ہم ایسی ایجاد کر سکیں گے جو باہر کا درجہ حرارت بھی کنٹرول کر پائے؟ ہو سکتا ہے۔ لیکن اندر کا درجہ حرارت بدل دینے والی یہ ایجاد اپنے طاقتور اور غیرمتوقع اثرات سے اس دنیا کو بدل چکی ہے۔ باہر کا موسم بدلنا نہ ہی سادہ ہو گا اور نہ ہی آسان۔ لیکن اگر ایسا ممکن ہو سکتا تو اس کے سائیڈ ایفیکٹ؟ ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔