برطانیہ میں کپڑے کی مشینیں آ جانے کے بعد مزدوروں کی تحریک چلی۔ اس میں کپڑا بننے والے اور ٹیکسٹائل ورکر اور ہنرمند تھے جنہیں مشینوں کھڈیوں ا...
برطانیہ میں کپڑے کی مشینیں آ جانے کے بعد مزدوروں کی تحریک چلی۔ اس میں کپڑا بننے والے اور ٹیکسٹائل ورکر اور ہنرمند تھے جنہیں مشینوں کھڈیوں اور بننے والے فریموں پر اعتراض تھا۔ ان لوگوں نے اپنا ہنر سیکھنے میں برسوں لگائے تھے اور انہیں خوف تھا کہ غیرہنرمند آپریٹر ان مشینوں کی وجہ سے ان کا روزگار چھین لیں گے۔ اس دوران کی نپولین کی جنگوں کی وجہ سے معاشی حالات نے اس خوف کو دوچند کر دیا۔ کچھ مایوس ہنرمند فیکٹریوں میں نقب لگا کر مشینوں کو توڑنے لگے۔ یہ اپنے آپ کو لڈائٹ کہتے تھے۔ یہ نام نیڈ لُڈ کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔ یہ مشین توڑنے والا ایک نوجوان لڑکا تھا جس کے اصل ہونے کے کوئی شواہد نہیں لیکن اس تحریک کے لوگوں کے لئے یہ کہانی اکٹھے ہو جانے کا سبب بن گئی اور یوں ایک فرضی کردار اس تحریک کا لیڈر بن گیا۔ احتجاج کرنے والے کہتے تھے کہ وہ یہ کام “جنرل لڈ” کے حکم پر کر رہے ہیں اور اس نام سے منشور اور دھمکیوں والے خط بھی جاری کئے جاتے۔
ناٹنگھم میں مشینیں توڑنے والا پہلا واقعہ 1811 میں ہوا اور یہ انگلینڈ میں پھیل گیا۔ تحریک کے کارکنان فیکٹریوں پر حملہ آور ہوتے۔ آگ لگاتے اور کئی بار ان کا فیکٹری کے گارڈز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہو جاتا۔ ان کو امید تھی کہ ان حملوں کا خطرہ صنعت کاروں کو مہنگی مشینری لگانے سے باز رکھیں گے۔ برٹش حکومت نے فوری ایکشن لیا۔ مشین توڑنے کے لئے سزائے موت مقرر کی گئی۔ یہ تحریک اپریل 1812 میں اپنے عروج پر تھی، ہڈرزفیلڈ میں کئی لڈائیٹ کو فوج نے گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ اس کے بعد ہزاروں فوجی تحریک کے کارکنان کو پکڑنے میں لگ گئے۔ درجنوں کو پھانسیاں لگائی گئیں یا پھر آسٹریلیا کے لئے جلاوطن کیا گیا۔ 1813 تک یہ تحریک کچلی جا چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج محاورے میں لڈائیٹ کا لفظ ضدی احمقوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو نئی ٹیکنالوجی کے فوائد نہیں سمجھتے اور ٹیکنالوجی سے ڈرتے ہیں۔ ماہرینِ معیشت نے “لدائیٹ فیلیسی” کی اصطلاح بنائی ہے۔ یہ اس خوف کو کہا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی میں ترقی اپنے ساتھ بے روزگاری لے کر آئے گی۔
والٹر آئزکسن لکھتے ہیں کہ “دو صدیاں پہلے، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ٹیکنالوجی روزگار کو ختم کر دے گی۔ صنعتی انقلاب نے انگلیڈ کو امیر کیا اور روزگار کے نئے مواقع اور نئی ملازمتیں پیدا کیں۔ نئی ٹیکنالوجی کے بعد کپڑے کی صنعت میں بھی زیادہ لوگ برسرِ روزگار آئے”۔
اور یہ بات درست ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ لیکن لڈائیٹ تحریک کے شرکاء کو احمق کہہ کر نظرانداز کرنا درست نہیں۔ لڈائیٹ مشینوں کو اس لئے نہیں توڑ رہے تھے کہ ان کا غلط خوف تھا کہ مشینیں انگلیڈ کو غریب کر دیں گی۔ وہ ایسا اس لئے کر رہے تھے کہ ان کا درست خوف تھا کہ مشینیں خود ان کو غریب کر دیں گی۔ یہ ماہر ہنرمند تھے، جنہیں معلوم تھا کہ مشینوں کے بعد ان کی مہارت بے وقعت ہو جائے گی۔ اور انہیں اس ٹیکنالوجی کے مضمرات کا درست اندازہ تھا۔ اور ان کا یہ خوف بالکل جائز تھا۔
لڈائٹ کا یہ مخمصہ عام ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی تقریباً ہمیشہ نئے فاتح اور نئے شکست کھا جانے والے پیدا کرتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک بہتر چوہے دان کی ایجاد بھی روایتی چوہے دان بنانے والوں (اور چوہوں) کے لئے بری خبر ہوتی ہے۔ اور مقابلے کے کھیل کا یہ میدان کس طریقے سے تبدیل ہو جاتا ہے؟ یہ بھی سیدھی سادھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ لڈائیٹ کو پریشانی یہ نہیں تھی کہ ان کی جگہ مشینیں لے لیں گی۔ ان کی پریشانی یہ تھی کہ ان کی جگہ سستے اور غیرہنرمند لے لیں گے جو مشین سے فائدہ اٹھا لیں گے۔
تو جب بھی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے تو سوال یہ ہوتا ہے کہ اس سے جیتا کون اور ہارا کون؟ یہ جواب اکثر حیران کن ہوتے ہیں۔
یہ سیریز چند اہم ایجادات کے بارے میں ہے جنہوں نے ہماری دنیا تبدیل کی ہے۔ ہر ایجاد کے ساتھ جیتنے والے بھی تھے اور ہارنے والے بھی۔