ہر سال اکتوبر میں نوبل انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس انعام کو عالمی اعزازات میں بہت معتبر اور نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ نوبل انعام دنیا میں ک...
الفریڈ نوبل نے 1866 میں ڈائنامائیٹ ایجاد کیا تھا، جو بطور موجد اور بزنس مین، ان کے شاندار کیرئیر کا نقطہ عروج تھا۔ اس سے تیس سال بعد وہ بہت امیر ہو چکے تھے۔ ان کی بیس سے زائد ممالک میں 92 فیکٹریاں تھیں اور 355 پیٹنٹ تھے۔ لیکن نہ ہی اولاد تھی اور نہ ہی شادی کی تھی۔ جب موت کی بعد ان کی وصیت کھولی گئی تو یہ چونکا دینے والی چیز تھی کہ انہوں نے اپنی وراثت کو پانچ انعامات کے لئے مختص کر دیا تھا۔ فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، لٹریچر اور امن کے انعامات کے لئے۔ یہ انعامات ان کے زندگی بھر کے شوق کا عکاس تھی، جو سائنس اور ادب سے تھے۔
لیکن امن؟ نوبل کی ایجادات نے جدید انفراسٹرکچر اور بڑی تعمیرات ممکن بنائی تھیں لیکن ان کی ایجاد جنگ کی صنعت میں بھی کلیدی رہی تھیں۔
ان کے بھائی کا انتقال 1888 میں ہوا۔ فرانس کے اخبار کو غلط فہمی ہوئی کہ الفریڈ نوبل فوت ہو گئے ہیں۔ اس نے سرخی لگائی، “موت کا سوداگر خود موت کا شکار”۔ اس کو دیکھ کر ان کا ری ایکشن تھا، “میرے کام سے بنائی سرنگیں، بندرگاہیں، ریل کی پٹریاں، معدنی ذخائر کی دولت۔ یہ تو کسی کو یاد نہیں، میں صرف ایک قابلِ نفرت قاتل ہوں”۔
کچھ مورخین کا خیال ہے کہ امن کا نوبل انعام انہوں نے اپنے شہرت کے اس داغ کو مٹانے کے لئے قائم کیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس انعام کا آئیڈیا آسٹریا کی امن پسند فلسفی برتھا وون سٹنر سے متاثر ہونے کی وجہ سے آیا تھا۔ وون سٹنر عالمی امن تحریک کی لیڈر تھیں اور ان کی نوبل سے دس سال سے خط و کتابت ہوتی رہی تھی۔ نوبل کی وفات کے بعد 1905 میں وون سٹنر امن کا نوبل انعام جیتنے والی پہلی خاتون تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی نوبل انعام سویڈن میں دئے جاتے ہیں۔ امن کا پرائز ناروے میں دیا جاتا ہے۔ الفریڈ نوبل کے وقت میں سویڈن اور ناروے الگ ممالک نہیں تھے۔ سویڈن کے 1814 میں ناروے پر کئے گئے قبضے کے بعد یہ ایک ہی یونین ہوا کرتی تھی۔
نوبل کی وصیت میں امن انعام کی اہلیت کے لئے تین اصول رکھے گئے تھے۔ اسلحے کا خاتمہ، امن کے لئے عمل، اقوام میں بھائی چارہ۔ یہ معیار بعد میں وسیع کر دیا گیا۔ اس میں انسانی حقوق، افہام و تفہیم، مفاہمت بھی آ گئے۔ یہ انعام صرف ایک شخص کو جانا ضروری نہیں، ایک تہائی انعامات دو یا تین جیتنے والوں نے شئیر کئے ہیں۔ یہ تنظیموں کو بھی دیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی نامزدگی کیسے کی جاتی ہے؟ ایک نامزدگی کسی ملک کی اسمبلی کے ممبر سے آ سکتی ہے۔ کسی حکومت کی طرف سے آ سکتی ہے۔ عالمی عدالت کی طرف سے آ سکتی ہے۔ یونیورسٹی ریکٹر دے سکتے ہیں۔ سوشل سائنس، تاریخ، فلسفے، قانون یا مذہبی علوم کے پروفیسر دے سکتے ہیں۔ یا پھر سابقہ انعام جیتے والے دے سکتے ہیں۔ کون نامزد ہوا؟ یہ پچاس برس تک خفیہ رکھا جاتا ہے۔ (اس سال کی نامزدگی کا 2070 میں دیکھا جا سکے گا)۔ مثال کے طور پر، مارٹن لوتھر کنگ کو انعام 1964 میں ملا۔ ہمیں 2014 میں معلوم ہوا کہ انہیں نامزد کرنے والے کوئیکر تھے جو سابق انعام یافتہ تھے، اور انہیں سویڈن کی پارلیمنٹ کے آٹھ ممبران نے بھی نامزد کیا تھا۔
کئی سالوں میں کسی کو بھی انعام نہیں دیا گیا اور ڈیکلئیر کیا گیا کہ اس سال کوئی حقدار نہیں تھا۔ بڑی جنگوں کے درمیان ایسا زیادہ ہوا ہے۔ یا پھر 1948 میں علامتی طور پر جب مہاتما گاندھی کا قتل ہوا تھا۔
کسی کو منتخب کرنے کا عمل تقریباً ایک سال لیتا ہے۔ اس کا فیصلہ کرنے والوں میں ناروے کی نوبل کمیٹی کے پانچ ممبران ہوتے ہیں۔ ان ممبران کے پاس کوئی سیاسی یا سرکاری عہدہ نہیں ہو سکتا۔ نامزدگان کی لمبی فہرست (جو حالیہ برسوں میں تین سو سے زیادہ کی رہی ہے) میں سے شارٹ لسٹ تیار کی جاتی ہے۔ اکتوبر میں پبلک کمیٹی کے چئیرمین اس میں سے جیتنے والے کا اعلان کرتے ہیں۔ دس دسمبر کو ایوارڈ کی تقریب منعقد کی جاتی ہے جو الفریڈ نوبل کا یومِ وفات تھا۔ انعام میں ایک گولڈ میڈل ہے جس میں لاطینی زبان میں “امن اور انسانوں کے درمیان بھائی چارے کے لئے” لکھا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک ڈپلومہ اور بڑا کیش انعام جو پچھلے برسوں میں آٹھ ملین سویڈیش کرونا کا تھا۔ جیتنے والے اس کو جس طرح چاہیں استعمال کر سکتے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں اسے سوشل کاز کے لئے عطیہ کیا جاتا رہا ہے۔
یہ انعام ابتدا میں یورپی اور شمالی امریکی حضرات کو دیا جاتا رہا۔ لیکن حالیہ برسوں میں یہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اور اب یہ واقعی عالمی انعام ہے۔ اب تک 23 تنظیمیں، 103 افراد، 87 مرد اور 16 خواتین اسے حاصل کر چکی ہیں۔
ان میں ڈیسمنڈ ٹوٹو بھی شامل ہیں جنہوں نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف پرامن تحریک میں کردار ادا کیا۔ امریکہ سے جوڈی ولیمز، جنہوں نے بارودی سرنگوں پر پابندی لگانے کی کیمپین کی۔ گوئتے مالا کی رگوبرٹا مینشو ٹوم، جنہوں نے سماجی انصاف اور مقامی آبادی کے حقوق کے لئے کام کیا۔ مارٹی آہٹیساری جنہوں نے نمبیا، کوسوو اور انڈونیشیا میں عالمی تنازعات طے کرنے میں کردار ادا کیا۔ اور پچھلے برس ایتھیوپیا کے ابی احمد جنہوں نے ایریٹریا کے ساتھ جنگ بندی اور سرحدی تنازعہ طے کرنے میں پہل کی اور اپنے ملک کو امن کے ساتھ تیزرفتار ترقی کا تحفہ دیا۔
جہاں پر سائنس کے انعامات دنیا کی دریافت میں اہم حصہ ڈالنے والوں کے لئے ہیں، وہاں امن کا انعام جیتنے والوں کا یہ تنوع ہمیں بتاتا ہے کہ امن کا محض کوئی ایک راستہ نہیں۔