کوانٹم تھیوری وسطی یورپ کے دماغوں کی مشترک تخلیق تھی اور ایسی انٹلکچوئل کہکشاں کم ہی کبھی اکٹھی ہوئی ہے۔ جدت ہمیشہ موافق ماحول میں ہی ہو سکت...
کوانٹم تھیوری وسطی یورپ کے دماغوں کی مشترک تخلیق تھی اور ایسی انٹلکچوئل کہکشاں کم ہی کبھی اکٹھی ہوئی ہے۔ جدت ہمیشہ موافق ماحول میں ہی ہو سکتی ہے۔ اور یہ محض اتفاق نہیں کہ اس میں جن لوگوں کا حصہ ہے، وہ اسی علاقے کے تھے۔ دور پار سے کسی نے اس میں حصہ نہیں ڈالا۔ نہ امریکہ سے، نہ ایشیا سے اور نہ ہی کہیں اور سے۔ یہ خیال سے خیال ملنے سے ہونے والی دریافت تھی جس نے انسانی تاریخ میں پہلی بار کائنات کا ایک نیا رخ دکھایا۔ یہ یورپ میں سائنس کے لئے موافق وقت تھا جس نے تخیل کا آسمان روشن کر کے فطرت کی تلاش کی نئی دنیا دکھا دی۔
محض چند چھوٹے ممالک کے سائنسدانوں کے ذہن اور پسینے سے نکلنے والے خیالات کے تبادلے، اختلافات اور مباحثے اس دریافت کا حصہ تھے۔ ان سب کے اختلافات کے باوجود ان کی قدرِ مشترک فطرت کو سمجھنے کا ولولہ تھی۔ لیکن جلد ہی ان بڑے ذہنوں کے تنازعات کچھ زیادہ بڑے تنازعات میں گہنا گئے اور اس علاقے کو خون اور بارود نے لپیٹ میں لے لیا۔ کوانٹم فزکس کے ستارے کسی آندھی میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے۔
جنوری 1933 میں جرمنی میں ایڈولف ہٹلر چانسلر مقرر کئے گئے۔ اس سے اگلی ہی رات کو گوٹینگن ۔۔ جہاں ہائزنبرگ، بورن اور جورڈن نے ملکر ہائزنبرگ کی مکینکس کے لئے کام کیا تھا ۔۔ نئے قوانین کی لپیٹ میں آ گیا۔ چند مہینوں کے اندر ہی ملک بھر میں کتابیں جلائی جانے لگیں۔ جو آریہ نسل کا نہیں تھا، اسے یونیورسٹیوں سے نکالا جانے لگا۔ اچانک ہی جرمن انٹلکچوئل ناپسندیدہ بن گئے۔ اندازے کے مطابق اگلے پانچ سال میں دو ہزار بڑے سائنسدان جرمنی چھوڑ گئے۔
ہائزنبرگ نازی پارٹی کے حامی تھے۔ “اب یہاں امن ہو گا اور مضبوط جرمن حکومت پورے یورپ کے لئے اچھی ہو گی”۔ ہائزنبرگ ایک قوم پرست تھے جو جرمن روایات کے ختم ہو جانے اور جرمنی میں اخلاقی انحطاط پر شاکی تھے۔ انہوں نے سیاست سے الگ رہنے کی کوشش کی لیکن یہ نئی فزکس جو انہوں نے ایجاد کی تھی، یہ نئے حکمرانوں کو پسند نہیں آئی۔ نئے آنے والوں کے لئے “ریاضی کا فسانہ” تھی۔ اور بدلتی دنیا میں اخلاقی انحطاط کا نتیجہ۔ تجریدی آرٹ کی طرح بے کار کی تجریدی سائنس۔ ان دونوں کی نئے جرمنی میں جگہ نہیں تھی۔
دانا لوگ ہمیں بتاتے آئے ہیں کہ “کسی کے صحیح یا غلط ہونے کا پیمانہ یہ نہیں کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے”۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عملاً ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ ہم سب پہلے کسی بات کے ٹھیک یا غلط کا معیار بنانے کے لئے بات کہے جانے کے بارے میں اپنی رائے کو معیار بناتے ہیں۔ یہ ہمارا گہرا تعصب ہے۔ اور اگر یہ رویہ قوموں میں سرایت کر جائے؟ نازی جرمنی اس کی واضح مثال ہے۔
جرمنی سائنس میں تمام دنیا سے بہت آگے تھا۔ لیکن یک رنگ معاشرہ کرنے کا جنون جرمن سائنس کے لئے تباہ کن رہا۔ نازیوں کی نگاہ میں تھیوری آف ریلیٹویٹی اور کوانٹم تھیوری “یہودی فزکس” قرار پائی (اس میں یہودی سائنسدانوں جیسا کہ آئن سٹائن، بورن، بوہر، پالی کا حصہ تھا)۔ اس لئے نہ صرف یہ تھیوریاں غلط تھیں بلکہ معاشرے کے لئے خراب بھی۔ اور ان کا یونیورسٹی میں پڑھانا ممنوع قرار پایا۔ ہائیزنبرگ ایک وفادار قوم پرست جرمن تھے، اور اس وجہ سے کئی پرکشش بیرونِ ملک ملازمتیں ٹھکرا چکے تھے اب خود پابندی کا شکار ہو گئے۔ ان کے خلاف تفتیش ہونے لگی۔ آٹھ ماہ کی تفتیش کے بعد وہ بے گناہ قرار پائے اور انہیں اس شرط پر پڑھانے کی اجازت ملی کہ وہ کسی یہودی سائنسدان کا نام نہیں لیں گے۔
رتھرفورڈ نے برطانیہ میں مہاجر سائنسدانوں کے لئے تنظیم قائم کی لیکن ان کا انتقال جنگِ عظیم چھڑ جانے سے پہلے ہی ہرنیا کے آپریشن میں تاخیر کی وجہ سے ہو گیا۔ ڈیراک نے کچھ عرصہ برطانیہ کے ایٹم بم کے پراجیکٹ پر کام کیا۔ بعد میں انہیں مین ہٹن پراجیکٹ پر کام کرنے کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے زندگی کے آخری برس فلوریڈا یونیورسٹی میں پڑھاتے گزارے۔ پالی کو سوئٹزرلینڈ نے شہریت دینے سے انکار کر دیا اور وہ امریکہ فرار ہو گئے جہاں جنگ بندی کے بعد انہیں نوبل انعام ملا۔ بعد میں وہ روحانیت اور نفسیات کی طرف چلے گئے۔ ان کا انتقال اٹھاون سال کی عمر میں پتے کے کینسر کی وجہ سے ہوا۔
شروڈنگر برلن میں رہ رہے تھے اور نازی حکومت کے مخالف تھے۔ انہوں نے جرمنی چھوڑ دیا اور آکسفورڈ چلے گئے۔ انہیں ڈیراک کے ساتھ ہی نوبل انعام ملا۔ ہائزنبرگ، جو جرمن فزکس کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے تھے، انہیں شروڈنگر کے چلے جانے پر رنج تھا کیونکہ “نہ وہ یہودی تھے اور نہ ہی کسی اور اقلیتی گروپ سے تعلق تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہوتا”۔ شروڈنگر کا انتقال تپدق سے ہوا جو انہیں پہلی بار اس وقت لاحق ہوئی تھی جب وہ پہلی جنگِ عظیم لڑ رہے تھے۔
ہٹلر کے آنے کے وقت آئن سٹائن اور بورن بھی جرمنی میں رہائش پذیر تھے اور وقت پر نکل جانا ان کی زندگی کے لئے ضروری تھا۔ آئن سٹائن اتفاق سے اس وقت امریکہ آئے ہوئے تھے اور کیلے فورنیا میں تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ واپس نہیں جائیں گے۔ ان کی جائیداد نازیوں نے ضبط کر لی۔ ان کا ریلیٹیویٹی پر کیا گیا کام نذرِ آتش کر دیا گیا اور ان کی گرفتاری پر پانچ ہزار ڈالر کا انعام مقرر کر دیا گیا۔ آئن سٹائن کا انتقال 1955 میں ہوا۔
بورن نے فوری طور پر جرمنی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہائزنبرنگ نے کوشش کی تھی کہ بورن کو آریا نسل کا نہ ہونے کے باوجود کام کرنے کی اجازت مل سکے لیکن بورن نے جرمنی رہنا مناسب نہ سمجھا اور پالی کی مدد سے جولائی 1933 میں کیمبرج چلے گئے۔ انہیں 1932 کے نوبل پرائز کے لئے نظرانداز کیا گیا جو ہائزنبرگ کو ملا۔ لیکن یہ انعام انہیں 1954 میں ملا۔ ان کی وفات 1970 میں ہوئی۔ ان کی قبر کے کتبے پر کوانٹم تھیوری کی مساوات لکھی ہوئی ہے جو ہائزنبرگ کی غیریقینیت کے اصول کی فاونڈیشن ہے اور جو انہوں نے اور ڈیراک نے دریافت کی تھی۔
بوہر پہلے ہی ڈنمارک میں تھے۔ وہ جرمنی کے مہاجر سائنسدانوں کو امریکہ، سویڈن اور برطانیہ میں ملازمتیں ڈھونڈ کر دینے کا کام کرتے رہے۔ 1940 میں جرمنی نے ڈنمارک پر حملہ کر دیا۔ سویڈش سفیر نے انہیں خبردار کر دیا کہ ان کے وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔ اس نے انہیں بچا لیا اور وہ اپنی بیوی سمیت سویڈن فرار ہو گئے جہاں انہیں پناہ مل گئی۔ سویڈن جرمن ایجنٹوں سے بھرا ہوا تھا اور سٹاک ہوم رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ چرچل نے انہیں پیغام بھجوایا کہ وہ انہیں برطانیہ فرار ہونے میں مدد کریں گے۔ انہیں ایک جنگی جہاز کے بم والے خانے میں گدے میں لپیٹ کر برطانیہ لایا گیا۔ راستے میں وہ بے ہوش ہو گئے لیکن زندہ برطانیہ پہنچ گئے۔ برطانیہ سے وہ امریکہ چلے گئے، جہاں انہوں نے مین ہٹن پراجیکٹ میں ایڈوائزر کے طور پر کام کیا۔ جنگ کے بعد واپس ڈنمارک آ گئے جہاں ان کا انتقال ہوا۔
جورڈن اور گائیگر پرجوش نازی تھے۔ جورڈن نے فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ نازی پارٹی کو ایڈوانسڈ ہتھیاروں میں تحقیق پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ان کو “یہودی فزکس” میں ملوث ہونے کی وجہ سے نظرانداز کر دیا گیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد وہ سیاست میں چلے گئے اور پارلیمنٹ میں نشست جیت لی۔ جورڈن کوانٹم فزکس کے بانیوں میں سے واحد سائنسدان تھے جنہیں نوبل انعام نہیں ملا۔
پلانک بھی جرمنی میں رہے۔ نہ انہیں نازی پارٹی سے ہمدردی تھی اور نہ ہی ان کے مخالف تھے۔ ہائزنبرگ کی طرح ان کی ترجیح جرمن سائنس کو ممکنہ حد تک بچانا تھی۔ انہوں نے مئی 1933 میں ہٹلر سے ملاقات کی اور انہیں سائنس سے متعلق پالیسی تبدیل کرنے کا مشورہ دیا جس نے کچھ بھی تبدیل نہیں کیا۔ پلانک کے بیٹے نے اس تبدیلی کے لئے ایک اور راستہ اختیار کیا۔ وہ ہٹلر کو 20 جولائی 1944 کو قتل کرنے کی کوشش کے منصوبے کا حصہ تھے۔ گرفتار ہو گئے اور سزائے موت کے حقدار قرار پائے۔ پلانک کی ٹریجڈی سے بھری زندگی کی یہ ایک اور ٹریجڈی تھی۔ ان کے پانچ بچوں میں سے تین کا انتقال کم عمری میں ہو گیا تھا۔ ایک کا پہلی جنگِ عظیم میں لڑتے ہوئے۔ بیٹے کی سزائے موت نے پلانک کے جینے کی لگن ختم کر دی۔ ان کا انتقال دو سال بعد ہو گیا۔
جب جرمنی نے ایٹم بم پراجیکٹ 1939 میں شروع کیا تو ہائزنبرگ نے بڑے جوش سے اس پر کام شروع کیا۔ وہ جلد ہی وہ کیلکولیشن مکمل کر چکے تھے جس نے دکھایا تھا کہ نیوکلئیر فشن چین ری ایکشن ممکن ہے۔ اور یہ بھی کہ یورینیم 235 اس کے لئے بہترین ہے۔ تاریخ کی ستم ظریفی رہی کہ نازیوں کی ابتدائی آسان فتوحات ان کی شکست کا باعث بنیں۔ انہوں نے ایٹم بم پر اتنی توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ جنگ ان کے حق میں جا رہی تھی۔ اور جب جنگ کا رخ تبدیل ہوا تو ان کے لئے دیر ہو چکی تھی۔
جنگ کے بعد ہائزنبرگ اور نو بڑے جرمن سائنسدانوں کو اتحادی افواج نے گرفتار کر لیا۔ رہائی پانے کے بعد وہ واپس فزکس کے بنیادی سوالات کی طرف آ گئے اور جرمن سائنس کی تعمیرِ نو کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔
اس سب نے یورپی سائنس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ یورپ نے چند صدیاں پہلے فکری قیادت مشرقِ وسطیٰ سے حاصل کی تھی۔ جنگِ عظیم کے بعد تک یہ قیادت بحرِ اوقیانوس کے پار شمالی امریکہ کی طرف جا چکی تھی۔
(جاری ہے)