کوانٹم تھیوری میں ہونے والی تمام تر ترقی کے باوجود اس کے مرکز میں ہائیزنبرگ کی اپروچ ہی ہے۔ اور انہوں نے یہ جیت 1927 میں لکھے پیپر سے سمیٹی ...
غیریقینیت کا اصول ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کسی ایک وقت میں آبزرویبلز کے خاص pairs کے بارے میں کتنا معلوم کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ پوزیشن اور رفتار (اصل میں یہ مومینٹم ہے) کے بارے میں۔ اور یہ حد پیمائش کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے نہیں ہے، نہ ہی یہ انسانی عقل کی حد ہے۔ بلکہ یہ خود فطرت کی لگائی ہوئی حد ہے۔ کوانٹم تھیوری بتاتی ہے کہ آبجیکٹ پریسائز خاصیتیں نہیں رکھتے جیسا کہ پوزیشن اور رفتار ہوں۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر آپ ان کی پیمائش کی کوشش کریں گے تو جتنی زیادہ پریسائز اس میں سے ایک کی پیمائش کریں گے، اتنی ہی کم پریسائز دوسرے کی پیمائش ہو جائے گی۔
روزمرہ کی زندگی میں ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم پوزیشن اور رفتار جتنی مرضی چاہیں، اچھی طرح بیک وقت معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ غیریقینیت کے اصول سے متضاد لگتا ہے لیکن جب آپ کوانٹم تھیوری کی ریاضی سے اسے گزاریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ روزمرہ کی اشیا کا ماس اتنا زیادہ ہے کہ غیریقینیت کے اصول کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ نیوٹونین فزکس اتنا لمبا عرصہ بالکل درست کام کرتی رہی تھی۔ صرف اس وقت جب سائنسدان ایٹامک سطح پر جا کر فینامینا کو دیکھنے لگے تو پھر نیوٹونین فزکس کی حدود واضح ہونے لگیں۔
اگر ہم الیکٹرون کی پوزیشن اتنی پریسیژن سے نکالنے کی کوشش کریں جتنا ایک ایٹم کا سائز ہے تو اس کی رفتار کی غیریقینیت ایک ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو گی۔ یہ اتنا فرق ہے جتنا الیکٹران ساکن ہو یا پھر جمبو جیٹ کی رفتار سے بھی تیز ہو۔ اور یہاں ہائیزنبرگ کو اپنی فتح مل گئی تھی۔ ایٹامک مدار جو الیکٹران کا راستہ بتاتے ہوں، فطرت کی طرف سے ہی منع ہیں۔
جب کوانٹم تھیوری کی سمجھ مزید بہتر ہونے لگی تو یہ واضح ہو گیا کہ کوانٹم دنیا میں یقیننت ہے ہی نہیں، محض امکانات ہیں۔ “ہاں، یہ ہو گا” نہیں بلکہ “ان ممکنات میں سے کچھ ہو سکتا ہے” کی دنیا ہے۔ نیوٹونین ورلڈ ویو میں کائنات کی کسی بھی وقت میں حالت اور نیوٹن کے قوانین کی مدد سے ماضی اور مستقبل تک اصول طور پر پہنچا جا سکتا تھا۔ اگر ہمارے پاس زمین کے اندر کا کافی ڈیٹا ہوتا تو ہم بالکل پریسائز طریقے سے زلزلوں کی پیشگوئی کر سکتے تھے۔ اگر ہمارے پاس موسم کے متعلق ہر تفصیل ہو تو ہم اصول طور پر یقین سے کہہ سکتے تھے کہ کل بارش ہو گی یا نہیں اور ایک سو سال بعد اسی روز بارش ہو گی یا نہیں۔
اور یہ ڈیٹرمینزم نیوٹن کی سائنس کا دِل تھا۔ ایک سبب سے اگلا ایونٹ جو اس سے اگلے کا سبب ہو۔ اور اس سب کی ریاضی سے پیشگوئی کی جا سکتی تھی۔ یہ نیوٹونین دنیا تھی۔ اس یقینیت کی خواہش ماہرینِ معیشت سے سوشل سائنسدان تک سب کو ہوتی ہے۔ لیکن کوانٹم تھیوری بتاتی ہے کہ بالکل بنیادی لیول پر، ایٹموں اور ذرات کی سطح پر، جس سے ہر شے بنی ہے، دنیا ایسی نہیں ہے۔ کائنات کی آج کی حالت سے مستقبل تک مکمل درستگی کے ساتھ نہیں پہنچا جا سکتا۔ صرف یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کیا ہونے کا امکان کتنا ہے۔ کوانٹم تھیوری کے مطابق کاسموس کا کھیل پانسے کا کھیل ہے۔ اور یہ وہ حقیقت تھی جو آئن سٹائن کو ذرا بھی پسند نہیں آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری اپنی زندگیوں کی طرح سائنسی تھیوری مضبوط بنیاد پر ہو سکتی ہے یا پھر ریت پر بنی ہوئی۔ آئن سٹائن کو امید تھی کہ کوانٹم تھیوری ریت پر بنی ہے جو جلد ہی گر جائے گی۔ جب غیریقینیت کا اصول آیا تو انہوں نے کہا کہ یہ فطرت کا اصول نہیں ہے بلکہ کوانٹم مکینکس کی حد ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ یہ تھیوری مضبوط بنیاد پر نہیں۔
انہیں یقین تھا کہ آبجیکٹ ایک خاص پوزیشن اور ولاسٹی رکھتے ہیں لیکن یہ کوانٹم تھیوری کی کمزوری ہے جو اس کو ہینڈل نہیں کر پاتی۔ کوانٹم تھیوری ایک گہری تھیوری کا نامکمل حصہ ہے۔ اور وہ گہری تھیوری معروضی حقیقت کے تصور کو واپس بحال کر دے گی۔ آئن سٹائن سے اختلاف کرنے والے بہت تھے لیکن بہت عرصے تک کئی سائنسدانوں کو ایسی ہی توقع رہی۔ آئن سٹائن کو مرتے دم تک یقین رہا کہ کبھی نہ کبھی ان کا یقین سچ ثابت ہو جائے گا۔ ان کے بعد ہونے والی دہائیوں میں بہت ہی اعلیٰ تجربات جو جان بیل کے کام کی بنیاد پر بنے، اس کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔ کوانٹم غیریقینیت ایک حقیقت ہے۔
بورن نے بتایا کہ “آئن سٹائن کا ردِعمل میرے لئے بھاری دھچکا تھی۔ اس نے مجھے رلا دیا تھا”۔ بورن نے ہائزنبرگ کے ساتھ ملکر کوانٹم تھیوری کی امکانات والی تعبیر کی تھی۔ اور انہیں آئن سٹائن سے زیادہ مثبت ردِ عمل کی توقع تھی۔ آئن سٹائن ان کے لئے ہیرو تھے اور اس طرح مسترد کئے جانے نے ان کا دل توڑ دیا تھا، جیسے کسی محبوب لیڈر نے کسی کو راہ میں تنہا چھوڑ دیا ہو۔ کئی دوسروں کا بھی ایسا ہی خیال تھا۔ آئن سٹائن جلد ہی کوانٹم تھیوری کی مخالفت میں تنہا رہ گئے تھے۔ اور انہوں نے خود کہا کہ “یہ مخالفت میرا تنہائی کا گیت ہے”۔ بورن کے کام کو مسترد کر دینے کے بیس سال بعد اور اپنے وفات سے چھ سال قبل 1949 میں انہوں نے بورن کو خط لکھا۔ “میں اب کباڑ خانے میں پڑی پرانی شے سمجھا جاتا ہوں، جس کو عمر کے بڑھتے سالوں نے اندھا اور بہرا کر دیا ہے۔ مجھے یہ برا نہیں لگتا۔ یہ میرے مزاج کے مطابق ہے”۔
آئن سٹائن باکمال شخصیت تھے۔ ان کے مقابلے کا سائنسدان تاریخ میں شاید ہی کوئی اور ہو۔ اپنے منفرد خیالات، ضد اور یقین سے انہوں نے فزکس کو الٹا کر رکھ دیا تھا۔ یہ یقین سچ ہو گئے تھے۔ اپنے منفرد خیالات، ضد اور یقین کی وجہ سے وہ کوانٹم غیریقینیت کی حقیقت کو تمام عمر قبول نہ کر سکے۔ یہ یقین سچ نہ ہو سکے۔۔۔ یقیناً، یہ ایک غیریقینی دنیا ہے۔
(جاری ہے)