Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ہائزنبرگ کی غیریقنیت (70)

جس تھیوری کو ہائزنبرگ نے اپنی inspiration سے تخلیق کیا، وہ نیچر کی فنڈامینٹل تھیوری بن گئی۔ میکس بورن نے اس کا نام کوانٹم مکینکس رکھا تا کہ ...



جس تھیوری کو ہائزنبرگ نے اپنی inspiration سے تخلیق کیا، وہ نیچر کی فنڈامینٹل تھیوری بن گئی۔ میکس بورن نے اس کا نام کوانٹم مکینکس رکھا تا کہ اس کو نیوٹونین مکینکس یا کلاسیکل مکینکس سے الگ دکھایا جا سکے۔ لیکن فزکس کی تھیوریوں کو اپنی پیشگوئیوں کی ایکوریسی سے جانچا جاتا ہے نہ کہ عام اتفاق یا ذوق کے معیار کی کسوٹی پر۔ تو پھر ہائزنبرگ کے عجیب لگنے والے خیالات کی تھیوری نے یہ کام کیسے کر لیا؟


اگرچہ کوانٹم مکینکس کا تھیوریٹیکل فریم ورک نیوٹن سے مختلف تھا لیکن اس کی ریاضی کی پیشگوئیاں صرف ان سسٹمز کے لئے مختلف تھیں جہاں پر ہم ایٹامک سکیل یا اس سے چھوٹے کے بارے میں بات کر رہے ہوں اور یہاں پر نیوٹن کے قوانین ناکام ہوتے تھے۔ اور جب یہ مکمل ڈویلپ ہو گئی تو کوانٹم مکینس ایٹم کے عجیب behavior کی بھی وضاحت کرتے تھی اور نیوٹونین تھیوری کی روزمرہ کی اچھی طرح سے اسٹیبلش ہو جانے والی تھیوری کے نتائج سے کوئی تضاد بھی نہیں رکھتی تھی۔ یعنی کوانٹم مکینکس کی تہہ کے اوپر سے کلاسیکل مکینکس ویسے ہی برآمد ہو جاتی تھی۔


ہائزنبرگ نے ایک فلسفانہ ترجیح سے ایک کنکریٹ تھیوری کیسے بنا لی؟ ان کا چیلنج فزکس کا “آبزرویبل” اعداد میں ترجمہ کرنے کا تھا۔ ایسے اعداد جن کی پیمائش کر کے ریاضی کا فریم ورک بنایا جا سکے جس سے فزیکل دنیا کی وضاحت کی جا سکے۔ جو تھیوری انہوں نے ایجاد کی، اس کا کسی بھی فزیکل سسٹم پر اطلاق کیا جا سکتا تھا لیکن انہوں نے اس کو ڈویلپ ایٹامک دنیا کو مدِنظر رکھ کر کیا تھا۔


ان کا سب سے پہلا قدم ایسے آبرزویبل شناخت کرنا تھا جو ایٹم کے لئے مناسب ہوں۔ اس میں ان سے خارج ہونے والی روشنی کی فریکوئنسی اور شدت جیسی چیزیں تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے ان پر روایتی ریاضیاتی فزکس کی تکنیک کے استعمال سے ان کا نیوٹونین آبزرویبل، جیسا کہ پوزیشن اور ولاسٹی ہیں، سے تعلق نکالا۔ ان کا مقصد نیوٹونین فزکس کے ہر آبزرویبل کو اس کے کوانٹم متبادل سے ری پلیس کرنا تھا۔ یہ وہ قدم ثابت ہوا جس کے لئے تخلیقی صلاحیت اور جرات، دونوں کی ہی ضرورت تھی۔ کیونکہ اس نے پوزیشن اور مومینٹم کو ریاضی کے تصورات میں بدل دیا جو نئے اور عجیب لگتے تھے۔


اور ہاں، اس کی وضاحت اور کرنے کا طریقہ خاصا پیچیدہ ہے۔ اتنا زیادہ کہ جب ہائزنبرگ نے اپنی سکیم پہلی بار بنائی تو اس پر ان کا تبصرہ تھا، “یہ بہت ہی عجیب ہے”۔ لیکن خلاصہ یہ کہ انہوں نے اپنی تھیوری میں الیکٹران کے مداروں کو اس طریقے سے حذف کر دیا کہ ان کا تصور کیا جا سکے۔ ان کی جگہ پر یہ خالصتاً ریاضی کی کوانٹیٹی بن گئے۔


اور یہ ہائزنبرگ کا جینیس تھا۔ ان سے پہلے جو بھی ایٹم کی تھیوریوں پر کام کرتا آیا تھا، وہ ایٹامک پراسسز کا مکینزم دریافت کرنا چاہتا تھا اور اس طریقے سے کہ گویا ایٹم ویسا بنیادی کردار رکھتا ہے جیسا کہ روزمرہ کی زندگی کی عام اشیا۔ صرف ہائزنبرگ ہی تھے جو ان سب سے الگ سوچ سکے تھے۔ اور اتنی جرات تھی کہ یہ ڈیکلئیر کر سکیں کہ الیکٹران کے مدار مشاہدے کی سکوپ میں نہیں آتے۔ یہ “اصل” نہیں ہیں اور ان کی تھیوری میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ ہائزبرگ کی ایٹم کے اور کسی بھی فزیکل سسٹم کے بارے میں اپروچ تھی۔


اور یہ ہائزنبرگ کی سکیم تھی جس نے نیوٹونین دنیا کی رئیلیٹی کا تصور ختم کر دیا۔ ان کی تھیوری پرفیکٹ ہونے کے بعد، اب ہمیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ کسی بھی آبجیکٹ کے ماضی اور اس کے مستقبل کو پریسائز طریقے سے معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناممکن ہے۔ غیریقینیت اور امکانیات اس دنیا کی بنیادی خاصیت ہیں۔


ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں کہ ایسی تھیوری کو قبول کرنے میں کس قدر ذہنی کشادگی اور آزاد فکر کی ضرورت پڑی ہو گی جو یہ بتائے کہ ہم جس الیکٹران اور نیوکلئیس سے بنے ہیں، ان کا کوئی کنکریٹ وجود نہیں ہے۔ لیکن ہائزنبرگ کی اپروچ اس کا تقاضا کرتی تھی۔ یہ صرف فزکس کرنے کی طرف نئی اپروچ نہیں تھی۔ یہ رئیلیٹی کے بارے میں ہی ایک بالکل نیا تصور تھا۔ اور یہ وہ مسائل تھے جس وجہ سے میکس بورن نے فزکس اور فلسفے کی صدیوں پرانی علیحدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ “اب میں قائل ہو چکا ہوں کہ تھیوریٹیکل فزکس اصل میں فلاسفی ہے”۔


ہائزنبرگ کے آئیڈیاز کے ٹکڑے آپس میں جڑنے لگے۔ ریاضی کی کیلکولیشنز بڑھنے لگیں۔ ان کے جوش و خروش میں اضافہ ہونے لگا۔ دن رات کام کر کے انہوں نے اپنا پہلا پیپر ختم کیا جس کے مندرجات نے فزکس کا رخ بدل دیا۔


انہوں نے اس کی ایک کاپی اپنے دوست پالی کو دی۔ دوسری بورن کو۔ اس میں میتھاڈولوجی کا خاکہ تھا اور اس کا چند سادہ پرابلم پر اطلاق کیا گیا تھا۔ لیکن ہائزنبرگ ابھی کوئی عملی دلچسپی کی چیز کیلکولیٹ نہیں کر پائے تھے۔ ان کا کام بہت زیادہ پیچیدہ اور بہت پرسرار تھا۔ اس کو چند منٹ سے زیادہ پڑھنا مشکل تھا لیکن بورن نے اس کو مکمل پڑھا اور اتنے متاثر ہوئے کہ اسی وقت آئن سٹائن کو خط لکھا کہ “اس نوجوان کے خیالات یقیناً درست ہیں اور بہت گہرے ہیں”۔


بورن بھی آئن سٹائن کے ریلیٹویٹی کے کام سے انسپائر تھے اور انہوں نے نوٹ کیا کہ ہائزنبرگ کی ذہنی اپروچ اور تخلیقی صلاحیت اور باریک بینی اور تفصیل پر توجہ آئن سٹائن سے ملتی تھی۔


لیکن آئن سٹائن کو ہائزنبرگ کی تھیوری پسند نہیں آئی اور کوانٹم تھیوری کے ارتقا کا یہ مقام تھا جہاں پر آئن سٹائن کوانٹم سے دور ہونے لگے تھے۔ آئن سٹائن ایسی تھیوری کی توثیق نہیں کر سکے جو well-defined معروضی حقیقت کے وجود کی نفی کرتی ہو۔ ایسی حقیقت جس میں پوزیشن اور ولاسٹی جیسی خاصیتوں کی واضح تعریف نہ ہو۔ وہ یہ تو تسلیم کر سکتے تھے کہ ایٹم کی خاصیت ایسی عارضی تھیوری سے ہو جائے جس میں ایٹم میں مدار کا ریفرنس نہ ہو، لیکن ایک “فنڈامنٹل” تھیوری جو یہ دعوٰی کرتی ہو کہ یہ مدار سرے سے ہیں ہی نہیں؟ یہ کچھ زیادہ ہی تھا۔ بعد میں انہوں نے لکھا، “مجھے یقین ہے کہ فزسٹ مستقل طور پر مطمئن نہیں رہ سکیں گے کہ رئیلیٹی کی وضاحت بالواسطہ طور پر کی جائے”۔


ہائزنبرگ خود اپنی اس تخلیق کے بارے میں شک کا شکار تھے۔ جب وہ اپنے خیالات مکمل کرنے کے بعد پہلے پیپر کا مسودہ لکھ رہے تھے تو اس دوران انہوں نے اپنے والد کو خط لکھا، “اس وقت میرا کام اچھا نہیں جا رہا۔ میں زیادہ نہیں کر سکا ہوں اور مجھے نہیں پتا کہ پہلے پیپر سے آگے بڑھ پاوٗں گا”۔


یہاں پر بورن کو ایک خیال وارد ہوا۔ یہ الجبرا کے ایک کم پڑھے جانے والے پرسرار سے تصور کا تھا۔ اس کو ریاضی دان میٹرکس کہتے تھے۔


(جاری ہے)