Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

بوہر کا ایٹم (66)

یہ دنیا کیسے موجود ہے؟ ایٹم کیسے مستحکم ہیں؟ کلاسیکل فزکس کی پیشگوئی یہ تھی کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بوہر نے اس مسئلے کو ایک الگ ہی زاویے سے...


یہ دنیا کیسے موجود ہے؟ ایٹم کیسے مستحکم ہیں؟ کلاسیکل فزکس کی پیشگوئی یہ تھی کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بوہر نے اس مسئلے کو ایک الگ ہی زاویے سے سوچا۔ انہوں نے خود سے ایک سوال پوچھا۔ اگر ایٹم توانائی کی ویو خارج نہیں کرتا جیسا کہ کلاسیکل تھیوری کی پیش گوئی ہے (یا کم از کم رتھرفورڈ کے ماڈل کی) تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ایٹم کلاسیکل قوانین کی سرے سے پابندی ہی نہیں کرتا؟ اس نئی سوچ کو لے کر انہوں نے آئن سٹائن کے فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ میں کئے گئے کام سے رجوع کیا۔ اب اگلا سوال انہوں نے یہ کیا کہ کیا آئن سٹائن کے پیشکردہ کوانٹم کے آئیڈیا کااطلاق ایٹم پر بھی ہو سکتا ہے؟ جس طرح آئن سٹائن کا لائٹ کوانٹا ہے، وہی معاملہ ایٹم میں بھی ہے۔ یہ مسلسل نہیں بلکہ کچھ خاص انرجی لیول رکھ سکتا ہے؟


بوہر نے اپنی توجہ سادہ ترین ایٹم، ہائیڈروجن کی طرف کر لی۔ جس کا ایک پروٹون ہے اور اس کے گرد ایک الیکٹران۔ آج تو ہم جانتے ہیں کہ ہائیڈروجن ایسے ہی ہے لیکن بوہر کے ساتھ ایک اور مشکل یہ بھی تھی کہ اس وقت تک یہ بھی واضح نہیں تھا کہ ہائیڈروجن کا سٹرکچر واقعی ایسا ہے۔ بوہر نے یہ نتیجہ تھامسن کے تجربات سے اخذ کیا تھا کہ ہائیڈروجن کا ایک ہی الیکٹران ہوتا ہے۔


نیوٹونین فزکس پیشگوئی کرتی ہے کہ الیکٹران نیوکلئیس کے گرد کسی بھی فاصلے پر گردش کر سکتا ہے جب تک کہ اس کی رفتار اور توانائی کی خاص ویلیو ہوں جن کا تعلق اس کے فاصلے سے ہو گا۔ جتنا یہ پروٹون کے قریب ہو گا، اس کی توانائی اتنی کم ہو گی۔ لیکن (آئن سٹائن کی طرح) اگر فرض کر لیا جائے کہ ہم ایک نئے قانون کا اضافہ کر لیتے ہیں (جس کی وجہ ہمیں معلوم نہیں) کہ ایٹم کوئی بھی توانائی رکھنے میں آزاد نہیں بلکہ صرف کچھ discrete ممکنات میں سے ایک رکھ سکتے ہیں۔ اب چونکہ مدار کے قطر کا تعلق توانائی سے ہے تو اس پابندی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ الیکٹران جن مداروں میں رہ سکتا ہے، ان کا قطر بھی discrete ہے۔ اور جب ہم اس کو فرض کر لیتے ہیں تو ہم کہہ رہے ہیں کہ ایٹم کی توانائی اور مدار کا قطر quantized ہیں۔


بوہر نے کہا کہ چونکہ یہ کوانٹائزڈ ہیں، اس لئے ایٹم مسلسل توانائی خارج نہیں کر سکتا اور یوں نیوکلئیس کی طرف ایک spiral صورت میں توانائی کھو کر نہیں جا سکتا جیسا کہ کلاسیکل نیوٹونین تھیوری کی پیشگوئی ہے۔ اس کے بجائے ایٹم صرف ایک مدار سے دوسرے میں چھلانگ لگانے کی صورت میں توانائی خارج کر سکتا ہے جو خاص مقدار کی ہی ہو سکتی ہے۔ بوہر کے ماڈل میں، جب ایٹم توانائی کی کسی اِن پُٹ کو لے کر ایکسائیٹ ہو گا (مثلاً فوٹون کی توانائی کو جذب کر کے) تو الیکٹران زیادہ توانائی والے مدار میں چلا جائے گا۔ اور جب یہ چھلانگ واپس کم توانائی والے مدار کی طرف لگے گی تو لائٹ کا ایک کوانٹا ۔۔ ایک فوٹون ۔۔۔ خارج ہو گا اور اس فوٹون کی فریکوئنسی کا انحصار ان مداروں کے درمیان توانائی کے فرق سے ہو گا۔


اب اگر پھر کسی نامعلوم وجہ سے فرض کر لیا جائے کہ ایک ایسا مدار ہے جو نیوکلئیس کے سب سے قریب کا ممکنہ مدار ہے۔ اس سب سے کم توانائی کے مدار کو بوہر نے گراوٗنڈ سٹیٹ کہا۔ جب الیکٹران اس حالت میں ہو تو پھر کوئی مزید توانائی نہیں کھو سکتا۔ اس وجہ سے نیوکلئیس میں نہیں گرتا۔ بوہر کو توقع تھی کہ اسی طرح کی سکیم دوسرے عناصر میں بھی ہے جن میں کئی الیکٹران ہوتے ہیں۔ بوہر نے کہا کہ کوانٹائزیشن رتھرفورڈ کے ایٹم کے استحکام کی کنجی ہے۔ اور یوں کائنات کے استحکام کی بھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پلانک کے بلیک باڈی ایشن اور آئن سٹائن کے فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ کی وضاحت کی طرح، بوہر کے آئیڈیا کسی جنرل کوانٹم تھیوری سے نہیں نکلے تھے بلکہ ایڈہاک تصورات تھے جو کسی ایک چیز کی وضاحت کرتے تھے۔ بوہر نے رتھرفورڈ ایٹم کی وضاحت کی تھی۔ اور یہ انسانی تخلیقی صلاحیت کا ایک مظاہرہ ہے۔ کہ بغیر کسی بڑی تھیوری کے، جو اس ماڈل کو جنم دے سکتی، بوہر کی تصویر بھی پلانک اور آئن سٹائن کی طرح تخیل سے بنائی گئی تھی۔ آئن سٹائن کے مطابق، “تصور علم سے زیادہ طاقتور ہے” لیکن خالی تصور ہی کافی نہیں۔ اگلا سوال یہ تھا کہ کیا بوہر کا قائم کردہ یہ تصور درست بھی تھا؟ آخر اس کو پرکھا کیسے جائے؟


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بوہر نے اپنا ماسٹرپیس جولائی 1913 کو شائع کیا۔ اور اس فتح کے لئے 1912 کے موسمِ گرما سے فروری 1913 تک دن رات آئیڈیاز کی جنگ کرتے رہے۔ وہ اتنی زیادہ دیر تک کام کرتے تھے کہ ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ کسی روز وہ تھک کر گر جائیں گے۔ ان کے والدین نے اس دوران ان کی شادی یکم اگست 1912 کو طے کی۔ انہوں نے یہ شادی تو کر لی لیکن ناروے جانے کا ہنی مون کا پروگرام کینسل کر دیا اور اس وقت کو اپنی نئی نویلی دلہن سے ایک پیپر کو لکھنے میں مدد لینے کے لئے استعمال کیا۔


بوہر کے خیالات ایک دوست سے فروری 1913 میں ہونے والی اتفاقی ملاقات کے بعد ٹھوس ہونا شروع ہوئے تھے۔ اس دوست نے فزکس کے ایک اور شعبے، سپیکٹروسکوپی کے قوانین یاد کروائے تھے۔ اس میں گیس کے عناصر کو بہت گرم کرنے یا ان میں سے برقی رو گزارنے کے بعد ان سے خارج ہونے والی روشنی کی سٹڈی کی جاتی ہے۔ یہ بہت عرصے سے معلوم تھا کہ کسی نامعلوم وجہ سے ان حالات میں گیس کے عناصر الیکٹرومیگنیٹک ویو خاص گروپ اور محدود فریکونسی میں خارج کرتے ہیں، جنہیں سپیکٹرل لکیریں کہا جاتا ہے۔ اور یہ لکیریں ایک طرح کا فنگرپرنٹ بناتی ہیں جن سے کسی بھی عنصر کی شناخت ہو سکتی ہے۔ یعنی ہر عنصر کی سپیکٹرل لکیریں اس سے ہی خاص ہیں۔


اپنے دوست سے بات کرنے کے بعد بوہر کو احساس ہوا کہ وہ اپنا ماڈل استعمال کر کے پیشگوئی کر سکتے ہیں کہ ہائیڈروجن کی سپیکٹرل لکیریں کس طرح ہونی چاہیئں۔ اس طرح ان کی تھیوری تجرباتی ڈیٹا سے پرکھی جا سکے گی۔ اور یہ وہ قدم ہے جس سے سائنس میں ایک خوبصورت خیال کو ایک سنجیدہ تھیوری میں بدلا جا سکتا ہے۔


جب بوہر نے اپنی ریاضی کو ختم کیا، تو اس کے نتائج نے خود ان کو ششدر کر دیا۔ ان کے کیلکولیٹ کئے گئے “ممکنہ مدار” اور مشاہدہ کی گئی سپیکٹرل لکیروں کی فریکوئنسی میں بالکل ٹھیک ٹھیک مطابقت تھی۔ ستائیس سالہ بوہر کا یہ دیکھ کر کیا حال ہوا ہو گا، یہ تصور کرنا مشکل ہے۔ ان کے اس سادہ ماڈل نے سپیکٹروسکوپسٹ کے نہ سمجھ آنے فارمولے نکال لئے تھے اور ایسا ہونے کی وجہ بھی بتا دی تھی!!


بوہر کے تخیل اور غیرروایتی خیالات سے بُنی گئی تھیوری کو دیکھ کر گویا فطرت نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔ اپنا ایک بڑا اسرار عیاں کر دیا تھا۔  


(جاری ہے)