Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ڈارون کا سفر (52)

ڈارون کا سفر 1831 کو شروع ہوا اور 1836 میں واپسی ہوئی۔ اس میں ڈارون نے برازیل کے میلے میں بھی شرکت کی۔ چلی میں اوسورنو کے قریب آتش فشاں پھٹ...

ڈارون کا سفر 1831 کو شروع ہوا اور 1836 میں واپسی ہوئی۔ اس میں ڈارون نے برازیل کے میلے میں بھی شرکت کی۔ چلی میں اوسورنو کے قریب آتش فشاں پھٹتے دیکھا۔ زلزلہ محسوس کیا۔ کونسیپسوین کے کھنڈرات میں پھرے۔ مونٹیویڈو اور لیما میں انقلاب آتے دیکھے۔ اور اس سب کے ساتھ ساتھ وہ جانداروں اور فوسلز کے نمونے اکٹھے کرتے رہے۔ ان کو پیک کرتے رہے اور ان کو برطانیہ میں ہینسلو کو بھجواتے رہے۔

یہ سفر ان کے لئے بہت اہم رہا۔ ان کا فطری دنیا سے نیا لگاوٗ پیدا ہوا لیکن ان کی ایولیوشن کی مشہور دریافتیں، اس دوران نہیں ہوئی تھیں۔ انہوں نے جیسے سفر شروع کیا تھا، ویسے ہی ختم کیا۔ لیکن اپنے مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات بدل گئے۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب ان کے کرنے کا کام سائنس ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈارون کو پیسوں کا مسئلہ نہیں تھا۔ انہیں والد سے اتنا وظیفہ مل جاتا تھا کہ آسانی سے گزربسر کر لیتے تھے۔ اور اس نے انہیں وقت دیا کہ وہ اپنی توجہ اس ڈائری کی طرف کریں اور جو وہ بیگل کے سفر میں لکھتے رہے تھے اور ان پودوں اور جانوروں کے نمونوں کا تجزیہ کریں جو انہوں نے اکٹھے کئے تھے۔ یہ لگایا جانے والا وہ وقت تھا جس نے زندگی کے بارے میں بڑے سوالات کی وضاحت کا کام شروع کیا۔

ڈارون کو اپنے سفر کے دوران جو اکٹھا کیا تھا، اسے اکٹھا کرنے کے دوران انہیں کوئی خاص بصیرت نہیں ملی تھی لیکن تجزیے کے دوران انہیں اندازہ ہونے لگا کہ ان کے جمع کردہ نمونے اس سے زیادہ دلچسپ ہیں جتنا ان کا خیال تھا۔

مثلاً، فوسلز کا ایک گروپ “جانشینی کا قانون” تجویز کرتا تھا۔ جنوبی امریکہ کے ممالیہ ایک کے بعد دوسری قسم کے آتے رہے تھے۔ اس کے علاوہ جزائرِ گالاپاگوس کے موکنگ برڈ کی انواع سے اندازہ ہوتا تھا کہ انواع جزائر سے خاص تھیں۔ اور کچھوے بھی یہی اشارہ کر رہے تھے۔ (چڑیوں کی چونچوں کے بارے میں ڈارون کی کہانی بھی نیوٹن کے سیب جیسی ہے۔ دلچسپ لیکن غلط اور گمراہ کن)۔ سب سے دلچسپ رہیا کا نمونہ تھا جو شترمرغ کی طرز کا پرندہ تھا۔ یہ الگ نوع تھی جو اس کی زیادہ عام پائی جانے والی نوع سے الگ بھی رہتی تھی اور کئی جگہوں پر دونوں انواع کا مقابلہ بھی رہتا تھا۔ یہ مشاہدہ اس وقت کی روایتی فکر کی مخالفت کرتا تھا کہ ہر نوع اپنے خاص ماحول کے حساب سے ہے۔ روایتی خیال کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑتا تھا جہاں پر ایک جیسی انواع ایک جگہ پر مقابلے پر ہوں۔

جس طرح یہ سٹڈیز بڑھتی گئی، ویسے ہی ڈارون کی اپنی سوچ بھی بدلتی گئی۔ ایک اور طرح کی ذہنی رکاوٹ تھی جو چارلس بیبج نے دور کی۔ بیبج ایک بڑے سائنسدان تھے اور آج ان کا نام مکینیکل کمپیوٹر کی ایجاد کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہ کیمبرج میں اس پوزیشن پر تھے جہاں پر کبھی نیوٹن رہے تھے۔ انہوں نے فکری محفلوں کی میزبانی کی سیریز کی اور ایک کتاب لکھ رہے تھے۔ ان کا مرکزی خیال یہ تھا کہ خدا کے کام کرنے کا طریقہ ہر وقت فرمان جاری کرتے رہنے کا نہیں ہے بلکہ قوانین کے ذریعے ہے۔ اور طلسم و فسوں کاری کے بجائے اصول و ضوابط کا یہ طریقہ زیادہ عظیم ہے۔ اور یہ اس دنیا کا عظیم طلسم ہے۔

آج تو سائنس کا کوئی بھی طالبعلم یہ جانتا ہے کہ ہم فطری عوامل کی وجوہات فطرت میں تلاش کرتے ہیں۔ نیچرل ازم کا میٹافزیکل خیال آج سائنس کے بنیادی ستونوں میں سے ہے۔ اور اس پر کوئی تنازعہ یا اختلاف نہیں لیکن ڈارون جس دور کے تھے، اس میں بیبج کی یہ فکر نئی تھی۔  بیبج کا پیشکردہ یہ خیال ڈارون کے لئے بہت پرکشش تھا۔

آہستہ آہستہ، ڈارون اس کے قائل ہو گئے کہ انواع اٹل نہیں جنہیں محض کسی خاص ایکولوجیکل کونے کو پرُ کرنے کے لئے فرمان کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے بلکہ یہ فزیکل قوانین کے تحت ایکولوجی کا کونہ پر کرتی ہیں۔ 1837 کی گرمیوں میں وہ ارتقا کے خیال تک پہنچ چکے تھے لیکن اس کے بارے میں تھیوری بنانے سے بہت دور تھے۔

ڈارون نے جلد ہی یہ خیال بھی ترک کر دیا کہ بائیولوجیکلی پرفیکٹ نوع صرف انسان ہے جبکہ باقی مخلوقات کمزوریاں اور خامیاں رکھتی ہیں۔ اب وہ قائل ہو چکے تھے کہ اس دنیا میں پائی جانے والی ہر نوع ہی بے حد شاندار ہے جو اپنے ماحولیاتی نکڑ میں پرفیکٹ ہے یا پرفیکٹ کے قریب ہے۔ اور اس سب کی وجہ ڈارون کی نظر میں، خدا کے بنائے گئے ری پروڈکشن کے قوانین ہیں جو ایسا کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ (یہ فقرہ ان کی ڈائری سے ہے)۔

اگر یہ قوانین انواع کو ماحول کے مطابق ڈھلنے کا موقع دیتے ہیں تو وہ قوانین آخر ہیں کیا؟ جس طرح نیوٹن نے فزیکل یونیورس کو حرکت کے ریاضیاتی قوانین کے ذریعے سمجھا تھا، ڈارون بھی ویسے ہی اس کا مکینزم تلاش کر رہے تھے۔

نیوٹن کی طرح ڈارون بھی اپنی نوٹ بکس کو اپنی سوچ اور خیالات سے بھر رہے تھے۔ اور ہم ان کے خیالات کا ارتقا دیکھ سکتے ہیں۔ انواع کے تعلق کا تجزیہ اور سفر کے دوران فوسلز کا مشاہدہ۔ انہوں نے ایک ایپ، ایک اورنگاٹن اور لندن چڑیا گھر کے بندروں کا مشاہدہ کیا۔ ان کے جذبات کو نوٹ کیا۔ انہوں نے کبوتر، کتے اور گھوڑے پالنے والوں کے کام کا مشاہدہ کیا۔ مصنوعی سلیکشن کا مشاہدہ کیا۔

ستمبر 1838 کو انہوں نے مالتھس کا مشہور مضمون پڑھا جو آبادی کے بڑھنے کی ریاضی پر تھا اور اس نے انہیں اس دریافت کی طرف جانے میں مدد کی جو بتاتی ہے کہ ارتقا آخر ہوتا کیسے ہے۔

مالتھس کی لکھی کتاب خوشگوار نہیں تھی۔ ان کے خیال میں دکھ انسانیت کی اور اس دنیا کی فطری اور حتمی حالت تھی کیونکہ آبادی کی بڑھوتری ہمیشہ خوراک اور وسائل کے پرتشدد مقابلے کی طرف لے کر جائے گی۔ اور وسائل ایک دو تین چار پانچ کی صورت میں ہی بڑھ سکتے ہیں، جبکہ آبادی ایک دو چار آٹھ سولہ بتیس کی صورت میں۔

آج ہم جیومیٹرک پروگریشن کی طاقت کے بارے میں بہت بہتر معلومات رکھتے ہی۔ اگرچہ ڈارون ریاضی میں اتنا اچھے نہیں تھے لیکن اندازہ لگا لیا تھا کہ مالتھس کا منظرنامہ اصل میں رونما نہیں ہوتا اور مقابلے کی وجہ سے اوسطا بچتے کم ہی ہیں۔ وہ بچتے ہیں جو بچنے کے لئے زیادہ بہتر ہوں۔ انہوں نے اس عمل کو نیچرل سلیکشن کہا۔

اپنی آپ بیتی میں انہوں نے لکھا ہے کہ مالتھس کا مضمون پڑھنے کے بعد انہیں یہ اچانک ہی خیال سوجھا تھا لیکن ان کی ڈائری یہ کہانی نہیں بتاتی۔ اور یہ سمجھنے کے لئے بہت اہم نکتہ ہے۔ کبھی بھی نئے آئیڈیا اچانک چھلانگ لگا کر نفیس انداز سے ذہن میں نہیں امڈ آتے۔ نہ صرف فرد کے ساتھ ایسا ہے بلکہ معاشروں کے ساتھ بھی۔ نئے خیالات کسی پودے کی طرح موافق حالات میں اگ سکتے ہیں اور ان پر کی جانے والی محنت کے بعد یہ رفتہ رفتہ بڑھتے ہیں۔ مالتھس کو پڑھنے کے بعد انہیں سرا تو مل گیا ہو گا لیکن یہاں سے لے کر اپنی کتاب لکھنے میں برسوں کا فاصلہ ہے اور اس دوران وہ ایک فکری جدوجہد کرتے رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک مسئلہ یہ تھا کہ ڈارون کو یہ تو پتا لگ گیا تھا کہ ہر نسل سے جو فٹ نہیں ہوں گے، وہ ختم ہو جائیں گے اور ہر نسل کے بعد مفید خاصیت زیادہ واضح ہوتی جائے گی لیکن نئی انواع؟؟ ایسی انواع جس کے افراد اصل سے اتنے مختلف ہوں کہ یہ آپس میں اختلاط نہ کر سکیں اور بارآور بچوں کو جنم نہ دے سکیں۔ ڈارون اس کے جواب تک بھی پہنچ گئے جو رینڈم ویری ایشن تھا، جو کسی جاندار میں نیا ویری انٹ پیدا کر دیتی ہے۔

اب ڈارون کی تھیوری یکجا ہو سکتی تھی۔ رینڈم ویری ایشن اور نیچرل سلیکشن سے نئے افراد آتے ہیں جن کی نئی خاصیتیں ہو سکتی ہیں اور ان میں سے مفید کے آگے بڑھنے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔ اور اس طرح اپنے ماحول کے مطابق نئی انواع آتی ہیں۔

اپنا سفر ختم ہونے کے چھ سال بعد انہوں نے اپنے خیالات کا ابتدائی خاکہ بنا لیا تھا لیکن ابھی اس کو مکمل کرنے کے لئے سترہ برس کی مزید محنت درکار تھی۔ یہ تجربات، مشاہدات اور طویل جدوجہد کے سال تھے۔

(جاری ہے)