“یہ بہت بدقسمتی ہوتی اگر کچھ ایسا کیا جاتا جس سے اس خیال کو تقویت ملتی کہ فطرت کے بارے میں علم اور خدا پر یقین میں کوئی تنازعہ ہے”۔ کارلائل ...
“یہ بہت بدقسمتی ہوتی اگر کچھ ایسا کیا جاتا جس سے اس خیال کو تقویت ملتی کہ فطرت کے بارے میں علم اور خدا پر یقین میں کوئی تنازعہ ہے”۔ کارلائل کے بشپ کے یہ الفاظ اس سائنسدان کی آخری رسومات پر کہے گئے تھے۔ ان کا تابوت اٹھانے والوں میں دو ڈیوک، ایک ارل اور رائل سوسائٹی کے سابق، موجودہ اور آنے والے صدور بھی تھے۔ انہیں شاہی چرچ ویسٹ منسٹر ایبی میں دفن کیا گیا اور ان کی قبر آئزک نیوٹن سے چند فٹ کے فاصلے پر تھی۔ یہ اس شخص کی شاندار اختتامی رسومات تھیں اور ان کی سائنسی خدمات کا اعتراف تھا جس کے سب سے بڑے سائنسی کارنامے کو پہلے نظرانداز کیا گیا تھا اور بعد میں انہیں زہریلی تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا۔
ڈارون کی شہرہ آفاق کتاب کے کامیاب ہونے پر خود ان کے پبلشر کو شک تھا جس نے صرف 1250 کاپیاں چھپوائی تھیں اور یہ شک بلاوجہ نہیں تھا۔ چھاپنے سے پہلے جن سے ریویو کروایا گیا تھا، ان میں سے ایک نے تجویز یہ دی تھی کہ اس کتاب کو نہ چھاپا جائے کیونکہ لوگ اس تھیوری میں دلچسپی نہیں لیں گے۔ ایک اور تجویز دی گئی تھی کہ ڈارون کبوتروں کے بارے میں کتاب لکھیں اور اپنی تھیوری کو مختصراً اس کے ایک باب میں لکھ دیں کیونکہ کبوتر تو ہر کسی کو پسند ہوتے ہیں۔ یہ تجویز ڈارون تک پہنچا دی گئی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ اور ایسا نہیں کہ وہ اپنی کتاب کے مقبول ہو جانے پر پراعتماد تھے، انہوں نے کہا کہ “خدا ہی جانے کہ اس بارے میں کیا ردِعمل ہو گا”۔
لیکن ڈارون کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ “انواع کی ابتدا” نام کی کتاب 24 نومبر 1859 کو شائع ہوئی۔ اسکی تمام کاپیاں کتاب فروشوں نے جلد ہی اٹھا لیں اور اس روز سے لے کر آج تک، یہ کتاب مسلسل پرنٹ میں ہے۔ یہ تحریر بیس سال تک بہت ہی صبر اور لگن کے ساتھ کی جانے والے محنت کا نتیجہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارون سے پہلے آنے والوں نے بیکٹیریا سے ممالیہ تک زندگی کی اقسام کے بارے میں بہت کچھ جان لیا تھا لیکن ایک مرکزی سوال حل طلب تھا۔ آخر کیوں؟ ان انواع کی خاصیتیں ویسی ہی کیوں ہیں؟ جس طرح نیوٹن سے پہلے فزکس میں اور پیریوڈک ٹیبل سے پہلے کیمسٹری میں تھا، ویسے ہی بائیولوجی میں ڈیٹا تو بہت تھا لیکن بائیولوجسٹ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ سب کیسے اکٹھا جڑتا ہے۔ اس سب کا آپس میں آخر ربط کیا ہے۔ اور اس میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔
ایسا نہیں ہے کہ ڈارون سے پہلے ایسے مفکر نہیں رہے جنہوں نے ارتقا کے بارے میں غور نہ کیا ہو۔ یہ قدیم یونانیوں کے دور میں بھی سوچا گیا تھا۔ عرب دنیا میں بھی اور ڈارون کے اپنے دادا ایراسمس ڈارون نے بھی۔ لیکن ڈارون سے پہلے پیشکردہ ارتقا کی تھیوریاں مبہم تھیں اور اتنے مضبوط شواہد پر نہیں تھیں کہ وہ رائج فکر بن سکتیں۔
ڈارون سے پہلے ارتقا کے خیالات قیاس آرائی تھے جبکہ ڈارون کی تھیوری نے اسے بہت احتیاط اور توجہ سے کی گئی سائنس بنا دیا۔ ان کی ہر دلیل اور شواہد کا ہر ٹکڑا احتیاط سے جمع کردہ تھا۔ اور زیادہ اہم یہ کہ “ارتقا ہوا” معلوم کر لینا تو آسان ہے لیکن اس کے پیچھے مکینزم کیا تھا؟ یہ اصل سوال تھا۔ ڈارون نے اس طریقے کو دریافت کیا اور اسے ایک مربوط تھیوری بنا دیا۔ اور اس کے بعد ۔۔۔۔ فزکس اور کیمسٹری کی طرح بائیولوجی بھی باقاعدہ سائنس بن گئی جس کی بنیاد فزیکل قوانین پر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چارلس ڈارون کا تعلق متمول گھرانے سے تھا۔ ان کی دلچسپی کیڑوں اور جانوروں سے رہی تھی۔ انہیں میڈیسن پڑھنے کے لئے ایڈنبرا یونیورسٹی بھیجا گیا لیکن یہ اچھا فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔ نہ ان سے بہتا خون اور چیختے مریض برداشت ہوئے اور نہ ہی یہ پسند آیا۔ 1827 میں ایڈنبرا بغیر ڈگری کے چھوڑ دیا۔ اگلی کوشش کیمبرج کی تھی۔ یہاں ڈگری مکمل کی اور 178 کی کلاس میں دسویں پوزیشن لی۔ یہاں جیولوجی سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ یہاں انہیں خط ملا جس میں انہیں بیگل میں دنیا کے سفر کے لئے کہا گیا تھا۔
ہینسلو کا یہ خط انہونے واقعات کے سلسلے کا نتیجہ تھا۔ یہ اس وقت شروع ہوا تھا جب بیگل کے سابق کپتان پرنگل سٹوکس نے خود کو گولی مار لی تھی اور وہ زخم خراب ہونے پر گینگرین سے فوت ہو گئے تھے۔ سٹوکس کے نائب فٹزرائے جہاز کو واپس لے آئے تھے لیکن انہیں سٹوکس کی قسمت کا پتا تھا۔ کئی سال کے اکیلے سفر میں جہاز کے کپتان کو ڈیرپیشن ہو جانا ان کی اس حرکت کا باعث بنا تھا۔ کیونکہ کپتان عملے سے الگ تنہا رہتے تھے۔ خود فٹزرائے کے چچا اس سے پہلے خودکشی کر چکے تھے اور فٹزرائے اپنے لئے ایسا انجام نہیں چاہتے تھے۔ جب انہیں کپتان بنایا گیا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں سفر میں کسی ایسی شخص کی ضرورت ہے جس سے تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ نیچرلسٹ کا کام جہاز کا ڈاکٹر کیا کرتا تھا لیکن فٹزرائے نے اصرار کیا کہ انہیں ایسا جینٹلمین اس رول میں چاہیے جو ان کا دوست بھی بن سکے۔
ڈارون سے پہلے یہ پوزیشن کئی لوگوں کو آفر کی گئی تھی۔ ان میں سے اگر کوئی بھی حامی بھر لیتا تو ڈارون چرچ میں خاموشی کی زندگی گزار دیتے۔ ویسے ہی جیسے اگر نیوٹن کی ملاقات ہیلے سے نہ ہوتی تو وہ اپنا کام کبھی مکمل نہ کرتے۔ فٹزرائے نے جو پوزیشن آفر کی تھی، اس میں تنخواہ صفر تھی۔ سفر میں جو نمونے اکٹھے کئے ہوتے، انہیں بیچ کر جو آمدنی ہوتی، بس وہی ملنی تھی۔ اور اس کے لئے کوئی تیار نہیں ہوا تھا۔ ایسے میں یہ آفر بائیس سالہ ڈارون کو ملی جن کے لئے یہ ایک ایڈونچر کا موقع تھا۔ ڈارون نے حامی بھر لی۔ اور اس نے ان کی اپنی زندگی اور سائنس کی تاریخ بدل دی۔
(جاری ہے)