Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

خوردبین (50)

ٹیلی سکوپ نے انٹلکچوئل دنیا میں ہلچل مچائی تھی، ویسا ہی کام خوردبین نے کیا۔ مائیکروسکوپ کو بھی تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ قرونِ وسطیٰ کے کئی س...


ٹیلی سکوپ نے انٹلکچوئل دنیا میں ہلچل مچائی تھی، ویسا ہی کام خوردبین نے کیا۔ مائیکروسکوپ کو بھی تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ قرونِ وسطیٰ کے کئی سکالر اس پر بھروسہ کرنے کو تیار نہ تھے کہ جو وہ دیکھ رہے ہیں، وہ اصل ہے۔ اس ایجاد کو قابلِ قبول ہوتے پچاس برس کا عرصہ لگا۔

اس کے ایک بڑے چیمپئن رابرٹ ہک تھے جنہوں نے کیمسٹری اور فزکس کی طرح بائیولوجی میں بھی حصہ ڈالا۔ انہوں نے بہت غیرمعمولی مشاہدات خود بنائے ہوئے آلات سے کئے جنہیں وہ بہتر کرتے رہے۔ 1665 میں تیس سالہ ہک نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام مائیکروگرافیا تھا۔ اس میں ستاون حیرت انگیز ڈرائنگ تھیں جو ہک نے بنائی تھیں۔ انہوں نے پہلی بار جوں کے جسم، پسو کی اناٹومی، مکھی کی آنکھ، شہد کی مکھی کے ڈنک جیسی چیزوں سے ہمیں متعارف کروایا۔ سادہ جانوروں کے ایسے جسمانی اعضا ہو سکتے ہیں، ایک بڑی چونکا دینے والی حقیقت تھی۔ اس سے پہلے کبھی کیڑوں کو اتنا بڑے سائز میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ جس طرح گلیلیو نے چاند کی طرف ٹیلی سکوپ کر کے پہاڑ اور وادیاں دریافت کر کے مروجہ خیالات کو ہلا ڈالا تھا، ویسا ہی کام ہک کے شیشے کے اس استعمال نے کیا۔

جس سال یہ کتاب شائع ہوئی، اس سال لندن میں طاعون کا سال تھا جس نے آبادی کے ہر ساتویں شخص کو لقمہ بنا لیا۔ اور اگلے سال لندن عظیم آتشزدگی کی زد میں آ گیا۔ لیکن اس سب گڑبڑ کے باوجود ہک کی کتاب پڑھی گئی اور بیسٹ سیلر بن گئی۔

ہک کے کام نے سکالرز کی نئی جنریشن کو متاثر کیا۔ کئی لوگوں نے انکا مذاق بنایا جن کے لئے اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ بھلا ایک آلے سے دیکھی گئی تصاویر پر اعتبار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ہک کی تصاویر پر مبنی ایک طنزیہ ڈرامہ تھامس شیڈویل نے لکھا جس میں ان کی کتاب اور اس میں بنی تصاویر کا مذاق بنایا گیا تھا۔ ہک کو اس ڈرامے کو دیکھنے کے لئے بلایا گیا۔ ان کو کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ اس میں طنز کا نشانہ وہ خود ہیں۔

ایک شخص جسے ہک کے دعووں پر کوئی شک نہیں تھا، وہ اینتون وین لیووینوہوک تھے، جو شوقیہ سائنسدان تھے۔ اور کپڑوں کے تاجر کے پاس کپڑے، ربن اور بٹن کا بزنس تھا۔ نہ وہ کالج گئے تھے اور نہ ہی لاطینی زبان آتی تھی جو اس وقت سائنس کی زبان سمجھی جاتی تھی لیکن انہیں کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور جو کتاب انہیں پسند آئی تھی وہ رابرٹ ہک کی کتاب تھی جس نے ان کی زندگی بدل دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مائیکروگرافیا کی ابتدائیے میں لکھا تھا کہ سادہ خوردبین کیسے بنائی جا سکتی ہے اور لیووینوہوک کو عدسے گرائنڈ کرنے کا کچھ تجربہ تھا۔ وہ اسے کپڑوں کے معائنے کے لئے استعمال کرتے تھے لیکن یہ کتاب پڑھنے کے بعد وہ جنونی شیشہ گر بن گئے۔ گھنٹوں نئی مائیکروسکوپ بنانے اور ان سے مشاہدے کرنے میں صرف کرتے۔

شروع میں انہوں نے ہک کے تجربات ہی دہرائے لیکن جلد ہی ان سے آگے نکل گئے۔ ہک کی مائیکروسکوپ بیس سے پچاس گنا تک میگنیفائی کرتی تھیں اور ان سے کئے گئے مشاہدات نے رائل سوسائٹی کے ممبران کو ورطہ حیرت میں ڈال دی اتھا۔ 1673 میں رائل سوسائٹی کے سیکرٹری کو یہ خط ملا ہو گا کہ ایک کپڑے کے غیرتعلیم یافتہ تاجر نے ایسی خوردبینیں بنا لی ہیں جو اس سے دس گنا زیادہ طاقتور ہیں تو نہ جانے ان کا کیا ری ایکشن ہوا ہو گا۔

لیووینوہوک نے یہ کام نئی ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ ہاتھ کی مہارت سے کیا تھا۔  ایک ہی پیس میں عدسہ جو خاص منتخب شیشے سے بنا تھا اور خاص ریت کا انتخاب کیا گیا تھا جس کا خام مال انہوں نے خود حاصل کیا تھا۔ اور ہر شے کی سٹڈی کے لئے اس کو مستقل نصب کیا اور اس کے لئے نئی خوردبین بنائی۔ ایسا کیوں کیا؟ اس کی وجہ انہوں نے کبھی نہیں بتائی۔ لیووینوہوک اپنے طریقوں کو خفیہ رکھتے رہے اور نیوٹن کی طرح تنقید سے بچنے کے خواہشمند تھے۔ انہوں نے پانچ سو سے زیادہ عدسے بنائے اور کسی کو ٹھیک معلوم نہیں کہ کیسے بناتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب لیووینوہوک کے کام کی خبر برطانیہ پہنچی تو برطانیہ اور ڈچ بحریہ ایک دوسرے پر گولے برسانے میں مصروف تھیں اور اینگلو ڈچ جنگیں جاری تھیں لیکن اس نے اولڈنبرگ کو لیووینوہوک سے رابطہ کر کے انہیں اپنا کام رائل سوائٹی کو رپورٹ کر کے  شئیر کرنے سے نہیں روکا اور لیووینوہوک نے ایسا ہی کیا۔ ان کا ساتھ لکھا ہوا نوٹ معذرت خواہانہ تھا، “میں نے بغیر کسی کی مدد کے اور صرف تجسس کی خاطر یہ کام کیا ہے۔ میرے شہر میں کوئی اور فلسفی نہیں جو اس میں دلچسپی لیتے ہوں، اس لئے میری غلطیوں سے درگزر کیجئے گا”۔

لیووینوہوک کا کام ہک سے زیادہ بڑا تھا۔ جہاں پر ہک نے چھوٹے کیڑوں کے جسمانی اعضا دیکھے تھے، وہاں پر لیووینوہوک نے ایسے جاندار دیکھ لئے تھے جو آنکھ سے نظر نہیں آتے تھے۔ ایسے جانداروں کی پوری کالونیاں دیکھ لی تھیں جن کی موجودگی کا کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا۔ انہوں نے ان جانداروں کو اینیمل کیول کہا۔ آج انہیں مائیکروآرگنزم کہا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچاس سال میں لیووینوہوک نے رائل سوسائٹی کو سینکڑوں خطوط لکھے اور زیادہ تر محفوظ ہیں۔ اولڈنبرگ نے ان کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور سوسائٹی نے انہیں شائع کیا۔ ان کے کام نے لوگوں کو ششدر کر دیا۔ “تالاب کے پانی کے ایک قطرے میں جانداروں کی پوری دنیا آباد ہے جو ہماری نظر سے پوشیدہ ہے” بڑا انکشاف تھا۔ لیووینوہوک نے اپنی خوردبین کا انسانی ٹشو کی طرف رخ کیا۔ خون کی کیپلری دیکھیں، سپرم دیکھے۔ انہوں نے ہمیں دکھایا کہ ہم بنے کیسے ہیں۔ اور یہی تمام جانداروں کا ڈیزائن ہے۔

ہک کی طرح لیووینوہوک کے نقاد بھی تھے جن کا خیال تھا کہ یہ سب غلط بیانی کی جا رہی ہے۔ لیووینوہوک نے اس کے جواب میں اپنے مشاہدات کے عینی گواہوں سے دستخط شدہ حلفیہ بیان پیش کئے۔ شہر کے مذہبی راہنما کو بھی بلا کر دکھایا کہ وہ دیکھنے کے بعد مجمع میں سب کو بتائیں۔ زیادہ تر سائنسدانوں نے لیووینوہوک پر یقین کیا۔ ہک نے ان کی تحقیق کے کچھ حصے خود بھی دہرا لئے۔

جب بات پھیلی تو ہر طرف سے لوگ لیووینوہوک کی دکان پر آنے لگے کہ وہ ان کے چھوٹے جانوروں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ برطانیہ کے چارلس دوئم اور زارِ روس پیٹر دی گریٹ بھی ان مہمانوں میں سے تھے۔ کپڑے کی دکان چلانے والے کے لئے یہ بڑی کامیابی تھی۔

لیووینوہوک کا انتقال اکانوے برس کی عمر میں ہوا۔ اگلے ڈیڑھ سو برس تک جراثیم کا کوئی سائنسدان ان کے مقابلے کا نہیں آیا۔ مرنے سے پہلے انہوں نے رائل سوسائٹی کو اپنے آخری دو خطوط لاطینی میں ترجمہ کروا کر بھیجے۔ اور ساتھ ایک تحفہ بھی۔ یہ ان کی بہترین خوردبینوں کی کلکشن تھی جو انہوں نے اس سے پہلے کسی کو نہیں دکھائے تھے۔ آج ان میں سے چند باقی ہیں جو کام کرتی ہیں۔ 2009 میں ان میں سے ایک نیلام ہوئی اور تین لاکھ بارہ ہزار پاوٗںڈ کی بولی لگی۔

اپنی طویل زندگی میں لیووینوہوک نے کئی شعبوں کو اسٹیبلش کرنے میں مدد کی جو بعد میں بائیولوجی بنے۔ مائیکروبائیولوجی، ایمبریولوجی، اینٹومولوجی، ہسٹولوجی ۔۔۔ ان کے خطوط بائیولوجی کی تاریخ کی اہم ترین خط و کتابت سمجھے جاتے ہیں۔ فزکس میں گلیلیو اور کیمسٹری میں لاووسیے کی طرح انہوں نے بائیولوجی کی فیلڈ میں سائنسی روایت شروع کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بائیولوجی کے گلیلیو ایک لحاظ سے ہک اور لیووینوہوک تھے جنہوں نے عدسے کی مدد سے مشاہدات سے نئی دنیا کھولی۔ اس سب کی وضاحت کے لئے بائیولوجی کو بھی ایک عدد نیوٹن کی ضرورت تھی۔ اور یہ 1809 میں پیدا ہونے والے سائنسدان تھے۔

(جاری ہے)