نیوٹن کی پیدائش سے پہلے سائنسدان اور فلسفی فرانسس بیکن نے لکھا کہ “نیچر کی سٹڈی میں کامیابی شاذ ہی ہوتی ہے”۔ جبکہ نیوٹن کی موت کے بعد فزسٹ ا...
نیوٹن کی پیدائش سے پہلے سائنسدان اور فلسفی فرانسس بیکن نے لکھا کہ “نیچر کی سٹڈی میں کامیابی شاذ ہی ہوتی ہے”۔ جبکہ نیوٹن کی موت کے بعد فزسٹ اور مذہبی راہنما راجر بوسووچ لکھتے ہیں، “اگر فورس کے تمام قوانین کا علم ہو اور ہر شے کی پوزیشن، رفتار اور سمت کا علم ہو تو یہ اصولی طور پر ممکن ہے کہ مستقبل کی ہر شے کی پیشگوئی کی جا سکے”۔
سوچ میں آنے والی تبدیلی اور اس نئے اعتماد کی بڑی وجہ نیوٹن کا کیا گیا کام تھا۔ نیوٹن سے پہلے اور نیوٹن کے بعد کے ادوار بلاشبہ سائنسی فکر کے الگ ادوار تھے۔ اب بہت سے پرانے سائنسی معموں کے گہرے اور پریسائز جواب دئے جا سکتے تھے۔ نیوٹن کے کام نے ان شعبوں میں بھی پیشرفت ممکن کر دی تھی جسے انہوں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوٹن کے کام کی شہرت نے ان کی زندگی بدل دی۔ نیوٹن سوشل ہو گئے۔ اگلے بیس برس میں انہوں نے الکیمیا پر توجہ اگرچہ ختم تو نہیں کی لیکن کافی کم کر دی۔ مارچ 1687 میں کیمبرج یونیورسٹی اور بادشاہ جیمز دوئم کے درمیان ہونے والی لڑائی میں نیوٹن نے یونیورسٹی کی طرف سے حصہ لیا (بادشاہ یونیورسٹی پر پریشر ڈال رہے تھے کہ ایک کیتھولک راہب کو چرچ آف انگلینڈ کی وفاداری کا حلف اٹھائے بغیر ڈگری دے دی جائے)۔ اس کے اثر نے انہیں سیاسی شخصیت بھی بنا دیا اور یونیورسٹیوں کی سینیٹ نے انہیں ووٹ دے کر نمائندے کے طور پر 1689 میں برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کر لیا۔
کیا اچھا سائنسدان موثر سیاستدان بھی ہو گا؟ اگر اس کی مثال کے لئے نیوٹن کو دیکھا جائے تو جواب نفی میں ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبر کے طور پر انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ صرف ایک بار بولے جو پارلیمنٹ میں آنے والے سرد ہوا کے جھونکوں کی شکایت کے لئے تھا لیکن اپنی ممبرشپ کے دوران لندن کی اشرافیہ اور دانشور حلقوں سے ان کے اچھے تعلقات بن گئے۔ 1696 میں کیمبرج میں 35 سال گزارنے کے بعد نیوٹن نے اکیڈمک کیرئیر چھوڑ دیا۔ یونیورسٹی کے اعلیٰ ترین عہدے سے ایک چھوٹے بیوروکریٹک عہدے پر چلے گئے جو ٹکسال کے وارڈن کا تھا۔
اس کی ایک بڑی وجہ وہی تھی جو آج بھی بہت عام ہے۔ بہترین دماغوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سائنس کی طرف نہیں جاتے۔ سائنس مالیاتی لحاظ سے بہت پرکشش نہیں ہے۔ وارڈن کے طور پر ان کی تنخواہ پہلے سے چار گنا زیادہ تھی اور چار سو پاوٗنڈ سالانہ تھی۔ مزید ترقی کا موقع بھی تھا۔ 1700 میں جب ٹکسال کے ماسٹر کی پوزیشن خالی ہوئی تو یہ نیوٹن کو مل گئی اور یہاں پر انکی تنخواہ 1650 پاونڈ تھی جو ایک عام ہنرمند سے 75 گنا تھی۔ نیوٹن اگلے ستائیس برس لندن میں شان سے رہے اور اپنے نئے رتبے کو پسند کرتے رہے۔
ہک کی وفات کے بعد 1703 میں وہ رائل سوسائٹی کے صدر منتخب ہو گئے۔ عمر اور کامیابی نے ان کا مزاج دھیما نہیں کیا۔ انہوں نے سوسائٹی کو آہنی ہاتھ والے ڈکٹیٹر کی طرح چلایا۔ قواعد یا تہذیب کے خلاف کسی بھی رویے پر ممبران کو میٹنگ سے باہر نکال دیا کرتے۔ اپنی پوزیشن کو اپنا کریڈٹ شئیر کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے استعمال کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رائل سوسائٹی کی 23 مارچ 1726 کی کتاب میں انٹری ہے، “سر آئزک نیوٹن کی وفات کی وجہ سے آج کوئی میٹنگ نہیں ہو گی”۔ نیوٹن چوراسی سال کی عمر میں اس سے چند روز قبل انتقال کر گئے تھے۔
نیوٹونین سائنس کی کامیابی تک چرچ کی سائنس سے مخالفت بھی ختم ہو چکی تھی اور نئے خیالات کے لئے قبولیت بڑھ گئی تھی۔ کاپرنیکس تھیوری اب اٹلی کے کیتھولک آسٹرونومر بھی پڑھتے تھے۔ سائنس کے صنعت میں اور لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے فوائد واضح تھے۔ سائنس اب احترام کی جانے والی انٹرپرائز بن چکی تھی۔ یورپ کا کلچر بدل رہا تھا۔ ارسطو، بطلیموس اور دیگر قدیم فکری بت گرائے جا چکے تھے۔
گلیلیو کی وفات کے بعد انہیں خاموشی سے دفنا دیا گیا تھا لیکن نیوٹن کو ویسٹ منسٹر ایبے میں دفنایا گیا اور ایک بڑی یادگار کھڑی کی گئی جس میں ان کی دریافتوں کو دکھایا گیا۔ ان کے کتبے پر لاطینی زبان میں یہ لکھا ہے۔
“یہاں آئزک نیوٹن دفن ہیں، جن کے ذہن کی طاقت عام انسانوں سے بہت بلند تھی۔ انہوں نے ریاضی کے اصولوں سے سیاروں کے مدار معلوم کئے، دمدار ستاروں کے راستے بتائے، سمندر کی لہروں کا، روشنی کی کرنوں کا، رنگوں کا بتایا۔ وہ جو کوئی اور عالِم نہیں بتا سکتا تھا۔ فطرت، ماضی اور مقدس کتابوں کے معنوں کی جستجو میں محنتی، ذہین اور وفادار۔ اپنے فلسفے سے خدا کی عظمت اور بڑائی معلوم کی اور اپنی زندگی سے خدا کے احکام کا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا۔ ہم، فانی انسان، شکر گزار ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان ایسا شخص موجود رہا جو بے شک نسلِ انسانی کا ہیرا تھا۔ پیدائش پچیس دسمبر 1642۔ وفات 20 مارچ 1726”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوٹن اور گلیلیو کی زندگی کو ملائیں تو 160 سال کا عرصہ تھا اور ان دونوں نے ملا کر وہ دور دیکھا جسے سائنسی ریولیوشن کہا جاتا ہے۔
اپنے طویل کیرئیر میں نیوٹن نے ہمیں بہت کچھ بتایا۔ انہوں نے ایک ہی فورس دریافت کی تھی جو گریویٹی تھی لیکن ان کا خیال تھا کہ ہر قسم کی تبدیلی کی وجہ فورس ہی ہے۔ کیمیائی ری ایکشن ہو یا روشنی کا انعکاس، وہ پراعتماد تھے کہ جب مستقبل میں ہم مادے کے چھوٹے ذرات کو سمجھ جائیں گے تو حرکت کے قوانین کائنات کے ہر مشاہدے کی وضاحت کر دیں گے۔
نیوٹن کا یہ تصور کہ ایٹم کے درمیان فورسز سمجھنا کئی نئی چیزوں کی وضاحت کر دے گا، درست تھا لیکن اس نے ابھی ڈھائی سو سال بعد آنا تھا۔ اور جب یہ آیا تو اس کے قوانین نیوٹن کے بنائے فریم ورک کے مطابق نہیں تھے۔ اس نے ایک بالکل نئی دنیا عیاں کی جو ہماری حسیات کے تجربے سے پرے تھی۔ ایک نئی حقیقت جس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا تھا۔ ایسی حقیقت جس کا آرکیٹکچر اتنا exotic تھا کہ نیوٹن کے مشہور قوانین کو بالکل ہی الگ قوانین سے بدل دینا پڑا تھا۔ ایسے قوانین سے، جو نیوٹن کے لئے ارسطو کے قوانین سے بھی زیادہ ناقابلِ فہم ہوتے۔
(جاری ہے)
سوچ میں آنے والی تبدیلی اور اس نئے اعتماد کی بڑی وجہ نیوٹن کا کیا گیا کام تھا۔ نیوٹن سے پہلے اور نیوٹن کے بعد کے ادوار بلاشبہ سائنسی فکر کے الگ ادوار تھے۔ اب بہت سے پرانے سائنسی معموں کے گہرے اور پریسائز جواب دئے جا سکتے تھے۔ نیوٹن کے کام نے ان شعبوں میں بھی پیشرفت ممکن کر دی تھی جسے انہوں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوٹن کے کام کی شہرت نے ان کی زندگی بدل دی۔ نیوٹن سوشل ہو گئے۔ اگلے بیس برس میں انہوں نے الکیمیا پر توجہ اگرچہ ختم تو نہیں کی لیکن کافی کم کر دی۔ مارچ 1687 میں کیمبرج یونیورسٹی اور بادشاہ جیمز دوئم کے درمیان ہونے والی لڑائی میں نیوٹن نے یونیورسٹی کی طرف سے حصہ لیا (بادشاہ یونیورسٹی پر پریشر ڈال رہے تھے کہ ایک کیتھولک راہب کو چرچ آف انگلینڈ کی وفاداری کا حلف اٹھائے بغیر ڈگری دے دی جائے)۔ اس کے اثر نے انہیں سیاسی شخصیت بھی بنا دیا اور یونیورسٹیوں کی سینیٹ نے انہیں ووٹ دے کر نمائندے کے طور پر 1689 میں برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کر لیا۔
کیا اچھا سائنسدان موثر سیاستدان بھی ہو گا؟ اگر اس کی مثال کے لئے نیوٹن کو دیکھا جائے تو جواب نفی میں ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبر کے طور پر انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ صرف ایک بار بولے جو پارلیمنٹ میں آنے والے سرد ہوا کے جھونکوں کی شکایت کے لئے تھا لیکن اپنی ممبرشپ کے دوران لندن کی اشرافیہ اور دانشور حلقوں سے ان کے اچھے تعلقات بن گئے۔ 1696 میں کیمبرج میں 35 سال گزارنے کے بعد نیوٹن نے اکیڈمک کیرئیر چھوڑ دیا۔ یونیورسٹی کے اعلیٰ ترین عہدے سے ایک چھوٹے بیوروکریٹک عہدے پر چلے گئے جو ٹکسال کے وارڈن کا تھا۔
اس کی ایک بڑی وجہ وہی تھی جو آج بھی بہت عام ہے۔ بہترین دماغوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سائنس کی طرف نہیں جاتے۔ سائنس مالیاتی لحاظ سے بہت پرکشش نہیں ہے۔ وارڈن کے طور پر ان کی تنخواہ پہلے سے چار گنا زیادہ تھی اور چار سو پاوٗنڈ سالانہ تھی۔ مزید ترقی کا موقع بھی تھا۔ 1700 میں جب ٹکسال کے ماسٹر کی پوزیشن خالی ہوئی تو یہ نیوٹن کو مل گئی اور یہاں پر انکی تنخواہ 1650 پاونڈ تھی جو ایک عام ہنرمند سے 75 گنا تھی۔ نیوٹن اگلے ستائیس برس لندن میں شان سے رہے اور اپنے نئے رتبے کو پسند کرتے رہے۔
ہک کی وفات کے بعد 1703 میں وہ رائل سوسائٹی کے صدر منتخب ہو گئے۔ عمر اور کامیابی نے ان کا مزاج دھیما نہیں کیا۔ انہوں نے سوسائٹی کو آہنی ہاتھ والے ڈکٹیٹر کی طرح چلایا۔ قواعد یا تہذیب کے خلاف کسی بھی رویے پر ممبران کو میٹنگ سے باہر نکال دیا کرتے۔ اپنی پوزیشن کو اپنا کریڈٹ شئیر کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے استعمال کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رائل سوسائٹی کی 23 مارچ 1726 کی کتاب میں انٹری ہے، “سر آئزک نیوٹن کی وفات کی وجہ سے آج کوئی میٹنگ نہیں ہو گی”۔ نیوٹن چوراسی سال کی عمر میں اس سے چند روز قبل انتقال کر گئے تھے۔
نیوٹونین سائنس کی کامیابی تک چرچ کی سائنس سے مخالفت بھی ختم ہو چکی تھی اور نئے خیالات کے لئے قبولیت بڑھ گئی تھی۔ کاپرنیکس تھیوری اب اٹلی کے کیتھولک آسٹرونومر بھی پڑھتے تھے۔ سائنس کے صنعت میں اور لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے فوائد واضح تھے۔ سائنس اب احترام کی جانے والی انٹرپرائز بن چکی تھی۔ یورپ کا کلچر بدل رہا تھا۔ ارسطو، بطلیموس اور دیگر قدیم فکری بت گرائے جا چکے تھے۔
گلیلیو کی وفات کے بعد انہیں خاموشی سے دفنا دیا گیا تھا لیکن نیوٹن کو ویسٹ منسٹر ایبے میں دفنایا گیا اور ایک بڑی یادگار کھڑی کی گئی جس میں ان کی دریافتوں کو دکھایا گیا۔ ان کے کتبے پر لاطینی زبان میں یہ لکھا ہے۔
“یہاں آئزک نیوٹن دفن ہیں، جن کے ذہن کی طاقت عام انسانوں سے بہت بلند تھی۔ انہوں نے ریاضی کے اصولوں سے سیاروں کے مدار معلوم کئے، دمدار ستاروں کے راستے بتائے، سمندر کی لہروں کا، روشنی کی کرنوں کا، رنگوں کا بتایا۔ وہ جو کوئی اور عالِم نہیں بتا سکتا تھا۔ فطرت، ماضی اور مقدس کتابوں کے معنوں کی جستجو میں محنتی، ذہین اور وفادار۔ اپنے فلسفے سے خدا کی عظمت اور بڑائی معلوم کی اور اپنی زندگی سے خدا کے احکام کا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا۔ ہم، فانی انسان، شکر گزار ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان ایسا شخص موجود رہا جو بے شک نسلِ انسانی کا ہیرا تھا۔ پیدائش پچیس دسمبر 1642۔ وفات 20 مارچ 1726”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوٹن اور گلیلیو کی زندگی کو ملائیں تو 160 سال کا عرصہ تھا اور ان دونوں نے ملا کر وہ دور دیکھا جسے سائنسی ریولیوشن کہا جاتا ہے۔
اپنے طویل کیرئیر میں نیوٹن نے ہمیں بہت کچھ بتایا۔ انہوں نے ایک ہی فورس دریافت کی تھی جو گریویٹی تھی لیکن ان کا خیال تھا کہ ہر قسم کی تبدیلی کی وجہ فورس ہی ہے۔ کیمیائی ری ایکشن ہو یا روشنی کا انعکاس، وہ پراعتماد تھے کہ جب مستقبل میں ہم مادے کے چھوٹے ذرات کو سمجھ جائیں گے تو حرکت کے قوانین کائنات کے ہر مشاہدے کی وضاحت کر دیں گے۔
نیوٹن کا یہ تصور کہ ایٹم کے درمیان فورسز سمجھنا کئی نئی چیزوں کی وضاحت کر دے گا، درست تھا لیکن اس نے ابھی ڈھائی سو سال بعد آنا تھا۔ اور جب یہ آیا تو اس کے قوانین نیوٹن کے بنائے فریم ورک کے مطابق نہیں تھے۔ اس نے ایک بالکل نئی دنیا عیاں کی جو ہماری حسیات کے تجربے سے پرے تھی۔ ایک نئی حقیقت جس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا تھا۔ ایسی حقیقت جس کا آرکیٹکچر اتنا exotic تھا کہ نیوٹن کے مشہور قوانین کو بالکل ہی الگ قوانین سے بدل دینا پڑا تھا۔ ایسے قوانین سے، جو نیوٹن کے لئے ارسطو کے قوانین سے بھی زیادہ ناقابلِ فہم ہوتے۔
(جاری ہے)
نوٹ: ساتھ لگی تصویر نیوٹن کے کتبے کی کھینچی گئی ہے۔