مورخ ڈینئل بورسٹن کہتے ہیں کہ سائنس میں ترقی کرنے کے لئے ہمیں “کامن سینس کے جبر” سے آگے جانا پڑتا ہے۔ کامن سینس یہ کہتی ہے کہ کسی شے کو دھک...
مورخ ڈینئل بورسٹن کہتے ہیں کہ سائنس میں ترقی کرنے کے لئے ہمیں “کامن سینس کے جبر” سے آگے جانا پڑتا ہے۔ کامن سینس یہ کہتی ہے کہ کسی شے کو دھکا لگائیں گے تو وہ حرکت کرے گی، پھر سست ہو کر رک جائے گی۔ لیکن حرکت کے قوانین سمجھنے کے لئے اس واضح نظر آنے والی چیز سے آگے بڑھ کر دیکھنا پڑتا ہے، جیسا نیوٹن نے کیا۔ یہ تصور کہ اگر بالفرض تھیوریٹیکل طور پر فرکشن ختم کر دی جائے تو اس کے بغیر دنیا میں کوئی شے کیسے حرکت کرے گی؟ یہ تخیل ارسطو سے آگے کی فزکس کے لئے ضروری تھا۔ اسی طرح یہ فرکشن آخر کیا ہے؟ اس کا مکینزم سمجھنے کے لئے اس میٹیریل دنیا کو کھول کر نیچے جھانکنا پڑتا ہے تا کہ یہ “نظر” آ سکے کہ اشیا نہ دکھائی دینے والے ایٹم سے بنی ہیں۔ ایٹم کا تصور ارسطو سے ایک صدی پہلے دمقراط اور لیوسیپس پیش کر چکے تھے لیکن ارسطو نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔
ارسطو کا ایک اور خیال تھا کہ جس پر عام اتفاق ہو جائے، وہ ٹھیک ہوتا ہے اور وہ روایت پسند تھے۔ یہ خیالات ان کی سیاسی فکر میں بھی نظر آتے ہیں۔ مثلاً، غلامی کے ادارے کے بارے میں کہتے ہیں، “ہر مکمل شے کئی اجزا سے ملکر بنتی ہے۔ حکومت کرنے والے اور رعایا فطری تقسیم ہیں۔ یہ دوئی فطری ہے اور کائنات کا آئین ہے”۔ ارسطو کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ فطری طور پر آزاد ہیں اور کچھ لوگ فطری طور غلام ہیں۔
روایتی سوچ آج کے سائنسدان کے لئے اچھی خاصیت نہیں ہے یا کسی بھی ایسے شخص کے لئے جو innovate کرنا چاہتا ہو۔ سائنس میں انقلابی فکر، جس میں روایتی سوچ، اتھارٹی، اور خود سائنسی اسٹیبلشمنٹ سے بغاوت کا عنصر ہو، ضروری رہی ہے۔ پرانے خیالات کو نئے سے اسی طرح بدلا جا سکتا ہے۔ اور اگر انسانی فکری نمود میں اور سائنس کی تاریخ میں اگر کوئی رکاوٹ کبھی بھی رہی ہے تو وہ اپنے خیالات سے وفاداری کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو کی سائنس اور آنے والی سائنس میں ایک اور اہم فرق یہ تھا کہ ارسطو کی سائنس ریاضی پر مبنی نہیں تھی۔ آج فزکس اپنی سادہ ترین شکل میں بھی ریاضی کا استعمال کرتی ہے۔ ابتدائی کلاس میں ہی آپ پڑھتے ہیں کہ سیب کی نیچے گرتے وقت ایکسلریشن کیا ہوتی ہے۔ یہ کیلکولیٹ کرتے ہیں کہ ایک گاڑی جو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جا رہی ہو، ایک سیکنڈ میں کتنا سفر کرے گی۔ جب کرسی پر بیٹھے ہیں تو کرسی آپ پر کتنا زور لگا رہی ہے۔ ارسطو کی فزکس میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اور انہیں ایسے فلسفیوں سے شکایت تھی جو فلسفے کو ریاضی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
اور یہ بے سبب نہیں تھا۔ ارسطو کے وقت میں قدیم یونان میں کوئی سٹاپ واچ نہیں تھی، کوئی گھڑی بھی نہیں تھی جو سیکنڈ تک وقت بتا سکتی۔ وقت کی پریسائز پیمائش کا تصور نہ تھا۔ الجبرا اور ریاضی کے شعبے ابھی طالیس کے وقت کے ہی تھے۔ جمع، تفریق اور برابری کی علامات کی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ ہندسوں کا سسٹم نہیں تھا۔ کلومیٹر فی گھنٹہ جیسے تصورات نہیں تھے۔ اور ان کے علاوہ ۔۔۔ ارسطو کا اپنا رجحان ریاضی کی طرف نہیں تھا۔ اور نہ ہی اس وقت یہ تصور کیا جاتا تھا کہ ریاضی اس کام میں معاون رہے گی۔
حرکت کا تجزیہ کرتے وقت بھی کوئی اعداد نہیں تھے۔ اس وقت رفتار کی کوئی واضح تعریف نہیں تھی۔ “کچھ چیزیں ایک ہی وقت میں دوسری چیزوں سے زیادہ فاصلہ طے کر لیتی ہیں”۔ ارسطو کے وقتوں میں رفتار کی یہی تعریف کافی تھی۔ اور جب اس کی تعریف نہیں تھی تو ایکسلریشن کی کیسے ہو سکتی تھی۔ کیونکہ اس کا مطلب ہی رفتار (یا سمت) میں تبدیلی ہے۔ اور ہم اس کو مڈل سکول میں ہی پڑھ لیتے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر کوئی ٹائم مشین میں بیٹھ کر انہیں جا کر نیوٹن کی فزکس کی کتاب بھی دے آتا تو ان کی لئے یہ ویسا ہی ہوتا جیسے کوئی مائیکرویو اوون میں کھانا بنانے کے طریقوں کی کتاب دے آئے۔
ارسطو کا ایک اور تصور جو انہوں نے مشاہدے سے نکالا تھا، وہ یہ کہ ہر تبدیلی کا کوئی خاتمہ ہے۔ اس خاتمے کو انہوں نے مقصد کا نام دیا۔ مثال کے طور پر حرکت کو وہ ایسی چیز قرار دیتے تھے جس کی پیمائش نہیں کی جاتی بلکہ اس کا مقصد سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، پتھر کے گرنے کا مقصد زمین تک پہنچنا ہے۔ بکری کے چلنے پھرنے کا مقصد خوراک کی تلاش ہے۔ چوہے کے بھاگنے کا مقصد شکار ہونے سے بچنا ہے۔ نر خرگوش کے مادہ خرگوش کو لبھانے کا مقصد نئے خرگوش پیدا کرنا ہے۔
ارسطو کے سسٹم میں یہی ہمیں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ بارش اس لئے گرتی ہے کیونکہ پودوں کو بڑھنے کے لئے پانی درکار ہے۔ پودے اس لئے بڑھتے ہیں تا کہ جانور انہیں کھا سکیں۔ انگور کے بیج انگور کی بیل بنانے کے لئے ہیں، انڈے مرغی بننے کے لئے اور یہ سب پوٹینشل ان انڈوں اور بیجوں میں موجود ہے۔
اور یہ ہمیں بتاتا ہے کہ سائنس میں ٹھیک سوال کا انتخاب کتنا ضروری ہے۔ ارسطو کی سائنس کی سب سے بڑی کمزوری یہی تھی۔ ظاہر ہے کہ آج ہم سائنس کو اس طرح نہیں پڑھتے لیکن ان کے خیالات نے انسانی فکر میں گہرا اثر چھوڑا۔
جب دو گیندیں ٹکراتی ہیں تو یہ نیوٹن کے حرکت کے قوانین سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آگے کیا ہو گا۔ نہ کہ گیند میں چھپے کسی مقصد سے۔ فکر کا یہ بریک تھرو سائنسی انقلاب کی ابتدا میں آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ ارسطو کے خیالات دنیا میں نیوٹن کے وقت تک غالب رہے لیکن بہت سے دوسرے تھے جنہوں نے ان کی پیشکردہ تھیوریوں پر شک کرنا شروع کر دیا۔ اور اس کا علم ارسطو کو بھی تھا۔ آخر ایک نیزہ یا تیر چلائے جانے کے بعد ابتدائی فورس ختم ہو جانے کے بعد بھی کیوں حرکت میں رہتا ہے اور سیدھا زمین پر کیوں نہیں آ جاتا؟ انہوں نے اس کی وضاحت کچھ ایسے کی کہ فطرت کو خلا پسند نہیں۔ اور ہوا کے ذرات اس شے کے پیچھے اسے دھکا لگاتے ہیں۔ چودہویں صدی میں جب توپ کے گولے دور تک پہنچ جاتے تھے تو ہوا کے ذروں کا دھکا لگانے کا خیال بے معنی لگتا تھا۔
اور اس سے اہم یہ کہ ان گولوں کو چلانے والے فوجیوں کو فائر کرتے وقت زیادہ پرواہ نہیں تھی کہ ہوا کے ذرات دھکا لگا رہے ہیں یا ننھے منے سے چھلاوے۔ انہیں یہ کیلولیٹ کرنا تھا کہ گولا جائے گا کہاں تک؟ کیا یہ دشمن کے سر پر گرے گا؟ ارسطو کے لئے یہ غیراہم سوال تھے۔ لیکن اگر کسی کو فزکس کو استعمال کرتے ہوئے پیشگوئی کرنی ہے تو یہ پھینکی جانے والی شے کا راستہ بتانا اہم ہے۔ اور اس لئے، جس سائنس نے ارسطو کی سائنس کی جگہ لی، ایسی سائنس تھی جو یہ راستہ ریاضی کی تفصیل کے ساتھ بتا سکتی تھی۔ پیمائش کی جانے والی فورس، رفتار اور ایکسلریشن۔ نہ کہ پراسس کی فلسفانہ وجوہات۔
ارسطو کو خود بھی معلوم تھا کہ ان کی فزکس پرفیکٹ نہیں، ان کے کام سے ایک اقتباس،“میرا لیا گیا یہ پہلا قدم ہے اور یہ ایک چھوٹا قدم ہے۔ میں نے اس تک پہنچنے کے لئے بہت سوچ بچار کی ہے اور سخت محنت کی ہے۔ لیکن اسے پہلے قدم کے طور پر ہی دیکھا جائے۔ میرے پڑھنے اور سننے والو، میں جو کر سکتا تھا، میں نے کر لیا۔ اب اسے آگے لے جانا باقیوں کے لئے ہے”۔ یہاں پر ارسطو وہ کہہ رہے ہیں جو سائنس میں بعد میں آنے والے جینئیس بھی کہتے رہے ہیں۔ نیوٹن ہوں یا آئن سٹائن، ہم انہیں پراعتماد سائنسدانوں کے طور پر سوچتے ہیں جنہیں سب کچھ پتا تھا۔ لیکن ارسطو کی طرح، وہ بھی بہت سی چیزوں کے بارے میں کنفیوز تھے۔ نامعلوم کی گہری دھند میں ٹٹول کر راستہ تلاش کر رہے تھے اور ارسطو کی طرح ہی، انہیں خود بھی اس کا پتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو انسانی فکری تاریخ کی قدآور شخصیت ہیں۔ ان کا انتقال 322 قبلِ مسیح میں باسٹھ برس کی عمر میں ہوا۔ اس سے ایک سال پہلے انہوں نے ایتھنز چھوڑ دیا جب ان کے شاگرد اسکندر کی پرو مقدونیہ حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا۔ اب مقدون کے ساتھ منسلک کوئی بھی فرد خطرے میں تھا اور سیاسی بنیادوں پر سقراط کو دی گئی سزائے موت دی جا چکی تھی۔ زہر کا پیالہ کسی بھی فلسفانہ بحث کو ختم کر سکتا تھا اور ارسطو نے ایسے انجام کے بجائے شہر چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔
ارسطو کی وفات کے بعد ان کے خیالات لائسیم کے شاگردوں اور دوسروں کے ذریعے نسل در نسل آگے جاتے رہے۔ قرونِ وسطیٰ تک یورپ کے تاریک دور میں ان کی تھیوریاں دھندلا چکی تھیں لیکن ہائی مڈل ایج میں عرب فلسفیوں نے ان کا کام دوبارہ زندہ کیا اور آگے بڑھایا۔ مشرقِ وسطٰی کے مفکرین کے ذہنوں سے نشوونما پاتی انسانی فکر کا سفر جاری رہا۔ یہاں سے یہ واپس یورپ پہنچا اور اس کو رومن کیتھولک چرچ نے اپنا لیا۔ اس سے اگلی صدیوں میں نیچر کی سٹڈی کا مطلب ارسطو کو پڑھنا سمجھا جاتا تھا۔
ایک نوع کا سوال سوچنے والا ذہن، انہیں پوچھ لینے کی جرات ۔۔۔ لکھائی، ریاضی، قانون جیسے اوزار ۔۔۔۔ اور جواب ڈھونڈ لینے کی جستجو۔ یونانیوں کے اس دور میں ریزن کے ذریعے کائنات کا تجزیہ کرنا سیکھا اور ہم فکر کے نئے ساحل تک پہنچ گئے۔ لیکن یہ تو ابھی بڑی ایڈونچر بس کا آغاز ہی تھا۔ ایک بچے کے لئے گئے ابتدائی قدم، جس نے ابھی ایک طویل میراتھن بھاگنی تھی۔
(جاری ہے)