ٹیکنالوجی کی بڑی جدتوں کو انقلابی تبدیلیوں کے طور پر دیکھنا آسان ہے۔ لیکن سوچنے کے نئے طریقے، نالج کی نئی اپروچ اتنی واضح نظر نہیں آتی۔ سو...
ٹیکنالوجی کی بڑی جدتوں کو انقلابی تبدیلیوں کے طور پر دیکھنا آسان ہے۔ لیکن سوچنے کے نئے طریقے، نالج کی نئی اپروچ اتنی واضح نظر نہیں آتی۔ سوچنے کی ایک جدت جس کے بارے میں ہم زیادہ توجہ نہیں دیتے، وہ فطرت کو قوانین کی نظر سے دیکھنے کی تھی۔
آج ہم سائنسی قوانین کے تصور کو عام سمجھتے ہیں۔ لیکن کئی بڑی ایجادات کی طرح، اپنے دریافت ہو جانے کے بعد ہی ایسا لگتا ہے۔ مثال کے لئے: نیوٹن نے فطرت کا مشاہدہ کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ “ہر عمل کا برابر اور مخالف ردِ عمل ہوتا ہے”۔ یہ فقرہ کسی انفرادی کیس یا چند کے بارے میں نہیں۔ یہ فطری مظاہر کا تجریدی پیٹرن ہے۔ اور اس طریقے سے سوچنا ایک انقلابی جدت تھی۔ اور یہ ایک دم نہیں آ گئی تھی۔
آج قانون کے لفظ کا ایک مطلب نہیں۔ سائنسی قوانین وضاحت کرتے ہیں کہ فزیکل آبجیکٹ کیسے behave کرتے ہیں۔ لیکن یہ وضاحت نہیں کرتے کہ وہ ایسا کرتے کیوں ہیں۔ اس پابندی کا کوئی انعام نہیں ملتا یا خلاف ورزی کرنے پر پتھروں یا سیاروں کے لئے کوئی سزا نہیں ہے۔ لیکن جب ہم معاشرتی یا مذہبی قوانین کا ذکر کرتے ہیں تو یہ قوانین یہ نہیں بتاتے کہ لوگ کیسے behave کرتے ہیں بلکہ یہ کہ انہیں کیسا کرنا چاہیے۔ اور یہ ایسا کرنے کی وجہ بتاتے ہیں۔ مثلاً، سزا سے بچنا، ذمہ دار شہری کے طور پر رہنا۔
دونوں صورتوں میں لفظ قانون کا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ آج ان دونوں تصورات میں کوئی مشترک چیز نہیں۔ لیکن جب یہ تصور پہلے ابھرا تھا تو انسان کے قوانین اور فزیکل دنیا کے قوانین میں فرق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بے جان اشیا کو بھی قوانین کا ویسے ہی پابند سمجھا جاتا تھا جیسے لوگ مذہبی یا اخلاقی قوانین کے پابند ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاہ بیسالٹ کا ایک آٹھ فٹ اونچا بلاک 1901 میں دریافت ہوا۔ یہ ہامورابی کے قوانین تھے جو 1750 قبلِ مسیح میں لکھے گئے۔ تحریری قوانین میں یہ سب سے پرانی دریافت ہے۔ اگرچہ یہ اہرامِ مصر تو نہیں لیکن ذہنی نمو کے سنگِ میل کے اعتبار سے ان کی اہمیت ان سے کم نہیں۔ یہ معاشرے کو قوانین کے ذریعے منظم کرنے کی ایجاد تھی۔ “جو سُستی کی وجہ سے بَند کی مرمت نہیں کرے گا، اسے سیلاب کی صورت میں نقصان ہو جانے پر مکئی کے نقصان کا ازالہ کرنا ہو گا”۔ “جو لوٹ مار کرتے ہوئے پکڑا گیا، اسے قتل کر دیا جائے گا”۔ اس ان میں اہم چیز یہ ہے کہ یہ یونیورسل ہیں۔ یعنی کسی ایک معاملے کو طے کرنے کے لئے نہیں، بلکہ اس نوعیت کے ہر معاملے کو ان کی مدد سے طے کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ قوانین تھے، جن پر بابل کا معاشرہ چل سکتا تھا۔ یہ تہذیب کی گورننس کے قوانین تھے۔
لیکن نیچر بھی قوانین کی پاسداری اسی طرح کرتی ہے؟ کیا یہ بھی شاہی فرمان کی طرح کے قوانین ہیں؟ یہ وہ آئیڈیا تھا جس نے نیچر کی سٹڈی ممکن بنائی۔ اور ابتدا میں ان قوانین کو انسانی قوانین جیسا ہی سمجھا جاتا تھا۔ یہ ہمیں قدیم یونان کے فلسفے میں نظر آتا ہے۔ آسٹرونومی کا لفظ بھی اس کی مثال ہے۔ یونانی زبان میں نوموس قانون کو کہتے ہیں۔ ہیراقلیٹس نے کہا تھا کہ “سورج اپنے مقرر راستے سے نہیں ہٹ سکتا، ورنہ اسے سزا ملے گی”۔ سترہویں صدی میں جا کر کیپلر نے قانون کے اس لفظ کو جدید معنی میں استعمال کیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جنرلائزیشن جو مشاہدے کی بنیاد پر ہو جو کسی نیچرل فینامینا کی وضاحت اس کے ارادے اور مقصد سے نہ کرے۔ اور ایسا نہیں تھا کہ فکر کی یہ تبدیلی اچانک ہو گئی تھی۔ اور کیپلر نے بھی سیاروں کی حرکات کو بیان کرتے ہوئے وضاحت کی ہے ان کی حرکت شاید سیاروں کے “ذہن” کی وجہ سے ہو جس سے یہ زاویے اور مدار کا معلوم کر لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری نوع کے لئے اوروک ایک طویل راستے کا آغاز تھا جو ایک دائمی معمے کو حل کرنے کا سفر تھا۔ ایشیائے قریب کی ابتدائی تہذیبیں وہ نرسری تھیں جنہوں نے فکر کی دنیا کے اوزار دئے جن پر ریاضی، لکھائی اور قانون کے تصورات آئے۔ انسانی فکر کے سفر کی اگلی منزل یہاں سے ایک ہزار میل سے زائد دور جگہ تھی۔ یہ یونان تھا جہاں ریاضیاتی ثبوت کی پیدائش ہوئی۔ سائنس اور فلسفے کی ہوئی اور اس ذہنی اوزار کی ہوئی جسے ہم آج reason کہتے ہیں۔ یہ نیوٹن سے دو ہزار سال پہلے کا وقت تھا۔
(جاری ہے)