فلسفے میں پوسٹ ماڈرن ازم ایک پوزیشن ہے جس کے مطابق حقیقت اور سچ ایک کلچرل بیانیہ ہے۔ فلسفے کے اس خیال کو سائنس مخالف استعمال سائنس کو ڈِس ک...
فلسفے میں پوسٹ ماڈرن ازم ایک پوزیشن ہے جس کے مطابق حقیقت اور سچ ایک کلچرل بیانیہ ہے۔ فلسفے کے اس خیال کو سائنس مخالف استعمال سائنس کو ڈِس کریڈٹ کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں کہ ہر سائنسی دریافت بھی بس ایک کلچرل بیانیہ ہے۔ اور اس کی کسی بات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بدلتی رہے گی۔ کیا یہ ایک معقول بیانیہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم آگے کی طرف کیسے بڑھتا ہے۔ اس کی ایک مثال آئزک آئیساموف زمین کی شکل سے دیتے ہیں۔ قدیم یونانیوں نے معلوم کر لیا تھا کہ زمین گول ہے۔ بعد میں بہتر مشاہدات سے معلوم ہوا کہ یہ خطِ استوا سے معمولی سی ابھری ہوئی ہے۔ اس سے بھی بہتر سیٹلائیٹ ڈیٹا ملنے پر پتا لگا کہ جنوبی کرہ شمالی کرے سے بہت معمولی سا بڑا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ پہاڑوں اور وادیوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کی اصل شکل زیادہ سے زیادہ باریک تفصیل کے ساتھ ڈیفائن ہوتی گئی۔
لیکن یہ تفصیلات اس بنیادی سمجھ کو تبدیل نہیں کرتیں کہ زمین تقریبا گول ہے۔ کوئی نیا مشاہدہ یہ نہیں بتائے گا کہ یہ کیوب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجرامِ فلکی کی حرکات کی وضاحت کے لئے بطلیموس کے بنائے گئے ماڈل میں زمین نظامِ شمسی کا مرکز تھی اور سیاروں کی حرکات کی وضاحت ایپی سائیکلز کے پیچیدہ سسٹم سے تھی۔ کاپرنیکس نے ایک مختلف ماڈل استعمال کیا جس میں مرکز سورج تھا۔ اس وقت کے مشاہدات اتنے زیادہ نفیس نہیں تھے۔ اس لئے ایسا نہیں تھا کہ کوپرنیکس کا ماڈل بہتر وضاحت کرتا تھا۔ کوپرنیکس کا ماڈل کیوں کامیاب رہا اور اب ہم سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز کہتے ہیں؟ اس لئے کہ بعد میں آنے والے زیادہ ایکوریٹ آبزرویشن کی اس ماڈل سے بہتر وضاحت کی جا سکتی تھی۔ لیکن کاپرنیکس کے ماڈل میں مدار دائرے تھے۔ اور نئی آبزرویشن اس پر فٹ نہیں ہوتی تھیں۔ پھر کیپلر آئے اور انہوں نے سیاراتی حرکات کے تین قوانین دریافت کئے جن میں مدار بیضوی تھے۔ اور اسی طرح پھر ہم رفتہ رفتہ جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی تک جا پہنچے۔
کوئی نیا مشاہدہ ہمیں واپس بطلیموس تک نہیں لے جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی سائنسی شعبہ اپنے میں الگ دنیا نہیں۔ اس کو ایک مکمل تصویر میں ہی کہیں فٹ ہونا ہے کیونکہ یہ سب reality کی وضاحت کے لئے ہے۔ اور اسی لئے ہر شعبے کو ایک دوسرے سے متفق ہونا ہے۔ ایک دوسرے کی سپورٹ کرنی ہے۔
کاپرنیکس اور کیپلر کا سسٹم اس لئے کامیاب رہا کیونکہ یہ بعد میں آنے والی دوسری دریافتوں سے مطابقت رکھتا تھا۔ جیسا کہ گریویٹی۔ یہ وہ فورس تھی جو وضاحت کر دیتی تھی کہ آخر سیارے ویسے ہی کیوں حرکت کرتے ہیں جو یہ ماڈل بتاتا ہے۔ بطلیموس کے ماڈل کے ایپی سائیکل کو سپورٹ کرنے کے لئے کوئی تھیوریٹیکل فورس نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدانوں کو نئے خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ یہ کہیں سے بھی آ سکتے ہیں۔ کوئی پابندی نہیں۔ بیٹھے بیٹھے خیال سوجھے، خواب میں آئے، کسی فکشن کی کتاب سے نکالا جائے، کسی کلچرل خیال کا حصہ ہو، نشے میں وارد ہو ۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔ جو چیز اہم ہے جو خیال کا سورس نہیں بلکہ later justification ہے۔ یعنی یہ آئیڈیا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے۔
اور یہ وہ کسوٹی ہے جس کی وجہ سے سائنسی علم محض کلچرل بیانیہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کلچرل کہانیاں نہیں، خیالات کو زندہ رہنے کے لئے خود کو مفید ثابت کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت اور سچ ایک کو ناقابلِ اعتبار قرار دے دینا ہارے ہوئے کھلاڑی کی بازی کو الٹا دینے جیسی دلیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوسٹ ماڈرن ازم کی معتدل پوزیشن بالکل بے بنیاد نہیں اور کا سائنس پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ سائنسدان کوئی خلائی مخلوق نہیں، انسان ہی ہیں۔ اس کا کلچرل پہلو بھی ہے۔ سائنسدان بھی اپنے تعصبات اور کلچرل مفروضات رکھتے ہیں۔ سائنس کے ادارے بھی جانبداری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سائنس آگے نہیں بڑھ سکتی۔ کیونکہ اس کو معروضی حقیقت سے ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کلچرل تعصبات بالآخر ناکام ہو کر نکل ہی جاتے ہیں۔ ابھی تک سائنس کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتا لگتا ہے کہ
دنیا کو جانا جا سکتا ہے
دنیا اس قابل ہے کہ اس کو جانا جائے
دنیا کو ہم بہتر جانتے جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارل پاپر نے کہا تھا کہ “سائنس کی تاریخ انسانی خیالات کی تاریخ ہے۔ غیرذمہ داری کی، خطرناک خوابوں کی، ضد کی اور غلطیوں کی۔ لیکن یہ ایک ایسی ایکٹیویٹی ہے جس میں غلطیوں پر خاص طریقے سے تنقید ہوتی ہے اور عام طور پر وقت پر اصلاح بھی”۔
وہ جو کام نہیں کرتا، بالآخر ختم ہو ہی جاتا ہے۔ جی پی ایس کام کرتا ہے، اس سے ہم راہنمائی لے لیتے ہیں۔ آسٹرولوجی کام نہیں کرتی، ادارے اس کو استعمال کر کے اگلے سال کی پلاننگ نہیں کرتے۔ حقیقت صرف کلچرل بیانیہ نہیں ہے۔
تحریر: وہارا امباکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ساتھ لگی تصویر سائنسی انقلابوں کے کوہن سائیکل کے ماڈل کی ہے۔ کوہن نے paradigm shift کا لفظ متعارف کروایا تھا۔ کئی بار سائنس سے انکار کے اس طریقے کو یہ سائکل دکھا کر “کوہنین” کہا جاتا ہے کہ سائنس میں کچھ بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ دلچسپ چیز یہ ہے کہ کوہن خود بھی کوہینین نہیں تھ)ے۔
صحیح تر کی طرف
فلسفے میں پوسٹ ماڈرن ازم ایک پوزیشن ہے جس کے مطابق حقیقت اور سچ ایک کلچرل بیانیہ ہے۔ فلسفے کے اس خیال کو سائنس مخالف استعمال سائنس کو ڈِس کریڈٹ کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں کہ ہر سائنسی دریافت بھی بس ایک کلچرل بیانیہ ہے۔ اور اس کی کسی بات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بدلتی رہے گی۔ کیا یہ ایک معقول بیانیہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم آگے کی طرف کیسے بڑھتا ہے۔ اس کی ایک مثال آئزک آئیساموف زمین کی شکل سے دیتے ہیں۔ قدیم یونانیوں نے معلوم کر لیا تھا کہ زمین گول ہے۔ بعد میں بہتر مشاہدات سے معلوم ہوا کہ یہ خطِ استوا سے معمولی سی ابھری ہوئی ہے۔ اس سے بھی بہتر سیٹلائیٹ ڈیٹا ملنے پر پتا لگا کہ جنوبی کرہ شمالی کرے سے بہت معمولی سا بڑا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ پہاڑوں اور وادیوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کی اصل شکل زیادہ سے زیادہ باریک تفصیل کے ساتھ ڈیفائن ہوتی گئی۔
لیکن یہ تفصیلات اس بنیادی سمجھ کو تبدیل نہیں کرتیں کہ زمین تقریبا گول ہے۔ کوئی نیا مشاہدہ یہ نہیں بتائے گا کہ یہ کیوب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجرامِ فلکی کی حرکات کی وضاحت کے لئے بطلیموس کے بنائے گئے ماڈل میں زمین نظامِ شمسی کا مرکز تھی اور سیاروں کی حرکات کی وضاحت ایپی سائیکلز کے پیچیدہ سسٹم سے تھی۔ کاپرنیکس نے ایک مختلف ماڈل استعمال کیا جس میں مرکز سورج تھا۔ اس وقت کے مشاہدات اتنے زیادہ نفیس نہیں تھے۔ اس لئے ایسا نہیں تھا کہ کوپرنیکس کا ماڈل بہتر وضاحت کرتا تھا۔ کوپرنیکس کا ماڈل کیوں کامیاب رہا اور اب ہم سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز کہتے ہیں؟ اس لئے کہ بعد میں آنے والے زیادہ ایکوریٹ آبزرویشن کی اس ماڈل سے بہتر وضاحت کی جا سکتی تھی۔ لیکن کاپرنیکس کے ماڈل میں مدار دائرے تھے۔ اور نئی آبزرویشن اس پر فٹ نہیں ہوتی تھیں۔ پھر کیپلر آئے اور انہوں نے سیاراتی حرکات کے تین قوانین دریافت کئے جن میں مدار بیضوی تھے۔ اور اسی طرح پھر ہم رفتہ رفتہ جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی تک جا پہنچے۔
کوئی نیا مشاہدہ ہمیں واپس بطلیموس تک نہیں لے جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی سائنسی شعبہ اپنے میں الگ دنیا نہیں۔ اس کو ایک مکمل تصویر میں ہی کہیں فٹ ہونا ہے کیونکہ یہ سب reality کی وضاحت کے لئے ہے۔ اور اسی لئے ہر شعبے کو ایک دوسرے سے متفق ہونا ہے۔ ایک دوسرے کی سپورٹ کرنی ہے۔
کاپرنیکس اور کیپلر کا سسٹم اس لئے کامیاب رہا کیونکہ یہ بعد میں آنے والی دوسری دریافتوں سے مطابقت رکھتا تھا۔ جیسا کہ گریویٹی۔ یہ وہ فورس تھی جو وضاحت کر دیتی تھی کہ آخر سیارے ویسے ہی کیوں حرکت کرتے ہیں جو یہ ماڈل بتاتا ہے۔ بطلیموس کے ماڈل کے ایپی سائیکل کو سپورٹ کرنے کے لئے کوئی تھیوریٹیکل فورس نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدانوں کو نئے خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ یہ کہیں سے بھی آ سکتے ہیں۔ کوئی پابندی نہیں۔ بیٹھے بیٹھے خیال سوجھے، خواب میں آئے، کسی فکشن کی کتاب سے نکالا جائے، کسی کلچرل خیال کا حصہ ہو، نشے میں وارد ہو ۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔ جو چیز اہم ہے جو خیال کا سورس نہیں بلکہ later justification ہے۔ یعنی یہ آئیڈیا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے۔
اور یہ وہ کسوٹی ہے جس کی وجہ سے سائنسی علم محض کلچرل بیانیہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کلچرل کہانیاں نہیں، خیالات کو زندہ رہنے کے لئے خود کو مفید ثابت کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت اور سچ ایک کو ناقابلِ اعتبار قرار دے دینا ہارے ہوئے کھلاڑی کی بازی کو الٹا دینے جیسی دلیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوسٹ ماڈرن ازم کی معتدل پوزیشن بالکل بے بنیاد نہیں اور کا سائنس پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ سائنسدان کوئی خلائی مخلوق نہیں، انسان ہی ہیں۔ اس کا کلچرل پہلو بھی ہے۔ سائنسدان بھی اپنے تعصبات اور کلچرل مفروضات رکھتے ہیں۔ سائنس کے ادارے بھی جانبداری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سائنس آگے نہیں بڑھ سکتی۔ کیونکہ اس کو معروضی حقیقت سے ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کلچرل تعصبات بالآخر ناکام ہو کر نکل ہی جاتے ہیں۔ ابھی تک سائنس کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتا لگتا ہے کہ
دنیا کو جانا جا سکتا ہے
دنیا اس قابل ہے کہ اس کو جانا جائے
دنیا کو ہم بہتر جانتے جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم آگے کی طرف کیسے بڑھتا ہے۔ اس کی ایک مثال آئزک آئیساموف زمین کی شکل سے دیتے ہیں۔ قدیم یونانیوں نے معلوم کر لیا تھا کہ زمین گول ہے۔ بعد میں بہتر مشاہدات سے معلوم ہوا کہ یہ خطِ استوا سے معمولی سی ابھری ہوئی ہے۔ اس سے بھی بہتر سیٹلائیٹ ڈیٹا ملنے پر پتا لگا کہ جنوبی کرہ شمالی کرے سے بہت معمولی سا بڑا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ پہاڑوں اور وادیوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کی اصل شکل زیادہ سے زیادہ باریک تفصیل کے ساتھ ڈیفائن ہوتی گئی۔
لیکن یہ تفصیلات اس بنیادی سمجھ کو تبدیل نہیں کرتیں کہ زمین تقریبا گول ہے۔ کوئی نیا مشاہدہ یہ نہیں بتائے گا کہ یہ کیوب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجرامِ فلکی کی حرکات کی وضاحت کے لئے بطلیموس کے بنائے گئے ماڈل میں زمین نظامِ شمسی کا مرکز تھی اور سیاروں کی حرکات کی وضاحت ایپی سائیکلز کے پیچیدہ سسٹم سے تھی۔ کاپرنیکس نے ایک مختلف ماڈل استعمال کیا جس میں مرکز سورج تھا۔ اس وقت کے مشاہدات اتنے زیادہ نفیس نہیں تھے۔ اس لئے ایسا نہیں تھا کہ کوپرنیکس کا ماڈل بہتر وضاحت کرتا تھا۔ کوپرنیکس کا ماڈل کیوں کامیاب رہا اور اب ہم سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز کہتے ہیں؟ اس لئے کہ بعد میں آنے والے زیادہ ایکوریٹ آبزرویشن کی اس ماڈل سے بہتر وضاحت کی جا سکتی تھی۔ لیکن کاپرنیکس کے ماڈل میں مدار دائرے تھے۔ اور نئی آبزرویشن اس پر فٹ نہیں ہوتی تھیں۔ پھر کیپلر آئے اور انہوں نے سیاراتی حرکات کے تین قوانین دریافت کئے جن میں مدار بیضوی تھے۔ اور اسی طرح پھر ہم رفتہ رفتہ جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی تک جا پہنچے۔
کوئی نیا مشاہدہ ہمیں واپس بطلیموس تک نہیں لے جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی سائنسی شعبہ اپنے میں الگ دنیا نہیں۔ اس کو ایک مکمل تصویر میں ہی کہیں فٹ ہونا ہے کیونکہ یہ سب reality کی وضاحت کے لئے ہے۔ اور اسی لئے ہر شعبے کو ایک دوسرے سے متفق ہونا ہے۔ ایک دوسرے کی سپورٹ کرنی ہے۔
کاپرنیکس اور کیپلر کا سسٹم اس لئے کامیاب رہا کیونکہ یہ بعد میں آنے والی دوسری دریافتوں سے مطابقت رکھتا تھا۔ جیسا کہ گریویٹی۔ یہ وہ فورس تھی جو وضاحت کر دیتی تھی کہ آخر سیارے ویسے ہی کیوں حرکت کرتے ہیں جو یہ ماڈل بتاتا ہے۔ بطلیموس کے ماڈل کے ایپی سائیکل کو سپورٹ کرنے کے لئے کوئی تھیوریٹیکل فورس نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدانوں کو نئے خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ یہ کہیں سے بھی آ سکتے ہیں۔ کوئی پابندی نہیں۔ بیٹھے بیٹھے خیال سوجھے، خواب میں آئے، کسی فکشن کی کتاب سے نکالا جائے، کسی کلچرل خیال کا حصہ ہو، نشے میں وارد ہو ۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔ جو چیز اہم ہے جو خیال کا سورس نہیں بلکہ later justification ہے۔ یعنی یہ آئیڈیا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے۔
اور یہ وہ کسوٹی ہے جس کی وجہ سے سائنسی علم محض کلچرل بیانیہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کلچرل کہانیاں نہیں، خیالات کو زندہ رہنے کے لئے خود کو مفید ثابت کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت اور سچ ایک کو ناقابلِ اعتبار قرار دے دینا ہارے ہوئے کھلاڑی کی بازی کو الٹا دینے جیسی دلیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوسٹ ماڈرن ازم کی معتدل پوزیشن بالکل بے بنیاد نہیں اور کا سائنس پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ سائنسدان کوئی خلائی مخلوق نہیں، انسان ہی ہیں۔ اس کا کلچرل پہلو بھی ہے۔ سائنسدان بھی اپنے تعصبات اور کلچرل مفروضات رکھتے ہیں۔ سائنس کے ادارے بھی جانبداری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سائنس آگے نہیں بڑھ سکتی۔ کیونکہ اس کو معروضی حقیقت سے ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کلچرل تعصبات بالآخر ناکام ہو کر نکل ہی جاتے ہیں۔ ابھی تک سائنس کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتا لگتا ہے کہ
دنیا کو جانا جا سکتا ہے
دنیا اس قابل ہے کہ اس کو جانا جائے
دنیا کو ہم بہتر جانتے جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارل پاپر نے کہا تھا کہ “سائنس کی تاریخ انسانی خیالات کی تاریخ ہے۔ غیرذمہ داری کی، خطرناک خوابوں کی، ضد کی اور غلطیوں کی۔ لیکن یہ ایک ایسی ایکٹیویٹی ہے جس میں غلطیوں پر خاص طریقے سے تنقید ہوتی ہے اور عام طور پر وقت پر اصلاح بھی”۔
وہ جو کام نہیں کرتا، بالآخر ختم ہو ہی جاتا ہے۔ جی پی ایس کام کرتا ہے، اس سے ہم راہنمائی لے لیتے ہیں۔ آسٹرولوجی کام نہیں کرتی، ادارے اس کو استعمال کر کے اگلے سال کی پلاننگ نہیں کرتے۔ حقیقت صرف کلچرل بیانیہ نہیں ہے۔
تحریر: وہارا امباکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ساتھ لگی تصویر سائنسی انقلابوں کے کوہن سائیکل کے ماڈل کی ہے۔ کوہن نے paradigm shift کا لفظ متعارف کروایا تھا۔ کئی بار سائنس سے انکار کے اس طریقے کو یہ سائکل دکھا کر “کوہنین” کہا جاتا ہے کہ سائنس میں کچھ بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ دلچسپ چیز یہ ہے کہ کوہن خود بھی کوہینین نہیں تھ)ے۔
صحیح تر کی طرف
فلسفے میں پوسٹ ماڈرن ازم ایک پوزیشن ہے جس کے مطابق حقیقت اور سچ ایک کلچرل بیانیہ ہے۔ فلسفے کے اس خیال کو سائنس مخالف استعمال سائنس کو ڈِس کریڈٹ کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں کہ ہر سائنسی دریافت بھی بس ایک کلچرل بیانیہ ہے۔ اور اس کی کسی بات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بدلتی رہے گی۔ کیا یہ ایک معقول بیانیہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم آگے کی طرف کیسے بڑھتا ہے۔ اس کی ایک مثال آئزک آئیساموف زمین کی شکل سے دیتے ہیں۔ قدیم یونانیوں نے معلوم کر لیا تھا کہ زمین گول ہے۔ بعد میں بہتر مشاہدات سے معلوم ہوا کہ یہ خطِ استوا سے معمولی سی ابھری ہوئی ہے۔ اس سے بھی بہتر سیٹلائیٹ ڈیٹا ملنے پر پتا لگا کہ جنوبی کرہ شمالی کرے سے بہت معمولی سا بڑا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ پہاڑوں اور وادیوں کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کی اصل شکل زیادہ سے زیادہ باریک تفصیل کے ساتھ ڈیفائن ہوتی گئی۔
لیکن یہ تفصیلات اس بنیادی سمجھ کو تبدیل نہیں کرتیں کہ زمین تقریبا گول ہے۔ کوئی نیا مشاہدہ یہ نہیں بتائے گا کہ یہ کیوب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجرامِ فلکی کی حرکات کی وضاحت کے لئے بطلیموس کے بنائے گئے ماڈل میں زمین نظامِ شمسی کا مرکز تھی اور سیاروں کی حرکات کی وضاحت ایپی سائیکلز کے پیچیدہ سسٹم سے تھی۔ کاپرنیکس نے ایک مختلف ماڈل استعمال کیا جس میں مرکز سورج تھا۔ اس وقت کے مشاہدات اتنے زیادہ نفیس نہیں تھے۔ اس لئے ایسا نہیں تھا کہ کوپرنیکس کا ماڈل بہتر وضاحت کرتا تھا۔ کوپرنیکس کا ماڈل کیوں کامیاب رہا اور اب ہم سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز کہتے ہیں؟ اس لئے کہ بعد میں آنے والے زیادہ ایکوریٹ آبزرویشن کی اس ماڈل سے بہتر وضاحت کی جا سکتی تھی۔ لیکن کاپرنیکس کے ماڈل میں مدار دائرے تھے۔ اور نئی آبزرویشن اس پر فٹ نہیں ہوتی تھیں۔ پھر کیپلر آئے اور انہوں نے سیاراتی حرکات کے تین قوانین دریافت کئے جن میں مدار بیضوی تھے۔ اور اسی طرح پھر ہم رفتہ رفتہ جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی تک جا پہنچے۔
کوئی نیا مشاہدہ ہمیں واپس بطلیموس تک نہیں لے جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی سائنسی شعبہ اپنے میں الگ دنیا نہیں۔ اس کو ایک مکمل تصویر میں ہی کہیں فٹ ہونا ہے کیونکہ یہ سب reality کی وضاحت کے لئے ہے۔ اور اسی لئے ہر شعبے کو ایک دوسرے سے متفق ہونا ہے۔ ایک دوسرے کی سپورٹ کرنی ہے۔
کاپرنیکس اور کیپلر کا سسٹم اس لئے کامیاب رہا کیونکہ یہ بعد میں آنے والی دوسری دریافتوں سے مطابقت رکھتا تھا۔ جیسا کہ گریویٹی۔ یہ وہ فورس تھی جو وضاحت کر دیتی تھی کہ آخر سیارے ویسے ہی کیوں حرکت کرتے ہیں جو یہ ماڈل بتاتا ہے۔ بطلیموس کے ماڈل کے ایپی سائیکل کو سپورٹ کرنے کے لئے کوئی تھیوریٹیکل فورس نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدانوں کو نئے خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ یہ کہیں سے بھی آ سکتے ہیں۔ کوئی پابندی نہیں۔ بیٹھے بیٹھے خیال سوجھے، خواب میں آئے، کسی فکشن کی کتاب سے نکالا جائے، کسی کلچرل خیال کا حصہ ہو، نشے میں وارد ہو ۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔ جو چیز اہم ہے جو خیال کا سورس نہیں بلکہ later justification ہے۔ یعنی یہ آئیڈیا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے۔
اور یہ وہ کسوٹی ہے جس کی وجہ سے سائنسی علم محض کلچرل بیانیہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کلچرل کہانیاں نہیں، خیالات کو زندہ رہنے کے لئے خود کو مفید ثابت کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت اور سچ ایک کو ناقابلِ اعتبار قرار دے دینا ہارے ہوئے کھلاڑی کی بازی کو الٹا دینے جیسی دلیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوسٹ ماڈرن ازم کی معتدل پوزیشن بالکل بے بنیاد نہیں اور کا سائنس پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ سائنسدان کوئی خلائی مخلوق نہیں، انسان ہی ہیں۔ اس کا کلچرل پہلو بھی ہے۔ سائنسدان بھی اپنے تعصبات اور کلچرل مفروضات رکھتے ہیں۔ سائنس کے ادارے بھی جانبداری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سائنس آگے نہیں بڑھ سکتی۔ کیونکہ اس کو معروضی حقیقت سے ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کلچرل تعصبات بالآخر ناکام ہو کر نکل ہی جاتے ہیں۔ ابھی تک سائنس کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتا لگتا ہے کہ
دنیا کو جانا جا سکتا ہے
دنیا اس قابل ہے کہ اس کو جانا جائے
دنیا کو ہم بہتر جانتے جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارل پاپر نے کہا تھا کہ “سائنس کی تاریخ انسانی خیالات کی تاریخ ہے۔ غیرذمہ داری کی، خطرناک خوابوں کی، ضد کی اور غلطیوں کی۔ لیکن یہ ایک ایسی ایکٹیویٹی ہے جس میں غلطیوں پر خاص طریقے سے تنقید ہوتی ہے اور عام طور پر وقت پر اصلاح بھی”۔
وہ جو کام نہیں کرتا، بالآخر ختم ہو ہی جاتا ہے۔ جی پی ایس کام کرتا ہے، اس سے ہم راہنمائی لے لیتے ہیں۔ آسٹرولوجی کام نہیں کرتی، ادارے اس کو استعمال کر کے اگلے سال کی پلاننگ نہیں کرتے۔ حقیقت صرف کلچرل بیانیہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ساتھ لگی تصویر سائنسی انقلابوں کے کوہن سائیکل کے ماڈل کی ہے۔ کوہن نے paradigm shift کا لفظ متعارف کروایا تھا۔ کئی بار سائنس سے انکار کے اس طریقے کو یہ سائکل دکھا کر “کوہنین” کہا جاتا ہے کہ سائنس میں کچھ بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ دلچسپ چیز یہ ہے کہ کوہن خود بھی کوہینین نہیں تھے۔)