فرانسیسی مہم جو فرانسوئے بیمئیر نے شاہ جہاں کی بیٹی روشن آرا بیگم کے 1640 کی دہائی میں کئے گئے کشمیر کے سفر کی داستان لکھی ہے۔ ان کا تبصرہ...
فرانسیسی مہم جو فرانسوئے بیمئیر نے شاہ جہاں کی بیٹی روشن آرا بیگم کے 1640 کی دہائی میں کئے گئے کشمیر کے سفر کی داستان لکھی ہے۔ ان کا تبصرہ تھا کہ انہوں نے ایسی شان و شوکت والا سفر نہیں دیکھا۔ انیسویں صدی میں مغل خاندان کی عملداری سمٹ چکی تھی۔ کشمیر گنوائے عرصہ گزر چکا تھا۔ اور سو سال سے زیادہ ہو چکے تھے کہ مغل دلی سے باہر اس طریقے سے نکلیں۔ شاہ عالم ثانی کے دور میں کہا جاتا تھا کہ “حکومتِ شاہ عالم، از دلی تا پالم” (پالم دلی سے دس میل دور شہر ہے)۔
خراسان سے تعلق رکھنے والے ترک نادر شاہ تھے جنہیں آخری عظیم ایشیائی فاتح کہا جاتا ہے۔ ان کی بنائی گئی سلطنت اپنے وقت میں دنیا کی طاقتور ترین سلطنت تھی۔ صفوی، ابدالی، ہوتک خاندانوں کا خاتمہ کیا۔ ایران، قفقاز، بحرین، عمان، ترکمانستان، عراق، افغانستان، پاکستان کے علاقے حاصل کئے۔ ایران میں بادشاہت قائم کی۔ ان کی سلطنت جلد ہی فوجی اخراجات کے بوجھ تلے گر کر ختم ہو گئی لیکن ان کی کامیاب فتوحات کے قہر تلے مغل بھی آئے۔ غزنی، کابل، پشاور، سندھ، لاہور پر قبضہ کر لینے کے بعد دہلی آئے۔ لال قلعے کے اندر کے قیمتی خزانے فارس سے آنے والے نادر شاہ 1739 میں لُوٹے جس میں کوہِ نور ہیرا اور تخت طاوس بھی تھا۔ انہوں نے دہلی کو تاراج کیا۔ تیس ہزار لوگ قتل کئے اور اس قدر لوٹ مار کی کہ واپس جا کر ایران میں تین سال کے لئے ٹیکس معاف کر دیا تھا۔
دہلی شہر کے ایک اور فاتح غلام قادر روہیلہ تھے جنہوں نے 1788 میں اسے فتح کیا تھا اور خود اپنے ہاتھوں سے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکالی تھیں اور بہادر شاہ ظفر کے والد اور ہونے والے بادشاہ اکبر شاہ دوئم کو سب کے سامنے ناچ نچوایا تھا، شاہی محل کی خواتین کے ساتھ ناقابلِ بیان حرکات کی تھیں اور پھر زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے شاہ عالم کی شاندار لائبریری سے تمام کتابیں نکال کر لے جا کر اودھ کے نواب کو بیچ دیں تھیں۔ غلام قادر کو مرہٹہ فوج نے شکست دے کر قتل کیا اور شاہ عالم کو واپس بحال کیا۔ اس کے بعد مرہٹہ فوج مستقل طور پر دہلی تعینات ہو گئی اور یہ اگلی دو دہائیں تک رہی جب تک انگریزوں نے مرہٹوں کو شکست سے دوچار کر کے ختم نہیں کر دیا۔ “تباہ حال محل میں نابینا بادشاہ صرف شطرنج کا بادشاہ تھا”۔ یہ آزاد کا تبصرہ تھا۔
شاہ عالم ثانی کی موت کے بعد مغل عملداری مزید محدود ہو گئی تھی اور یہ پالم تک بھی نہیں رہی تھی۔ یہ لال قلعے کی دیواروں سے زیادہ آگے نہیں تھی۔ بہادر شاہ ظفر کے اختیارات پر برٹش ریزیڈنٹ تھامس میٹکاف کا چیک تھا۔ اور تھامس اسے وقتاً فوقتاً استعمال کرتے رہتے تھے۔ شاہ کی ذاتی زندگی میں بھی۔
دلی کے باہر سے کوئی بھی معزز اہم شخص میٹکاف کی اجازت کے بغیر دلی میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ خود اپنی زمینوں سے کرایہ وصول کرنے کے لئے بہادر شاہ ظفر کو برٹش سے اجازت لینا ہوتی تھی۔ وہ خود اپنے خاندان کے افراد کو جواہرات تحفہ میں نہیں دے سکتے تھے اور اگر کسی کو بغیر پوچھے تحفہ دیتے جس کا برٹش ریزیڈنٹ کو پتا لگ جاتا تو وہ واپس کروا دیا جاتا۔ ان کے بیٹے مرزا جواں بخت کی شادی پر کشمیر کے راجا گلاب سنگھ نے دربار میں آ کر نذر پیش کی تھی۔ بادشاہ نے جواب میں راجا کو خلعت عطا کی تھی۔ میٹکاف تک خبر پہنچی تو وہ خلعت واپس کروا دی گئی تھی۔ میٹکاف کی نظر میں گلاب سنگھ برطانوی رعایا تھے اور وہ بیرونی حکومت سے براہِ راست تحفہ لینے کے مجاز نہیں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹش سب سے پہلے دہلی میں 1803 میں آئے تھے، اس وقت انہوں نے مرہٹوں کو دوسری مرہٹہ انگلش جنگ میں شکست دی تھی۔ برٹش نے شاہ عالم کو حفاظت کی پیش کش کی تھی کہ وہ مرہٹوں کے جانے کے بعد انگریزوں کو اپنا محافظ سمجھیں۔ “ہر ریاست آپ ہی کو سربراہ سمجھتی ہے۔ ہرسکے پر آپ کا نام ہے”۔ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی بھی شامل تھی۔ کمپنی کی مہر پر بھی اور جاری کردہ سکوں کے نیچے “فدوی شاہ عالم” لکھا تھا۔ کمپنی کو برٹش حکومت کی طرف سے سخت ہدایات تھیں کہ ہندوستان کے بادشاہ کی تعظیم کی جائے۔
یہ 1832 میں سر چارلس کی آمد کے بعد بدل گیا تھا۔ بادشاہ کو نذر دینے کی روایت ختم کر دی گئی۔ اس سے اگلے سال مہر اور سکوں پر سے مغل بادشاہ کا نام ہٹا دیا گیا تھا۔ یہ یکطرفہ فیصلہ تھا۔ 1850 میں کمپنی کے لارڈ ڈلہوزی نے کسی بھی برطانوی شہری کو مغل بادشاہ سے کوئی خطاب وصول کرنے پر پابندی لگا دی۔ مغل اختیارات ایک ایک کر کے لئے جاتے رہے۔ 1852 تک، سوائے نام کے، مغلوں کے پاس کچھ نہیں رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظفر کے مسائل میں سے ایک ان کے حرم کی خواتین اور ان کا آپس کا تناوٗ تھا۔ جب وہ بادشاہ بنے تھے تو ملکہ عالیہ تاج محل بیگم تھیں۔ لیکن یہ پوزیشن بہت دیر برقرار نہیں رہی تھی۔ چونسٹھ برس کی عمر میں انہوں نے انیس سالہ زینت محل سے شادی کی تھی اور چند ہی ماہ میں انہوں نے تاج محل کی جگہ لے لی۔ بادشاہ نے اس کے بعد چند مزید خواتین حرم میں داخل کیں لیکن زینت محل ان کی پسندیدہ بیوی رہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے سولہ بیٹے اور اکتیس بیٹیاں تھیں۔ آخری بیٹے مرزا شاہ عباس کی پیدائش جب ہوئی تو بہادر شاہ ظفر ستر برس کے تھے۔
بادشاہ کے بیٹوں کی زندگی اچھی تھی اور وہ اپنے شوق پورے کر سکتے تھے لیکن لال قلعے کے کوارٹروں میں دو ہزار سے زیادہ جونئیر سلاطین بھی رہائش پذیر تھے۔ یہ پچھلے بادشاہوں کے پوتے اور پڑپوتے تھے یا ان کی بھی آگے نسل سے تھے۔ ان کی زندگی غربت میں گزرتی تھی۔ کبھی محل سے چوری چکاری کے الزام میں چوبدار ان سلاطین کی پٹائی بھی کر دیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصاویر میں پہلی تصویر 1531 میں برِصغیر کا سیاسی نقشہ
خراسان سے تعلق رکھنے والے ترک نادر شاہ تھے جنہیں آخری عظیم ایشیائی فاتح کہا جاتا ہے۔ ان کی بنائی گئی سلطنت اپنے وقت میں دنیا کی طاقتور ترین سلطنت تھی۔ صفوی، ابدالی، ہوتک خاندانوں کا خاتمہ کیا۔ ایران، قفقاز، بحرین، عمان، ترکمانستان، عراق، افغانستان، پاکستان کے علاقے حاصل کئے۔ ایران میں بادشاہت قائم کی۔ ان کی سلطنت جلد ہی فوجی اخراجات کے بوجھ تلے گر کر ختم ہو گئی لیکن ان کی کامیاب فتوحات کے قہر تلے مغل بھی آئے۔ غزنی، کابل، پشاور، سندھ، لاہور پر قبضہ کر لینے کے بعد دہلی آئے۔ لال قلعے کے اندر کے قیمتی خزانے فارس سے آنے والے نادر شاہ 1739 میں لُوٹے جس میں کوہِ نور ہیرا اور تخت طاوس بھی تھا۔ انہوں نے دہلی کو تاراج کیا۔ تیس ہزار لوگ قتل کئے اور اس قدر لوٹ مار کی کہ واپس جا کر ایران میں تین سال کے لئے ٹیکس معاف کر دیا تھا۔
دہلی شہر کے ایک اور فاتح غلام قادر روہیلہ تھے جنہوں نے 1788 میں اسے فتح کیا تھا اور خود اپنے ہاتھوں سے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکالی تھیں اور بہادر شاہ ظفر کے والد اور ہونے والے بادشاہ اکبر شاہ دوئم کو سب کے سامنے ناچ نچوایا تھا، شاہی محل کی خواتین کے ساتھ ناقابلِ بیان حرکات کی تھیں اور پھر زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے شاہ عالم کی شاندار لائبریری سے تمام کتابیں نکال کر لے جا کر اودھ کے نواب کو بیچ دیں تھیں۔ غلام قادر کو مرہٹہ فوج نے شکست دے کر قتل کیا اور شاہ عالم کو واپس بحال کیا۔ اس کے بعد مرہٹہ فوج مستقل طور پر دہلی تعینات ہو گئی اور یہ اگلی دو دہائیں تک رہی جب تک انگریزوں نے مرہٹوں کو شکست سے دوچار کر کے ختم نہیں کر دیا۔ “تباہ حال محل میں نابینا بادشاہ صرف شطرنج کا بادشاہ تھا”۔ یہ آزاد کا تبصرہ تھا۔
شاہ عالم ثانی کی موت کے بعد مغل عملداری مزید محدود ہو گئی تھی اور یہ پالم تک بھی نہیں رہی تھی۔ یہ لال قلعے کی دیواروں سے زیادہ آگے نہیں تھی۔ بہادر شاہ ظفر کے اختیارات پر برٹش ریزیڈنٹ تھامس میٹکاف کا چیک تھا۔ اور تھامس اسے وقتاً فوقتاً استعمال کرتے رہتے تھے۔ شاہ کی ذاتی زندگی میں بھی۔
دلی کے باہر سے کوئی بھی معزز اہم شخص میٹکاف کی اجازت کے بغیر دلی میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ خود اپنی زمینوں سے کرایہ وصول کرنے کے لئے بہادر شاہ ظفر کو برٹش سے اجازت لینا ہوتی تھی۔ وہ خود اپنے خاندان کے افراد کو جواہرات تحفہ میں نہیں دے سکتے تھے اور اگر کسی کو بغیر پوچھے تحفہ دیتے جس کا برٹش ریزیڈنٹ کو پتا لگ جاتا تو وہ واپس کروا دیا جاتا۔ ان کے بیٹے مرزا جواں بخت کی شادی پر کشمیر کے راجا گلاب سنگھ نے دربار میں آ کر نذر پیش کی تھی۔ بادشاہ نے جواب میں راجا کو خلعت عطا کی تھی۔ میٹکاف تک خبر پہنچی تو وہ خلعت واپس کروا دی گئی تھی۔ میٹکاف کی نظر میں گلاب سنگھ برطانوی رعایا تھے اور وہ بیرونی حکومت سے براہِ راست تحفہ لینے کے مجاز نہیں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹش سب سے پہلے دہلی میں 1803 میں آئے تھے، اس وقت انہوں نے مرہٹوں کو دوسری مرہٹہ انگلش جنگ میں شکست دی تھی۔ برٹش نے شاہ عالم کو حفاظت کی پیش کش کی تھی کہ وہ مرہٹوں کے جانے کے بعد انگریزوں کو اپنا محافظ سمجھیں۔ “ہر ریاست آپ ہی کو سربراہ سمجھتی ہے۔ ہرسکے پر آپ کا نام ہے”۔ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی بھی شامل تھی۔ کمپنی کی مہر پر بھی اور جاری کردہ سکوں کے نیچے “فدوی شاہ عالم” لکھا تھا۔ کمپنی کو برٹش حکومت کی طرف سے سخت ہدایات تھیں کہ ہندوستان کے بادشاہ کی تعظیم کی جائے۔
یہ 1832 میں سر چارلس کی آمد کے بعد بدل گیا تھا۔ بادشاہ کو نذر دینے کی روایت ختم کر دی گئی۔ اس سے اگلے سال مہر اور سکوں پر سے مغل بادشاہ کا نام ہٹا دیا گیا تھا۔ یہ یکطرفہ فیصلہ تھا۔ 1850 میں کمپنی کے لارڈ ڈلہوزی نے کسی بھی برطانوی شہری کو مغل بادشاہ سے کوئی خطاب وصول کرنے پر پابندی لگا دی۔ مغل اختیارات ایک ایک کر کے لئے جاتے رہے۔ 1852 تک، سوائے نام کے، مغلوں کے پاس کچھ نہیں رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظفر کے مسائل میں سے ایک ان کے حرم کی خواتین اور ان کا آپس کا تناوٗ تھا۔ جب وہ بادشاہ بنے تھے تو ملکہ عالیہ تاج محل بیگم تھیں۔ لیکن یہ پوزیشن بہت دیر برقرار نہیں رہی تھی۔ چونسٹھ برس کی عمر میں انہوں نے انیس سالہ زینت محل سے شادی کی تھی اور چند ہی ماہ میں انہوں نے تاج محل کی جگہ لے لی۔ بادشاہ نے اس کے بعد چند مزید خواتین حرم میں داخل کیں لیکن زینت محل ان کی پسندیدہ بیوی رہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے سولہ بیٹے اور اکتیس بیٹیاں تھیں۔ آخری بیٹے مرزا شاہ عباس کی پیدائش جب ہوئی تو بہادر شاہ ظفر ستر برس کے تھے۔
بادشاہ کے بیٹوں کی زندگی اچھی تھی اور وہ اپنے شوق پورے کر سکتے تھے لیکن لال قلعے کے کوارٹروں میں دو ہزار سے زیادہ جونئیر سلاطین بھی رہائش پذیر تھے۔ یہ پچھلے بادشاہوں کے پوتے اور پڑپوتے تھے یا ان کی بھی آگے نسل سے تھے۔ ان کی زندگی غربت میں گزرتی تھی۔ کبھی محل سے چوری چکاری کے الزام میں چوبدار ان سلاطین کی پٹائی بھی کر دیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصاویر میں پہلی تصویر 1531 میں برِصغیر کا سیاسی نقشہ
دوسری تصویر میں 1600 میں برِصغیر کا سیاسی نقشہ
تیسری تصویر میں 1700 میں برِصغیر کا سیاسی نقشہ
چوتھی تصویر میں 1764 میں برِصغیر کا سیاسی نقشہ (اس وقت برٹش نے علاقہ حاصل کرنا شروع کیا)
پانچویں تصویر میں 1857 میں برِصغیر کا سیاسی نقشہ (گہرے رنگ میں وہ علاقے جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی براہِ راست حکومت تھی، ہلکے رنگ میں وہ علاقے جہاں مقامی حکمران کے ذریعے بالواسطہ)۔