جنوری 1858 تک دربار کے تمام معززین مقدمات کے بعد لٹکائے جا چکے تھے۔ اب بہادر شاہ ظفر کی باری تھی۔ لکھنو میں جنگ ابھی چل رہی تھی۔ ماہرینِ قو...
جنوری 1858 تک دربار کے تمام معززین مقدمات کے بعد لٹکائے جا چکے تھے۔ اب بہادر شاہ ظفر کی باری تھی۔ لکھنو میں جنگ ابھی چل رہی تھی۔ ماہرینِ قوانین اور مترجمین نے دہلی پہنچنا شروع کر دیا۔ کیا احکامات جاری ہوئے تھے؟ کس نے کئے تھے؟ بادشاہ کا کیا ہاتھ تھا؟ ہوڈسن کی دی ہوئی زندگی کی گارنٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا لارڈ کیننگ سے منظوری کے بغیر ہوڈسن ایسا کرنے کے مجاز تھے؟ یہ طے ہو گیا کہ ان پر “بغاوت، غداری اور قتل” کے مقدمات چلائے جائیں گے۔ میجر ہیرئیٹ وکیلِ استغاثہ تھے۔
ایک اور سوال یہ تھا کہ مقدمے کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کمپنی یہ کیسے کر سکتی ہے۔ کمپنی نے یہ پوزیشن لی تھی کہ بہادر شاہ کمپنی سے پنشن وصول کرتے تھے اس لئے کمپنی کے پنشنر کے طور پر کمپنی کی رعایا تھے۔ اصل قانونی پوزیشن زیادہ پیچیدہ تھی۔ کمپنی کا چارٹر تجارت کا تھا اور انڈیا میں اس کی کارروائیاں مغل بادشاہ کی اجازت سے تھیں۔ پلاسی کی جنگ کے بعد کمپنی کو بنگال سے ٹیکس اکٹھا کرنے کا ٹھیکہ ملا تھا۔ 1832 تک کمپنی خود کو مغل بادشاہ کا باجگزار تسلیم کرتی تھی۔ اس کے سکوں پر “فدوی شاہ عالم” لکھا ہوتا تھا۔ اگرچہ یہ ہٹا دیا گیا تھا لیکن قانونا اس تعلق میں تبدیلی کے لئے کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ کمپنی نے بادشاہ کو یکطرفہ طور پر نذر دینا بند کر دی تھی۔ لیکن کسی مغل بادشاہ نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا تھا کہ کمپنی ان کے زیرِ نگیں نہیں۔ اس نقطہ نظر سے بہادر شاہ پر شکست کھانے والے دشمن بادشاہ کے طور پر مقدمہ چلایا جا سکتا تھا لیکن رعایا کے طور پر نہیں۔ اور اگر رعایا نہیں تھے تو بغاوت اور غداری کے الزامات ویسے ہی غیرمتعلقہ ہو جاتے تھے۔ قانونی طور پر یہ اچھا کیس بنایا جا سکتا تھا کہ دراصل بغاوت کمپنی نے کی تھی جو اپنے فیوڈل آقا سے حکم عدولی کا جرم تھا جس سے کمپنی نے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔
اس مقدمے کے بے تکا ہونے پر ٹائمز کے صحافی ولیم رسل (جو جنگ کی صحافت کے بانی سمجھے جاتے ہیں) نے لکھا ہے۔ رسل نے جب لال قلعہ دیکھا تھا تو کہا تھا کہ اس میں اور ملکہ وکٹوریا کے ونڈسر قلعے کی شان و شوکت میں فرق نہیں۔ اور جب وہ اس کے مکین سے ملے تھے جو کمپنی کے قیدی تھے جنہیں بغاوت کا ماسٹرمائینڈ کہا گیا تھا تو ان کا تاثر تھا، “ان کی آنکھیں دھندلی اور آواراہ پھرتی آنکھیں، ان کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکلا۔ جیسے وہ اپنی حالت سے بے خبر ہوں۔ بڑھاپا جھلک رہا تھا۔ کسی نے انہیں اپنے شعر پڑھتے سنا تھا اور لکڑی سے دیوار پر لکھنے کی کوشش کرتے دیکھا تھا۔ ان کا محل وہ جگہ تھی جہاں سے کچھ تاجروں کو انڈیا میں کام کرنے کا اجازت نامہ تھمایا گیا تھا۔ اور اب ہم ان پر شکرگزار نہ ہونے کا الزام لگا رہے تھے”۔
رسل نے نتیجہ نکالا تھا کہ اگر مقدمہ چلایا ہی جانا ہے تو ملٹری کمیشن میں نہیں، باقاعدہ عدالت میں چلایا جائے۔ جو الزامات لگائے گئے تھے، ان کا ثابت ہونا ناممکن تھا۔ برطانوی عدالت میں دہلی کے بادشاہ پر غداری کا الزام ثابت کرنا ناممکن ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقدمہ 27 جنوری 1858 کو شروع ہوا۔ بہادر شاہ اس وقت بہت علیل تھے۔ انہیں دیوانِ خاص پالکی میں لایا گیا۔ ایک طرف ان کا بیٹا مرزا جوان بخت اور دوسری طرف ایک خادم۔ انہوں نے سہارا دے کر انہیں بٹھایا گیا۔
پانچ جج تھے جو سب آرمی افسر تھے اور زیادہ سینئیر نہیں تھے اور کوئی اچھی ہندوستانی زبان نہیں جانتا تھا۔ الزامات پڑھ کر سنائے گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود کو قصوروار تسلیم کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں پتا لگ گیا کہ بہادر شاہ کو پتا ہی نہیں کہ ہو کیا رہا ہے۔ خاصی تاخیر کے بعد انہیں قائل کیا گیا کہ وہ بتائیں کہ وہ قصوروار نہیں اور مقدمہ آگے چل سکے۔
اگلے دنوں میں ثبوت اور گواہ پیش ہوئے۔ محل سے دستاویزات پڑھ کر سنائی گئیں۔ بہادر شاہ کے وکیل غلام عباس نے ان کا مطالعہ کیا۔ بادشاہ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ انہیں ان کا کچھ نہیں پتا۔ پھر بادشاہ کی توجہ بھٹکنے لگی اور وہ اونگھنے لگے۔ انہیں اس سب میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔
کئی بار بادشاہ عدالت میں آنے سے انکار کر دیتے اور خرابی صحت کے باعث کارروائی ملتوی کر دی جاتی۔ جب آتے تو کارروائی پر کوئی توجہ نہ دیتے۔ بہت سے الزامات کے بعد انہوں نے اردو میں ایک بار تفصیلی جواب جمع دیا جو اس کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر چست تھے۔ “بغاوت کے دن سے پہلے مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ میں نے انہیں بارہا کہا کہ وہ چلے جائیں۔ میرا گواہ تو خدا ہی ہے کہ میں نے نہ ہی فریزر کے اور نہ ہی کسی اور یورپی کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ جہاں تک میری مہر کے ساتھ جاری کردہ احکامات کا تعلق ہے تو جب سے سپاہی آئے تھے، وہ کر رہے تھے جو ان کی مرضی تھی۔ مجھ سے خالی لفافوں پر مہر لگوا لیا کرتے تھے۔ مجھے نہیں پتا کہ اس کے اندر کیا کاغذ تھے اور کس کو بھیجے جا رہے تھے۔ وہ میرے ملازمین پر انگریزوں سے سازباز کا الزام لگاتے تھے اور مجھے ہٹا کر مرزا مغل کو بادشاہ بنانا چاہتے تھے۔ میرے پاس اختیار ہی کیا تھا؟ وہ یہاں تک چلے گئے تھے کہ انہوں نے ملکہ زینت محل کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ اسے قید کرنا چاہتے تھے کہ وہ انگریزوں سے ملی ہوئی ہے۔ جو ہوا، وہ باغی فوج نے کیا تھا۔ میں خود خوف میں جکڑا بے بس قیدی تھا۔ میں نے غربت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ سرخ چادر پکڑ کر قطب صاحب، اجمیر اور پھر مکہ جانے کا۔ باغی تو مجھے سلیوٹ تک نہیں کرتے تھے۔ وہ میرے دیوان میں گھس جاتے تھے۔ تسبیح خانے میں جوتے لے کر آ جاتے تھے۔ ان باغیوں نے تو خود اپنے افسروں کو مارا تھا۔ وہ نمک حرام تھے۔ ان پر بھروسہ کیسے کیا جا سکتا تھا۔ قاتل وہ تھے۔ میں تو قیدی تھا۔ میرا گواہ خدا ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں نے جو لکھا ہے، وہ سچ ہے”۔
عدالت میں وکیلِ صفائی نے کچھ خاص پرفارمنس نہیں دکھائی اور وکیل غلام عباس کی جرح بہت کمزور رہی۔ جس طرح کیس آگے بڑھتا گیا، یہ مزید بے تکا ہوتا گیا۔ تکنیکی بنیادوں پر نہیں، الزامات کے حوالے سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیرئیٹ نے کہا کہ ظفر ایک شاطر چالباز ہیں اور ایک بڑی بین الاقوامی سازش کے سرغنہ۔ یہ سازش قسطنطیہ، مکہ، ایران اور لال قلعے کی دیواروں تک پھلی ہوئی ہے۔ اس کا مقصد برٹش سلطنت کو ختم کرنا اور ان کی جگہ مغلوں کو لانا ہے۔ یہ سب شواہد کے خلاف تھا۔ حتیٰ کہ بغاوت کرنے والوں میں اکثریت ہندووٗں کی تھی۔ استغاثہ کے وکیل کے مطابق،
“یہ سازش سپاہیوں تک محدود نہیں تھی۔ یہ ان کے شروع کرنے والے بھی نہیں تھے۔ بڑا باغی بہادر شاہ ظفر ہے۔ یہ سازشی شخص جھوٹ اور فساد کا پیکر ہے۔ اس نے ان بدمعاشوں کو اپنے پاس سازش کے تحت بلایا۔ اس بڑے جال اور مذہبی جنونیوں کا سرغنہ۔ یہ جنونی ہم پر اور دنیا پر اپنا نظام مسلط کرنا چاہتا تھا”۔
ہیرئیٹ کی پیش کردہ تصویر اس وقت کے برٹش قوم پرست شدت پسندوں کے جذبات کی عکاس تھی۔ تین فروری کو ہیرئیٹ نے ثبوت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ باغی سپاہی اور بادشاہ پہلے ہی ملے ہوئے تھے۔ درجن بھر باغی اس سے ساڑھے سال پہلے ان کے پاس آئے تھے اور ان کے مرید بن گئے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ کئی لوگ بادشاہ کو صوفی پیر سمجھتے تھے۔ بادشاہ مرید قبول کیا کرتے تھے۔ ہیرئیٹ نے اس کو اپنی تخیلاتی عظیم سازش کے نکتے جوڑنے کے لئے استعمال کیا جو ان کے مطابق برسوں کی پلاننگ کا نتیجہ تھی۔
اومانی ڈائری میں لکھتے ہیں “ہیرئیٹ کی پیشکردہ عظیم سازش کی تھیوری مضحکہ خیز ہے”۔
ایک کے بعد دوسرا پیش ہونے والا گواہ بتا رہا تھا کہ بہادر شاہ ظفر کی ترجیح دہلی کی رعایا کی جان بچانا رہی تھی۔ بادشاہ نے کانپور میں کرسچن قتلِ عام کی شدید مذمت کی تھی۔ دہلی کے لوگوں کو انقلابیوں کی لاقانونیت سے بچانے کی کوشش کی تھی اور لوگوں کو قبائلی ڈاکووٗں سے بچانے کی کوشش کی تھی۔
مقدمہ دو ماہ تک چلتا رہا۔ آخری ہفتوں میں بادشاہ کی آنکھیں کارروائی کے دوران بند ہی رہتیں۔
نو مارچ کو صبح گیارہ بجے کورٹ مارشل آخری بار ہوا۔ پرہجوم عدالت میں ہیرئیٹ نے آخری دلائل ڈھائی گھنٹے کے لئے دئے۔ ایک بار پھر انقلاب کو عالمی اسلامی سازش قرار دیا۔ اور بہادر شاہ ظفر کو اگر لیڈر نہیں تو اس کا حصہ۔
تین بجے جج فیصلہ سنانے کے لئے صلاح کرنے گئے۔ چند منٹ بعد واپس آئے اور متفقہ فیصلہ سنا دیا۔ بہادر شاہ ظفر پر لگائے گئے تمام الزامات درست قرار دئے گئے۔ فیصلہ سناتے وقت کہا گیا کہ اگرچہ ایسے غدار اور مجرم کی سزا موت ہے لیکن ہوڈسن نے زندگی کی ضمانت دی تھی تو کورٹ اس کا احترام کرتی ہے۔ ملزم کو کالاپانی جلاوطن کر دیا جائے یا کسی بھی اور جگہ جسے گورنر جنرل منتخب کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے سات ماہ جلاوطنی کے لئے مناسب مقام ڈھونڈا جاتا رہا۔ بڑا خدشہ یہ تھا کہ ہندوستانی انہیں چھڑوانے کی کوشش نہ کریں۔ آخر ستمبر 1858 کو فیصلہ کر لیا گیا کہ انہیں دہلی سے نکال لیا جائے۔ اومانی ان کے ساتھ ہوں گے اور یقینی بنائیں گے کہ ریاستی قیدی کسی سے رابطہ نہ کر سکے۔
سات اکتوبر کو صبح چار بجے، پہلے مغل بادشاہ بابر کے دہلی فتح کرنے کے 332 سال بعد آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بیل گاڑی پر دہلی سے نکل گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیویاں، دو بچے، حرم کی خواتین اور خادم تھے۔ کل اکتیس لوگ ایک سکواڈرن کے ہمراہ دہلی سے نکلے۔ منزل خفیہ تھی۔ بہادر شاہ کو بھی اس کا نہیں بتایا گیا تھا۔ انہیں صبح تین بجے اٹھا دیا گیا تھا اور نکلنے کی تیاری کا کہا گیا تھا۔
صبح کے اندھیرے میں، جب ہر شے ساکن تھی اور شہر سناٹے میں تھا۔ آخری مغل نے دہلی چھوڑ دیا۔ اس وقت میں انہیں کوئی الوداع کہنے والا نہیں تھا۔
(جاری ہے)
پہلی تصویر بہادر شاہ ظفر کی جوانی کی
دوسری میں بہادر شاہ ظفر دربار میں
تیسری تصویر بہادر شاہ ظفر کی جو میٹکاف نے مصور سے بنوائی تھی
چوتھی تصویر بہادر شاہ ظفر کی دہلی میں مقدمے کے دوران
مقدمہ (27)
جنوری 1858 تک دربار کے تمام معززین مقدمات کے بعد لٹکائے جا چکے تھے۔ اب بہادر شاہ ظفر کی باری تھی۔ لکھنو میں جنگ ابھی چل رہی تھی۔ ماہرینِ قوانین اور مترجمین نے دہلی پہنچنا شروع کر دیا۔ کیا احکامات جاری ہوئے تھے؟ کس نے کئے تھے؟ بادشاہ کا کیا ہاتھ تھا؟ ہوڈسن کی دی ہوئی زندگی کی گارنٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا لارڈ کیننگ سے منظوری کے بغیر ہوڈسن ایسا کرنے کے مجاز تھے؟ یہ طے ہو گیا کہ ان پر “بغاوت، غداری اور قتل” کے مقدمات چلائے جائیں گے۔ میجر ہیرئیٹ وکیلِ استغاثہ تھے۔
ایک اور سوال یہ تھا کہ مقدمے کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کمپنی یہ کیسے کر سکتی ہے۔ کمپنی نے یہ پوزیشن لی تھی کہ بہادر شاہ کمپنی سے پنشن وصول کرتے تھے اس لئے کمپنی کے پنشنر کے طور پر کمپنی کی رعایا تھے۔ اصل قانونی پوزیشن زیادہ پیچیدہ تھی۔ کمپنی کا چارٹر تجارت کا تھا اور انڈیا میں اس کی کارروائیاں مغل بادشاہ کی اجازت سے تھیں۔ پلاسی کی جنگ کے بعد کمپنی کو بنگال سے ٹیکس اکٹھا کرنے کا ٹھیکہ ملا تھا۔ 1832 تک کمپنی خود کو مغل بادشاہ کا باجگزار تسلیم کرتی تھی۔ اس کے سکوں پر “فدوی شاہ عالم” لکھا ہوتا تھا۔ اگرچہ یہ ہٹا دیا گیا تھا لیکن قانونا اس تعلق میں تبدیلی کے لئے کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ کمپنی نے بادشاہ کو یکطرفہ طور پر نذر دینا بند کر دی تھی۔ لیکن کسی مغل بادشاہ نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا تھا کہ کمپنی ان کے زیرِ نگیں نہیں۔ اس نقطہ نظر سے بہادر شاہ پر شکست کھانے والے دشمن بادشاہ کے طور پر مقدمہ چلایا جا سکتا تھا لیکن رعایا کے طور پر نہیں۔ اور اگر رعایا نہیں تھے تو بغاوت اور غداری کے الزامات ویسے ہی غیرمتعلقہ ہو جاتے تھے۔ قانونی طور پر یہ اچھا کیس بنایا جا سکتا تھا کہ دراصل بغاوت کمپنی نے کی تھی جو اپنے فیوڈل آقا سے حکم عدولی کا جرم تھا جس سے کمپنی نے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔
اس مقدمے کے بے تکا ہونے پر ٹائمز کے صحافی ولیم رسل (جو جنگ کی صحافت کے بانی سمجھے جاتے ہیں) نے لکھا ہے۔ رسل نے جب لال قلعہ دیکھا تھا تو کہا تھا کہ اس میں اور ملکہ وکٹوریا کے ونڈسر قلعے کی شان و شوکت میں فرق نہیں۔ اور جب وہ اس کے مکین سے ملے تھے جو کمپنی کے قیدی تھے جنہیں بغاوت کا ماسٹرمائینڈ کہا گیا تھا تو ان کا تاثر تھا، “ان کی آنکھیں دھندلی اور آواراہ پھرتی آنکھیں، ان کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکلا۔ جیسے وہ اپنی حالت سے بے خبر ہوں۔ بڑھاپا جھلک رہا تھا۔ کسی نے انہیں اپنے شعر پڑھتے سنا تھا اور لکڑی سے دیوار پر لکھنے کی کوشش کرتے دیکھا تھا۔ ان کا محل وہ جگہ تھی جہاں سے کچھ تاجروں کو انڈیا میں کام کرنے کا اجازت نامہ تھمایا گیا تھا۔ اور اب ہم ان پر شکرگزار نہ ہونے کا الزام لگا رہے تھے”۔
رسل نے نتیجہ نکالا تھا کہ اگر مقدمہ چلایا ہی جانا ہے تو ملٹری کمیشن میں نہیں، باقاعدہ عدالت میں چلایا جائے۔ جو الزامات لگائے گئے تھے، ان کا ثابت ہونا ناممکن تھا۔ برطانوی عدالت میں دہلی کے بادشاہ پر غداری کا الزام ثابت کرنا ناممکن ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقدمہ 27 جنوری 1858 کو شروع ہوا۔ بہادر شاہ اس وقت بہت علیل تھے۔ انہیں دیوانِ خاص پالکی میں لایا گیا۔ ایک طرف ان کا بیٹا مرزا جوان بخت اور دوسری طرف ایک خادم۔ انہوں نے سہارا دے کر انہیں بٹھایا گیا۔
پانچ جج تھے جو سب آرمی افسر تھے اور زیادہ سینئیر نہیں تھے اور کوئی اچھی ہندوستانی زبان نہیں جانتا تھا۔ الزامات پڑھ کر سنائے گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود کو قصوروار تسلیم کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں پتا لگ گیا کہ بہادر شاہ کو پتا ہی نہیں کہ ہو کیا رہا ہے۔ خاصی تاخیر کے بعد انہیں قائل کیا گیا کہ وہ بتائیں کہ وہ قصوروار نہیں اور مقدمہ آگے چل سکے۔
اگلے دنوں میں ثبوت اور گواہ پیش ہوئے۔ محل سے دستاویزات پڑھ کر سنائی گئیں۔ بہادر شاہ کے وکیل غلام عباس نے ان کا مطالعہ کیا۔ بادشاہ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ انہیں ان کا کچھ نہیں پتا۔ پھر بادشاہ کی توجہ بھٹکنے لگی اور وہ اونگھنے لگے۔ انہیں اس سب میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔
کئی بار بادشاہ عدالت میں آنے سے انکار کر دیتے اور خرابی صحت کے باعث کارروائی ملتوی کر دی جاتی۔ جب آتے تو کارروائی پر کوئی توجہ نہ دیتے۔ بہت سے الزامات کے بعد انہوں نے اردو میں ایک بار تفصیلی جواب جمع دیا جو اس کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر چست تھے۔ “بغاوت کے دن سے پہلے مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ میں نے انہیں بارہا کہا کہ وہ چلے جائیں۔ میرا گواہ تو خدا ہی ہے کہ میں نے نہ ہی فریزر کے اور نہ ہی کسی اور یورپی کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ جہاں تک میری مہر کے ساتھ جاری کردہ احکامات کا تعلق ہے تو جب سے سپاہی آئے تھے، وہ کر رہے تھے جو ان کی مرضی تھی۔ مجھ سے خالی لفافوں پر مہر لگوا لیا کرتے تھے۔ مجھے نہیں پتا کہ اس کے اندر کیا کاغذ تھے اور کس کو بھیجے جا رہے تھے۔ وہ میرے ملازمین پر انگریزوں سے سازباز کا الزام لگاتے تھے اور مجھے ہٹا کر مرزا مغل کو بادشاہ بنانا چاہتے تھے۔ میرے پاس اختیار ہی کیا تھا؟ وہ یہاں تک چلے گئے تھے کہ انہوں نے ملکہ زینت محل کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ اسے قید کرنا چاہتے تھے کہ وہ انگریزوں سے ملی ہوئی ہے۔ جو ہوا، وہ باغی فوج نے کیا تھا۔ میں خود خوف میں جکڑا بے بس قیدی تھا۔ میں نے غربت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ سرخ چادر پکڑ کر قطب صاحب، اجمیر اور پھر مکہ جانے کا۔ باغی تو مجھے سلیوٹ تک نہیں کرتے تھے۔ وہ میرے دیوان میں گھس جاتے تھے۔ تسبیح خانے میں جوتے لے کر آ جاتے تھے۔ ان باغیوں نے تو خود اپنے افسروں کو مارا تھا۔ وہ نمک حرام تھے۔ ان پر بھروسہ کیسے کیا جا سکتا تھا۔ قاتل وہ تھے۔ میں تو قیدی تھا۔ میرا گواہ خدا ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں نے جو لکھا ہے، وہ سچ ہے”۔
عدالت میں وکیلِ صفائی نے کچھ خاص پرفارمنس نہیں دکھائی اور وکیل غلام عباس کی جرح بہت کمزور رہی۔ جس طرح کیس آگے بڑھتا گیا، یہ مزید بے تکا ہوتا گیا۔ تکنیکی بنیادوں پر نہیں، الزامات کے حوالے سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیرئیٹ نے کہا کہ ظفر ایک شاطر چالباز ہیں اور ایک بڑی بین الاقوامی سازش کے سرغنہ۔ یہ سازش قسطنطیہ، مکہ، ایران اور لال قلعے کی دیواروں تک پھلی ہوئی ہے۔ اس کا مقصد برٹش سلطنت کو ختم کرنا اور ان کی جگہ مغلوں کو لانا ہے۔ یہ سب شواہد کے خلاف تھا۔ حتیٰ کہ بغاوت کرنے والوں میں اکثریت ہندووٗں کی تھی۔ استغاثہ کے وکیل کے مطابق،
“یہ سازش سپاہیوں تک محدود نہیں تھی۔ یہ ان کے شروع کرنے والے بھی نہیں تھے۔ بڑا باغی بہادر شاہ ظفر ہے۔ یہ سازشی شخص جھوٹ اور فساد کا پیکر ہے۔ اس نے ان بدمعاشوں کو اپنے پاس سازش کے تحت بلایا۔ اس بڑے جال اور مذہبی جنونیوں کا سرغنہ۔ یہ جنونی ہم پر اور دنیا پر اپنا نظام مسلط کرنا چاہتا تھا”۔
ہیرئیٹ کی پیش کردہ تصویر اس وقت کے برٹش قوم پرست شدت پسندوں کے جذبات کی عکاس تھی۔ تین فروری کو ہیرئیٹ نے ثبوت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ باغی سپاہی اور بادشاہ پہلے ہی ملے ہوئے تھے۔ درجن بھر باغی اس سے ساڑھے سال پہلے ان کے پاس آئے تھے اور ان کے مرید بن گئے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ کئی لوگ بادشاہ کو صوفی پیر سمجھتے تھے۔ بادشاہ مرید قبول کیا کرتے تھے۔ ہیرئیٹ نے اس کو اپنی تخیلاتی عظیم سازش کے نکتے جوڑنے کے لئے استعمال کیا جو ان کے مطابق برسوں کی پلاننگ کا نتیجہ تھی۔
اومانی ڈائری میں لکھتے ہیں “ہیرئیٹ کی پیشکردہ عظیم سازش کی تھیوری مضحکہ خیز ہے”۔
ایک کے بعد دوسرا پیش ہونے والا گواہ بتا رہا تھا کہ بہادر شاہ ظفر کی ترجیح دہلی کی رعایا کی جان بچانا رہی تھی۔ بادشاہ نے کانپور میں کرسچن قتلِ عام کی شدید مذمت کی تھی۔ دہلی کے لوگوں کو انقلابیوں کی لاقانونیت سے بچانے کی کوشش کی تھی اور لوگوں کو قبائلی ڈاکووٗں سے بچانے کی کوشش کی تھی۔
مقدمہ دو ماہ تک چلتا رہا۔ آخری ہفتوں میں بادشاہ کی آنکھیں کارروائی کے دوران بند ہی رہتیں۔
نو مارچ کو صبح گیارہ بجے کورٹ مارشل آخری بار ہوا۔ پرہجوم عدالت میں ہیرئیٹ نے آخری دلائل ڈھائی گھنٹے کے لئے دئے۔ ایک بار پھر انقلاب کو عالمی اسلامی سازش قرار دیا۔ اور بہادر شاہ ظفر کو اگر لیڈر نہیں تو اس کا حصہ۔
تین بجے جج فیصلہ سنانے کے لئے صلاح کرنے گئے۔ چند منٹ بعد واپس آئے اور متفقہ فیصلہ سنا دیا۔ بہادر شاہ ظفر پر لگائے گئے تمام الزامات درست قرار دئے گئے۔ فیصلہ سناتے وقت کہا گیا کہ اگرچہ ایسے غدار اور مجرم کی سزا موت ہے لیکن ہوڈسن نے زندگی کی ضمانت دی تھی تو کورٹ اس کا احترام کرتی ہے۔ ملزم کو کالاپانی جلاوطن کر دیا جائے یا کسی بھی اور جگہ جسے گورنر جنرل منتخب کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے سات ماہ جلاوطنی کے لئے مناسب مقام ڈھونڈا جاتا رہا۔ بڑا خدشہ یہ تھا کہ ہندوستانی انہیں چھڑوانے کی کوشش نہ کریں۔ آخر ستمبر 1858 کو فیصلہ کر لیا گیا کہ انہیں دہلی سے نکال لیا جائے۔ اومانی ان کے ساتھ ہوں گے اور یقینی بنائیں گے کہ ریاستی قیدی کسی سے رابطہ نہ کر سکے۔
سات اکتوبر کو صبح چار بجے، پہلے مغل بادشاہ بابر کے دہلی فتح کرنے کے 332 سال بعد آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بیل گاڑی پر دہلی سے نکل گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیویاں، دو بچے، حرم کی خواتین اور خادم تھے۔ کل اکتیس لوگ ایک سکواڈرن کے ہمراہ دہلی سے نکلے۔ منزل خفیہ تھی۔ بہادر شاہ کو بھی اس کا نہیں بتایا گیا تھا۔ انہیں صبح تین بجے اٹھا دیا گیا تھا اور نکلنے کی تیاری کا کہا گیا تھا۔
صبح کے اندھیرے میں، جب ہر شے ساکن تھی اور شہر سناٹے میں تھا۔ آخری مغل نے دہلی چھوڑ دیا۔ اس وقت میں انہیں کوئی الوداع کہنے والا نہیں تھا۔
(جاری ہے)
پہلی تصویر بہادر شاہ ظفر کی جوانی کی
دوسری میں بہادر شاہ ظفر دربار میں
تیسری تصویر بہادر شاہ ظفر کی جو میٹکاف نے مصور سے بنوائی تھی اور ان کی کتاب دہلی بُک میں لگی ہے
چوتھی تصویر بہادر شاہ ظفر کی دہلی میں مقدمے کے دوران