محل پر قبضے کے بعد شہر میں بدترین مظالم شروع ہوئے۔ شہر کے گھروں میں وہ لوگ جو زخمی تھے یا بیمار کہ وہ چل نہیں سکتے تھے۔ ان کی مشکل تلوار سے...
محل پر قبضے کے بعد شہر میں بدترین مظالم شروع ہوئے۔ شہر کے گھروں میں وہ لوگ جو زخمی تھے یا بیمار کہ وہ چل نہیں سکتے تھے۔ ان کی مشکل تلوار سے آسان کی گئی۔ گھروں سے اسلحہ، کپڑے، بستر، ڈھول اور موسیقی کا سامان ۔۔۔ سب کچھ لوٹ لیا گیا۔
علاقے کو ہر قسم کے فسادیوں سے صاف کرنے کا حکم فوج کو ملا۔ وبارٹ جو فوج کا حصہ تھے، لکھتے ہیں، “وہ میری زندگی کا بدترین دن تھا۔ ہم دہلی اور ترکمان گیٹ کے قریب کے گھروں کو صاف کر رہے تھے۔ ایک گھر میں میرے سامنے تیس سے چالیس لوگوں کو مارا گیا۔ یہ قتل کے سوال کچھ اور نہیں تھا۔ خواتین کو چھوڑ دیا گیا لیکن اپنے شوہروں اور بیٹوں کو اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھ کر ان کی چیخیں سننا ناقابلِ برداشت تھا۔ آپ شہر کی سڑکوں پر گلتی سڑتی لاشیں دیکھ سکتے تھے۔ اور بازاروں میں شراب کے نشے میں دھت فوجی۔
میں رحمدل شخص نہیں لیکن جب آپ کے سامنے ادھیڑ عمر شخص لایا جاتا ہے جو گر کر زندگی کی بھیک مانگ رہا ہو تو اس مارتے وقت ہاتھ رک جاتا ہے۔ لیکن پھر آپ کو اپنے آپ کو یاد کروانا پڑتا ہے کہ یہ سب نیک مقصد کے لئے ہے۔ اس کا خون وہ داغ دھوئے گا جو اس کے لوگوں نے ہماری ملک والوں کے ساتھ کئے۔ میرے والد اور والدہ کو مارا گیا تھا، بھائی اور بہن کو۔ وہ انصاف کے لئے پکار رہے تھے۔ خدا نے طاقت اور ہمت دی اور ہم نے فرض پورا کر دیا لیکن خدا ایسا دن پھر کبھی نہ دکھائے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے برا قتلِ عام کوچہ چیلاں میں ہوا جہاں کے 1400 دہلی والوں کو مارا گیا۔ یہاں پر نواب محمد علی خان نے لوٹ مار کے خلاف مزاحمت کی تھی اور تین برٹش فوجیوں کا مار دیا تھا جو ان کی حویلی میں گھس آئے تھے اور زنانے میں چلے گئے تھے۔ ان برٹش فوجیوں کے ساتھی ایک عدد توپ یہاں لے آئے اور اس پوری حویلی کو اڑا دیا گیا۔
اس کے بعد محلے میں رہنے والے ہر شخص کا قتل ہوا۔ اس کو سنگین گھونپ کر کیا گیا۔ چالیس افراد کو جمنا لایا گیا۔ قلعے کی دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے گولیاں مار دی گئیں۔ کوچہ چیلاں دہلی کے دانشوروں کا محلہ تھا۔ سب سے قابل شاعر اور فنکار یہاں رہتے تھے۔ ظہیر دہلوی لکھتے ہیں، “ یہ کوچہ دہلی کا فخر تھا۔ اس جیسا دنیا میں کہیں اور نہ ہو گا اور نہ کبھی آئے گا۔ اس میں میاں امیر پنجہ کش تھے جن کے مقابلے کا خطاط دنیا بھر میں نہ ہو گا۔ ہمارے بہترین شاعر مولوی امام بخش صہبائی اور ان کے دو بیٹے۔ میر نیاز علی جو دہلی کے مشہور قصہ گو تھے۔ ان چودہ سو لوگوں میں تھے۔ اسکے بعد ان سب کی لاشوں کو دریا میں پھینک دیا گیا۔ کئی خواتین نے بچوں سمیت کنویں میں کود کر خودکشی کر لی۔ کئی مہینوں تک محلے کے کنویں لاشوں سے بھرے رہے۔ اور میرا قلم اس سے آگے لکھنے سے انکاری ہے”۔
قادر علی نے دہلی کے مورخ راشد الخیری کو بتایا،
“دہلی میں قیامت کا سماں تھا۔ ہمیں دریا کنارے لے جایا گیا۔ فوجیوں بندوقیں تان رہے تھے۔ اس وقت برٹش فوج کا ایک مسلمان افسر ہمارے پاس آیا اور کہا کہ موت تو تمہارے سامنے ہے۔ بندوق آگے، دریا پیچھے۔ جو تیرنا جانتے ہیں چھلانگ لگا دیں اور فرار ہو جائیں۔ میں اچھا تیراک تھا لیکن ماموں صاحب (صہبائی) اور ان کے بیٹے مولانا سوز نے یہ فن نہیں سیکھا تھا۔ میں انہیں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن ماموں صاحب نے اصرار کی ۔ میں نے چھلانگ لگا دی۔ پچاس ساٹھ گز ہی گیا ہوں گا کہ گولیوں کی آواز آئی اور میں نے گرتے ہوئے لوگوں کی قطار دیکھی”۔
ظہیر دہلوی کے سسر جنہوں نے بغاوت کے دنوں میں تین انگریز خواتین کو پناہ دی تھی اور زندگی بچا کر بھاگنے میں مدد کی تھی، انہیں بھی اسی روز اپنے بیٹے اور دو خادموں سمیت مار دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوانِ خاص میں ضیافت چل رہی تھی، اس میں شریک میجر ولیم آئیرلینڈ لکھتے ہیں کہ “سکھ فوجی لوٹ مار میں سب سے ماہر نکلے۔ وہ گھروں میں چھپی جگہوں سے خزانہ ڈھونڈ نکال میں اچھے تھے۔ جنرل ولسن نے کہا تھا کہ مالِ غنیمت کی تقسیم منصفانہ ہو گی لیکن بہت سے سکھ فوجی اتنا لوٹ چکے تھے کہ وہ ان کے تمام خاندان کو امیر کر سکتا تھا۔ وہ اس کو لے کر نکلنے کے چکر میں تھے۔ شہر کے دروازوں پر گارڈ تعینات تھے لیکن وہ شہر کی دیوار سے خزانہ نیچے کھڑے دوستوں کو پھینک کر باہر لے جا رہے تھے”۔
برٹش فوج نے مارتے وقت کسی میں تمیز نہیں کی کہ کون ان کے حق میں تھا اور کون خلاف لیکن مخبر ان کے کام کے تھے۔ کسی شخص کو پکڑوانے پر دو روپیے انعام مقرر تھا۔ کسی قیمتی سامان کا پتا دینے کی مخبری اچھا معاوضہ دیتی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیس ستمبر کی رات کو جنرل بخت خان ہمایوں کے مقبرے پر رکے اور بہادر شاہ ظفر کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ ان کے ساتھ لکھنوٗ چلیں جہاں سے جدوجہد جاری رکھی جائے۔ لیکن ایک بار پھر حکیم احسن اللہ خان تھے جنہوں نے مخالفت کی، “آپ بادشاہ ہیں۔ بغاوت کرنے والے انگریز فوج کے سپاہی تھے جنہوں نے اپنے افسروں سے بغاوت کی تھی، وہ ان سے لڑے اور ہار گئے اور بھاگ گئے۔ عالی جاہ کا ان سے کیا تعلق؟ بہادر بنیں۔ انگریز آپ کو قصور وار نہیں ٹھہرائیں گے”۔
مرزا مغل کو ان کے سسر مرزا الہی بخش نے ٹھہرنے کے لئے قائل کر لیا۔
اس رات مرزا الہی بخش دہلی آئے اور ہوڈسن کو بتایا کہ بہادر شاہ ظفر اور مرزا مغل کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ یہ انفارمیشن بھی دی کہ ان کے پاس خاندان کے جواہرات ہیں اور جائیداد کی فہرست۔ ہوڈسن نے ولسن سے اجازت مانگی کہ وہ ان کو پکڑنے کے لئے جانا چاہتے ہیں۔ شاہی خاندان کو پکڑے بغیر فتح مکمل نہیں ہو گی۔
اکیس ستمبر کی صبح دہلی میں ہونے والا برطانوی شاہی سلیوٹ اس کا اعلان تھا کہ دہلی اب ایک بار پھر تاجِ برطانیہ تلے ہے۔ لیکن ہندوستان کا ہیرا شہر اب مردہ لاشوں اور نشے میں دھت برٹش فوجیوں کا ویرانہ تھا۔ میجر ولیم آئیرلینڈ جنہوں نے انگریز فوج کے طرزِ عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا، لکھتے ہیں،
“نہ بازار میں کوئی دکاندار تھا، نہ اونٹوں اور بیلوں کی گاڑیاں کھینچ کر لے جانے والا، نہ کوئی راہگیر تھا، نہ لوگ کھڑے خوش گپیاں لگا رہے تھے، نہ بچے مٹی میں کھیل رہے تھے، نہ خواتین کی آوازیں تھیں۔ گھروں کا سامان گلیوں میں الٹا پڑا تھا۔ پالتو جانور اپنے مالکوں کی تلاش میں گلیوں میں پھر رہے تھے۔ توپوں کے گولوں سے گری دیواروں کے منظر تھے۔ سڑتی انسانی لاشوں کو کوے اور گیدڑ کھا رہے تھے۔ کوئی خوشی سے شہر چھوڑ کر نہیں گیا تھا۔ اور وہ کہتے ہیں ہم نے دہلی آزاد کروا لیا تھا”۔
لیفٹیننٹ ایڈورڈ اومانی، جو فارسی اور اردو کے سکالر تھے اور شہر کی تاریخ سے واقف تھے، اس منظر کو دیکھ کر سراسیمہ تھے۔
“اس شہر میں ڈیڑھ لاکھ لوگ بستے تھے۔ اب یہ تقریباً خالی تھا۔ جب نادر شاہ نے اسے تاراج کیا تھا، تب بھی ایسا نہیں ہوا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوڈسن مرزا الہی بخش اور برٹش کے دہلی میں جاسوسی نیٹورک کے سربراہ مولوی رجب علی اور پچاس پنجابی سواروں کے دستے کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے کی طرف نکلے۔ وہ اپنا نام تاریخ کے کتابوں میں لکھوانا چاہتے تھے۔ سب کچھ طے تھا۔ گرفتاری کا وقت تھا۔ وہ اس کو پکڑنے نکلے تھے جس کے بارے میں برٹش کہتے تھے کہ وہ اس بغاوت کے جال کے مرکز میں بیٹھا مکڑا ہے۔
(جاری ہے)
علاقے کو ہر قسم کے فسادیوں سے صاف کرنے کا حکم فوج کو ملا۔ وبارٹ جو فوج کا حصہ تھے، لکھتے ہیں، “وہ میری زندگی کا بدترین دن تھا۔ ہم دہلی اور ترکمان گیٹ کے قریب کے گھروں کو صاف کر رہے تھے۔ ایک گھر میں میرے سامنے تیس سے چالیس لوگوں کو مارا گیا۔ یہ قتل کے سوال کچھ اور نہیں تھا۔ خواتین کو چھوڑ دیا گیا لیکن اپنے شوہروں اور بیٹوں کو اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھ کر ان کی چیخیں سننا ناقابلِ برداشت تھا۔ آپ شہر کی سڑکوں پر گلتی سڑتی لاشیں دیکھ سکتے تھے۔ اور بازاروں میں شراب کے نشے میں دھت فوجی۔
میں رحمدل شخص نہیں لیکن جب آپ کے سامنے ادھیڑ عمر شخص لایا جاتا ہے جو گر کر زندگی کی بھیک مانگ رہا ہو تو اس مارتے وقت ہاتھ رک جاتا ہے۔ لیکن پھر آپ کو اپنے آپ کو یاد کروانا پڑتا ہے کہ یہ سب نیک مقصد کے لئے ہے۔ اس کا خون وہ داغ دھوئے گا جو اس کے لوگوں نے ہماری ملک والوں کے ساتھ کئے۔ میرے والد اور والدہ کو مارا گیا تھا، بھائی اور بہن کو۔ وہ انصاف کے لئے پکار رہے تھے۔ خدا نے طاقت اور ہمت دی اور ہم نے فرض پورا کر دیا لیکن خدا ایسا دن پھر کبھی نہ دکھائے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے برا قتلِ عام کوچہ چیلاں میں ہوا جہاں کے 1400 دہلی والوں کو مارا گیا۔ یہاں پر نواب محمد علی خان نے لوٹ مار کے خلاف مزاحمت کی تھی اور تین برٹش فوجیوں کا مار دیا تھا جو ان کی حویلی میں گھس آئے تھے اور زنانے میں چلے گئے تھے۔ ان برٹش فوجیوں کے ساتھی ایک عدد توپ یہاں لے آئے اور اس پوری حویلی کو اڑا دیا گیا۔
اس کے بعد محلے میں رہنے والے ہر شخص کا قتل ہوا۔ اس کو سنگین گھونپ کر کیا گیا۔ چالیس افراد کو جمنا لایا گیا۔ قلعے کی دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے گولیاں مار دی گئیں۔ کوچہ چیلاں دہلی کے دانشوروں کا محلہ تھا۔ سب سے قابل شاعر اور فنکار یہاں رہتے تھے۔ ظہیر دہلوی لکھتے ہیں، “ یہ کوچہ دہلی کا فخر تھا۔ اس جیسا دنیا میں کہیں اور نہ ہو گا اور نہ کبھی آئے گا۔ اس میں میاں امیر پنجہ کش تھے جن کے مقابلے کا خطاط دنیا بھر میں نہ ہو گا۔ ہمارے بہترین شاعر مولوی امام بخش صہبائی اور ان کے دو بیٹے۔ میر نیاز علی جو دہلی کے مشہور قصہ گو تھے۔ ان چودہ سو لوگوں میں تھے۔ اسکے بعد ان سب کی لاشوں کو دریا میں پھینک دیا گیا۔ کئی خواتین نے بچوں سمیت کنویں میں کود کر خودکشی کر لی۔ کئی مہینوں تک محلے کے کنویں لاشوں سے بھرے رہے۔ اور میرا قلم اس سے آگے لکھنے سے انکاری ہے”۔
قادر علی نے دہلی کے مورخ راشد الخیری کو بتایا،
“دہلی میں قیامت کا سماں تھا۔ ہمیں دریا کنارے لے جایا گیا۔ فوجیوں بندوقیں تان رہے تھے۔ اس وقت برٹش فوج کا ایک مسلمان افسر ہمارے پاس آیا اور کہا کہ موت تو تمہارے سامنے ہے۔ بندوق آگے، دریا پیچھے۔ جو تیرنا جانتے ہیں چھلانگ لگا دیں اور فرار ہو جائیں۔ میں اچھا تیراک تھا لیکن ماموں صاحب (صہبائی) اور ان کے بیٹے مولانا سوز نے یہ فن نہیں سیکھا تھا۔ میں انہیں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن ماموں صاحب نے اصرار کی ۔ میں نے چھلانگ لگا دی۔ پچاس ساٹھ گز ہی گیا ہوں گا کہ گولیوں کی آواز آئی اور میں نے گرتے ہوئے لوگوں کی قطار دیکھی”۔
ظہیر دہلوی کے سسر جنہوں نے بغاوت کے دنوں میں تین انگریز خواتین کو پناہ دی تھی اور زندگی بچا کر بھاگنے میں مدد کی تھی، انہیں بھی اسی روز اپنے بیٹے اور دو خادموں سمیت مار دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوانِ خاص میں ضیافت چل رہی تھی، اس میں شریک میجر ولیم آئیرلینڈ لکھتے ہیں کہ “سکھ فوجی لوٹ مار میں سب سے ماہر نکلے۔ وہ گھروں میں چھپی جگہوں سے خزانہ ڈھونڈ نکال میں اچھے تھے۔ جنرل ولسن نے کہا تھا کہ مالِ غنیمت کی تقسیم منصفانہ ہو گی لیکن بہت سے سکھ فوجی اتنا لوٹ چکے تھے کہ وہ ان کے تمام خاندان کو امیر کر سکتا تھا۔ وہ اس کو لے کر نکلنے کے چکر میں تھے۔ شہر کے دروازوں پر گارڈ تعینات تھے لیکن وہ شہر کی دیوار سے خزانہ نیچے کھڑے دوستوں کو پھینک کر باہر لے جا رہے تھے”۔
برٹش فوج نے مارتے وقت کسی میں تمیز نہیں کی کہ کون ان کے حق میں تھا اور کون خلاف لیکن مخبر ان کے کام کے تھے۔ کسی شخص کو پکڑوانے پر دو روپیے انعام مقرر تھا۔ کسی قیمتی سامان کا پتا دینے کی مخبری اچھا معاوضہ دیتی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیس ستمبر کی رات کو جنرل بخت خان ہمایوں کے مقبرے پر رکے اور بہادر شاہ ظفر کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ ان کے ساتھ لکھنوٗ چلیں جہاں سے جدوجہد جاری رکھی جائے۔ لیکن ایک بار پھر حکیم احسن اللہ خان تھے جنہوں نے مخالفت کی، “آپ بادشاہ ہیں۔ بغاوت کرنے والے انگریز فوج کے سپاہی تھے جنہوں نے اپنے افسروں سے بغاوت کی تھی، وہ ان سے لڑے اور ہار گئے اور بھاگ گئے۔ عالی جاہ کا ان سے کیا تعلق؟ بہادر بنیں۔ انگریز آپ کو قصور وار نہیں ٹھہرائیں گے”۔
مرزا مغل کو ان کے سسر مرزا الہی بخش نے ٹھہرنے کے لئے قائل کر لیا۔
اس رات مرزا الہی بخش دہلی آئے اور ہوڈسن کو بتایا کہ بہادر شاہ ظفر اور مرزا مغل کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ یہ انفارمیشن بھی دی کہ ان کے پاس خاندان کے جواہرات ہیں اور جائیداد کی فہرست۔ ہوڈسن نے ولسن سے اجازت مانگی کہ وہ ان کو پکڑنے کے لئے جانا چاہتے ہیں۔ شاہی خاندان کو پکڑے بغیر فتح مکمل نہیں ہو گی۔
اکیس ستمبر کی صبح دہلی میں ہونے والا برطانوی شاہی سلیوٹ اس کا اعلان تھا کہ دہلی اب ایک بار پھر تاجِ برطانیہ تلے ہے۔ لیکن ہندوستان کا ہیرا شہر اب مردہ لاشوں اور نشے میں دھت برٹش فوجیوں کا ویرانہ تھا۔ میجر ولیم آئیرلینڈ جنہوں نے انگریز فوج کے طرزِ عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا، لکھتے ہیں،
“نہ بازار میں کوئی دکاندار تھا، نہ اونٹوں اور بیلوں کی گاڑیاں کھینچ کر لے جانے والا، نہ کوئی راہگیر تھا، نہ لوگ کھڑے خوش گپیاں لگا رہے تھے، نہ بچے مٹی میں کھیل رہے تھے، نہ خواتین کی آوازیں تھیں۔ گھروں کا سامان گلیوں میں الٹا پڑا تھا۔ پالتو جانور اپنے مالکوں کی تلاش میں گلیوں میں پھر رہے تھے۔ توپوں کے گولوں سے گری دیواروں کے منظر تھے۔ سڑتی انسانی لاشوں کو کوے اور گیدڑ کھا رہے تھے۔ کوئی خوشی سے شہر چھوڑ کر نہیں گیا تھا۔ اور وہ کہتے ہیں ہم نے دہلی آزاد کروا لیا تھا”۔
لیفٹیننٹ ایڈورڈ اومانی، جو فارسی اور اردو کے سکالر تھے اور شہر کی تاریخ سے واقف تھے، اس منظر کو دیکھ کر سراسیمہ تھے۔
“اس شہر میں ڈیڑھ لاکھ لوگ بستے تھے۔ اب یہ تقریباً خالی تھا۔ جب نادر شاہ نے اسے تاراج کیا تھا، تب بھی ایسا نہیں ہوا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوڈسن مرزا الہی بخش اور برٹش کے دہلی میں جاسوسی نیٹورک کے سربراہ مولوی رجب علی اور پچاس پنجابی سواروں کے دستے کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے کی طرف نکلے۔ وہ اپنا نام تاریخ کے کتابوں میں لکھوانا چاہتے تھے۔ سب کچھ طے تھا۔ گرفتاری کا وقت تھا۔ وہ اس کو پکڑنے نکلے تھے جس کے بارے میں برٹش کہتے تھے کہ وہ اس بغاوت کے جال کے مرکز میں بیٹھا مکڑا ہے۔
(جاری ہے)