“مجھے پتا تھا کہ یہ باغی سپاہی صرف تباہی لائیں گے۔ شروع سے ہی مجھے خدشہ محسوس ہو رہا تھا اور میرا خوف ٹھیک نکلا۔ یہ انگریز کے آنے سے پہلے...
“مجھے پتا تھا کہ یہ باغی سپاہی صرف تباہی لائیں گے۔ شروع سے ہی مجھے خدشہ محسوس ہو رہا تھا اور میرا خوف ٹھیک نکلا۔ یہ انگریز کے آنے سے پہلے ہی بھاگ گئے۔ میں ایک فقیر اور صوفی ہوں لیکن میری رگوں میں عظیم خون بہتا ہے۔ میں خون کے آخری قطرے تک لڑ سکتا ہوں۔ میرے آباء نے اس سے بھی برے دن دیکھے ہیں اور دل نہیں ہارا۔ لیکن میں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ مغلوں کی شان ختم ہو گئی ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ تیمور کے گھر میں ہندوستان کے تخت پر بیٹھنے والا آخری ہوں۔ مغلوں کا چراغ بجھ رہا ہے۔ یہ چند گھنٹے یہاں رہوں گا۔ جب مجھے یہ سب معلوم ہے تو مزید خون کیوں بہایا جائے؟ اور یہ وہ وجہ ہے جس لئے میں نے قلعہ چھوڑ دیا۔ اب یہ ملک خدا کے حوالے ہے۔ وہ اسے اس کو دے گا جسے وہ پسند کرتا ہو گا”۔
بادشاہ نے درگاہ کے رکھوالے نظامی خاندان کے سپرد نوادرات کیں کہ وہ ان کی حفاظت کریں۔ پیرزادوں کے پاس ناشتہ کرنے کے بعد بادشاہ نے روتے ہوئے انہیں یہ بتایا۔ اور پھر پالکی میں مہروالی پر قطب صاحب کی درگاہ کا رخ کیا۔
مرزا الٰہی بخش گھوڑا دوڑاتے آئے کہ اس طرف نہ جائیں، گجر اس راستے میں ہر ایک کو لوٹ رہے ہیں۔ اگرچہ الہی بخش درست کہہ رہے تھے لیکن بہادر شاہ کہ یہ نہیں پتا تھا کہ الہی بخش درحقیقت ہوڈسن کے لئے کام کر رہے تھے اور اسی مقصد کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے ہوڈسن سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے کزن بہادر شاہ ظفر کو دھوکا دیں گے اور شہر سے باہر جانے سے روکیں گے۔ ہوڈسن بہادر شاہ کو پکڑ کر امپیریل جنگی ہیرو بننا چاہتے تھے اور اس کے لئے بادشاہ کو زندہ پکڑنا چاہتے تھے۔ ہوڈسن نے ایک یہی ملکہ عالیہ زینت محل اور ان کے والد مرزا قلی خان سے بھی کی تھی۔ زینت نے حامی بھری تھی اور تین مردوں، اپنے شوہر، بیٹے اور والد کی جان بخشی کی ضمانت مانگی تھی۔ جان بخشی کی اس فہرست میں ظفر کے دوسرے بیٹے شامل نہیں تھے۔
بہادر شاہ ظفر قائل ہو کر واپس ہو لئے۔ ان کی پالکی نظام الدین پہنچی۔ یہاں پر زینت محل بھی آ گئیں۔ دونوں ظفر کے آباء کے عظیم مقبرے پر گئے جو تین سو سال پرانا تھا اور سولہویں صدی کے درمیان بنایا گیا دوسرے مغل بادشاہ ہمایوں کا سنگِ مرمر کا مزار تھا اور دہلی کی شاندار ترین یادگار تھی۔
دہلی میں جنگل کی آگ کی طرح خبر پھیل گئی کہ بہادر شاہ ظفر نے وہ کر لیا ہے جس کی وہ دھمکی دیتے آئے تھے۔ ظفر نے قلعہ چھوڑ دیا ہے۔
اجمیری دروازے سے شہر سے فرار ہونے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ کئی نے انگیزوں کے قبضے میں آ جانے کشمیری گیٹ کا انتخاب اس امید پر کیا کہ اس طرف انگریز لوٹنے والے قبائلیوں سے بہتر ہوں گے۔ یہ غلط نکلے۔
بہت سے آدمی اور لڑکے انگریز فوج نے دروازے پر ہی مار دئے۔ بچوں اور خواتین کو جانے دیا جاتا، لیکن تمام پیسے، زیور اور سازوسامان وہی رکھوا کر جانے کی اجازت ملی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی کے مہاجرین نے کمال اور میرٹھ کی سڑکوں کا رخ کیا۔ ظہیر دہلوی لکھتے ہیں کہ نواب حامد علی خان (جو دہلی کی شیعہ برادری کے سربراہ تھے) اس شام ان کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے خاندان سمیت دہلی سے کوچ کر جائیں۔
“ابھی تک گھر میں کیا کر رہے ہو؟ بادشاہ نے دہلی چھوڑ دیا اور اب عوام بھی جا رہے ہیں۔ خدا کے لئے آج ہی نکل پڑو۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ دہلی میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ میں اپنے بیوی بچوں سمیت نکلنے لگا ہوں۔ اپنی فیملی کی خواتین کو ہماری سواری میں بٹھا دو۔
میرے والد نے نواب کی بات مان لی۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ والد نے کہا کہ سب نکل پڑیں۔ سب انہی کپڑوں میں نکل پڑے جو انہوں نے پہنے تھے۔ میری بیوی نے شادی کے وقت سلوایا مہنگا جوڑا اور زیورات کا ڈبہ ساتھ لے لیا۔ والدہ نے کچھ بھی نہیں۔ ساتھ ایک روئی کا گدا رکھ لیا جو انہوں نے بیل گاڑی میں بچھا لیا۔
سڑکوں پر ہولناک مناظر تھے۔ ہم نے لوگوں کی بے چارگی کو دیکھا، خوف کو اور غربت کو۔ وہ خواتین جو پردہ کرتی تھیں اور کبھی سڑکوں پر نہیں آئی تھیں، انہیں زیادہ چلنے کی عادت ہی نہیں تھی۔ بچوں کی چیخ و پکار تھی۔ یہ ایسا دلخراش منظر تھا جو بیان نہیں کیا جا سکتا۔
ہم سب دہلی دروازے سے باہر نکلے۔ باہر دوزخ کے مناظر تھے۔ ہزاروں عورتیں اور ان کے چھوٹے بچے۔ ان کے ساتھ خوفزدہ اور پریشان مرد۔ ہر کوئی بس نکلنے کی فکر میں تھا۔ کسی کو ہوش نہیں تھی کہ کس حالت میں ہے، کہاں جانا ہے۔ بس حرکت میں تھے۔ ہمارا گروپ برف خانے تک پہنچ گیا۔ رات وہاں گزاری۔ اسی پر خوش تھے کہ سونے کی جگہ مل گئی۔ ہم میں سے کسی نے کچھ نہیں کھایا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شام کو بخت خان کی فوج نے کشن گنج پر اپنی پوزیشن چھوڑ دی۔ جنرل ولسن سب سے زیادہ اس جگہ کے بارے میں پریشان تھے۔ اب انہیں خطرہ نہیں تھا۔ جنرل کو اب سکون تھا کہ وہ بلاخوف آگے بڑھ سکتے ہیں۔ شہر کے مغربی حصے میں مزاحمت ہو رہی تھی لیکن مشرقی حصے میں انگریز افواج بڑھ رہی تھیں۔ سترہ تاریخ کو چاندنی چوک تک کا علاقہ لیا جا چکا تھا۔
برٹش آگے بڑھتے تھے تو اس علاقے کے گھر لوٹنے کے لئے رک جاتے تھے۔ خوش قسمت مکینوں کو نکال دیا جاتا تھا، بدقسمت کو مار دیا جاتا تھا۔ گھر میں کوئی نہیں بچتا تھا۔ جہاں برٹش فوج بڑھتی جا رہی تھی، وہ علاقہ سنسان ہوتا جا رہا تھا۔ مولوی محمد باقر کے بیٹے اور شاعر محمد حسین آزاد اپنی فیملی کے ساتھ گھر میں تھے۔
“فوجی گھر میں اچانک گھسے، بندوق لہرائی اور چیخے، نکل جاوٗ۔ میری دنیا اندھیر ہو گئی۔ بھرا پرا گھر تھا اور میں ساکت کھڑا تھا۔ کیا ساتھ لے جاوٗں۔ جواہرات اور زیورات کو ہم نے ڈبے میں بند کر کے کنویں میں پھینک دیا تھا۔ میری نظر اپنے استاد ذوق کی غزلوں کے مجموعے پر پڑی جو ان کے پاس تھا (ذوق فوت ہو چکے تھے اور آزاد کا اس مجموعے کو ابھی شائع کرنے کا ارادہ تھا)۔ میں نے سوچا، “حسین، اگر خدا نے مدد کی اور بچ گئے تو باقی مال و دولت تو واپس مل جائے گا لیکن ایسا استاد پھر کب آئے گا۔ یہ غزلیں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گی۔ ان کے ذریعے ذوق مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ اگر یہ نہ بچیں تو میرے استاد بھی ختم ہو جائیں گے”۔ میں نے اس پیکٹ کو بغل تلے دبایا۔ اس گھر کو بائیس نیم مردہ ارواح کے ساتھ چھوڑ کر میں نکل لیا۔ آدم خلد سے نکلے تھے اور دہلی بھی خلد تھا۔ یہ ابنِ آدم کا خلد سے نکلنا تھا”۔
وہ رات آزاد کی فیملی نے بھی برف خانے گزاری۔ ان کے پاس کچھ آٹا تھا۔ ٹوٹے ہوئے کسی مرتبان میں آٹا گوندھ لیا تھا۔ پتوں اور ٹہنیوں کے ساتھ آگ جلائی تھی اور دوسرے پناہ گزینوں سے اس رات ادرک، نمک اور مرچ مانگ کر چٹنی بنا کر بھوک مٹائی تھی۔ آزاد کہتے ہیں کہ اس رات کی آدھ پکی ہوئی روٹی اور ادرک کی چٹنی زندگی میں کھائی بہترین بریانی، قورمے اور پلاوٗ سے زیادہ اچھی لگی تھی”۔
اگلے روز اپنی فیملی کو آگے روانہ کر کے اور بڑا خطرہ مول لے کر آزاد واپس دہلی آ گئے۔ انہیں اپنے والد مولوی محمد باقر کی تلاش تھی۔ ان کی کسی سکھ افسر سے ملاقات ہوئی جس نے مدد کا وعدہ کیا۔ بھیس بدلوا کر وہ افسر انہیں وہاں لے گیا جہاں قیدی رکھے گئے پھانسی دئے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ جب باقر کو لے جایا رہا تھا تو باپ بیٹے کی نظریں آخری بار ایک دوسرے سے ملیں۔
مولوی محمد باقر کی پھانسی کے بعد آزاد نے دہلی چھوڑ دیا۔ ان کی اگلی زندگی ایک شہر سے دوسرے شہر اکیلے گھومتے اور شدید غربت میں گزری۔ مدراس، نلگری ہل، لکھنو اور پھر لاہور۔ چار سال تک انہوں نے اپنے استاد کی غزلوں کا مجموعہ نہیں چھوڑا۔
انہیں لاہور میں ڈاکئے کے طور پر ملازمت 1861 میں ملی اور پھر انہوں نے زندگی واپس بنانا شروع کی اور جیسا انہوں نے عہد کیا تھا۔ انہوں نے اپنے استاد کا مجموعہ شائع کروا لیا جو دہلی شہر کے ایک عہد کی یادگار ہے۔ دہلی کی انٹلکچوئل اور آرٹ کی تخلیقی روایات کی۔ جنہیں چار سال پہلے تباہ کر دیا گیا تھا۔ ان کی لگن کی وجہ سے ابراہیم ذوق کا کام ہمارے تک پہنچ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھارہ ستمبر کو سورج گرہن ہوا۔ پانچ منٹ کے لئے مکمل۔ تین گھنٹے رہنے والے اس واقعے کا گہرا اثر ہوا۔ انگریز سپاہی اس سے نروس ہوئے لیکن ہندو آبادی کے لئے یہ بڑا واقعہ تھا۔ آج بھی انڈیا میں کئی اونچی ذات کے ہندو سورج گرہن میں گھر سے باہر نہیں نکلتے اور مندر بند کر دئے جاتے ہیں۔ اس ماحول میں، جب جوتشیوں کا بڑا اثر تھا، یہ واقعہ بہت اہمیت کا حال تھا۔ ایک برا شگون اور آسمان سے ناراضگی کی علامت۔
اس شام کی تیز بارش میں سپاہی آگرہ کی طرف بھاگتے نظر آ رہے تھے۔ ان خونخوار برٹش فوجیوں سے اور ان کے ہندوستانی اتحادیوں سے، جو اپنی خون آشامی میں انگریز سے کم نہ تھے، دور جا رہے تھے۔
چارلس گرفتھ کے مطابق، “مقامی توہمات اور گرہن کی تاریکی ہمارے لئے خدا سے بھیجی گئی غیبی امداد تھے۔ انقلابی فوجیوں میں بریلی بریگیڈ اور نمیچ بریگیڈ کے سپاہیوں نے گوالیار کا رخ کیا۔ انگریز فوج کو ملنے والی مزاحمت کم پڑ گئی تھی۔ جب فائرنگ رکتی تھی تو انسانوں کے بھاگنے کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں، جو اس شہر سے نکلنے کے درپے تھے جو ہمارے ہاتھ آنے والا تھا”۔
انیس ستمبر کی دوپہر برن قلعے پر انگریز فوج نے قبضہ کر لیا۔ ایک روز پہلے انہیں یہاں پر بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ شام کو دہلی کا بینک بھی انگریز فوج کے پاس تھا اور وہ اگلی صبح، بیس ستمبر کو شاہی محل پر حملے کے لئے تیار تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی سے نکلنے والے پناہ گزینوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ انہیں گوجر اور میواتی قبائلیوں نے لوٹ مار کا نشانہ بنایا۔ خواجہ حسن نظامی نے ان واقعات پر کتاب “بیگمات کے آنسو” لکھی ہے۔
شاہی خاندان کے مرزا شاہزور اپنی حاملہ بیوی، چھوٹی بہن اور والدہ کے ساتھ نکل کر مہروالی پر قطب صاحب کی درگاہ پر گئے اور ایک رات گزاری۔ اگلی صبح چھترپور سے کچھ میل دور گجروں نے لوٹ لیا۔ قبائلیوں نے سب کچھ چھین لیا لیکن جان بخشی کر دی۔ “خواتین رو رہی تھیں۔ میں نے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ قریب ہی گاوٗں تھا۔ میری والدہ قدم قدم پر گر پڑتیں اور کہتیں کہ قسمت نے اس عمر میں انہیں کیا دن دکھائے ہیں۔ یہ گاوٗں مسلمان میواتیوں کا تھا جنہوں نے ہمیں چوپال میں ٹھہرنے دیا۔ گاوٗں والوں نے کھلایا پلایا لیکن کچھ دن بعد کہنے لگے کہ کام کاج میں حصہ ڈالیں۔ میں نے کہا کہ میں خوشی خوشی کام کو تیار ہوں۔ میں فوجی خاندان سے ہوں۔ بندوق چلانا جانتا ہوں۔ تلوار بازی کر سکتا ہوں۔ گاوٗں والے ہنسنے لگے اور کہا کہ یہاں پر گولی چلانے کی ضرورت نہیں۔ ہل چلانے اور زمین کھودنے کی ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ گاوٗں والوں نے ترس کھایا اور کہا کہ کھیتوں کی حفاظت کرو اور خواتین کچھ سلائی کر دیا کریں اور ہم فصل میں سے حصہ دے دیں گے اور یوں ہماری زندگی سیٹ ہوئی۔ میں سارا دن کھیتوں میں گزارتا۔ پرندے اڑاتا اور خواتین گھر میں کپڑے سیتیں”۔
دو سال دیہات میں رہے اور اس دوران اصل بھوک برداشت کی۔ سیلاب انہیں تقریباً بہا لے گئے۔ ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بیوی بچے کی پیدائش کے دوران انتقال کر گئیں۔ اس کے بعد انہیں دہلی آنے دیا گیا کہ وہ نئی زندگی گزار سکیں۔ جب برٹش نے شاہی خاندان کے بچ جانے والوں کے لئے پانچ روپے پنشن مقرر کی تھی”۔
اسی طرح ظفر سلطان جو بہادر شاہ ظفر کے بھتیجے تھے، انیس ستمبر کو اپنی والدہ کے ساتھ بیل گاڑی پر نکلے۔ پہلے رات ایک گاوٗں پر رکے اور سو گئے۔ اگلے روز اٹھے تو پتا لگا کہ بنجارا بیل اور گاڑی لے کر بھاگ گیا ہے۔ انہیں ایک جاٹ گاوٗں میں پناہ ملی جہاں انہیں کھانا دیا گیا لیکن جلد ہی جاٹ ان پر ٹوٹ پڑے۔ جاٹوں کو شک تھا (اور صحیح تھا) کہ ان کے پاس قیمتی زیور ہیں۔ ظفر سلطان نے جب سب کچھ دے دیا تو جاٹ انہیں والدہ سمیت جنگل میں پھینک آئے۔ اس دوران والدہ کے سر پر لاٹھی لگی اور وہ شدید زخمی ہو گئیں۔ “میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسی ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں ہندوستان کے بادشاہ کی بھابھی ہوں اور میری قسمت دیکھو۔ میں جنگل میں مر رہی ہوں اور دفن کے لئے کفن تک نہیں۔ وہ فوت ہو گئیں۔ میں نے ہمت جمع کر کے اپنی طرف سے جیسی قبر کھود سکتا تھا، کھود کر دفنا دیا”۔
ظفر سلطان فقیر بن گئے۔ ایک شہر سے دوسرے میں پھرا کرتے۔ ممبئی گئے اور پھر مکہ جہاں دس سال تک زائرین کی خیرات سے گزارا کرتے رہے۔ وہاں سے واپس کراچی اور پھر دہلی آ گئے۔ یہاں پر ٹھیلے والے کے طور پر کام کرتے رہے۔ ٹھیلے میں اینٹیں ڈھوتے جو ریلوے سٹیشن کی تعمیر کے لئے استعمال ہو رہی تھیں۔ مزدوری سے اتنے پیسے بچا لئے کہ اپنا ٹھیلہ خرید لیا۔ انہیں سرکاری پنشن کی آفر ہوئی لیکن اس سے انکار کر دیا کہ “محنت کی روزی مانگے کی روزی سے بہتر ہے”۔
جب خواجہ حسن نظامی کی 1917 میں مرزا ظفر سلطان سے ملاقات ہوئی تو وہ بوڑھے تھے اور اونچا سنتے تھے۔ ان کا پتا اس وقت لگا تھا جب انہیں ایک تاجر سے لڑائی کے بعد عدالت لے جایا گیا تھا جس کے ٹانگے کی ان کے ٹھیلے سے ہونے والی ٹکر ہونے کے بعد امیر تاجر نے اپنا چابک نکال کر انہیں مارنا شروع کر دیا۔ ابتدائی ضربوں کے بعد وہ خاموش رہے لیکن پھر ہمت جمع کر کے ایک زوردار گھونسا مار کر تاجر کی ناک توڑ دی تھی۔ عدالت میں انہوں نے بتایا کہ “امیر شخص غریب کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ ساٹھ سال پہلے اس کے آباء ہمارے خادم ہوں گے۔ اور صرف اس کے نہیں، پورا ہندوستان میرے حکم کی تعمیل کرتا تھا۔ میں اپنے خاندان کو نہیں بھولا۔ ایسی ہتک کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ دیکھیں کہ ایک ہاتھ کھانے کے بعد کیسے بھاگ گیا تھا۔ تیموریوں کا ایک تھپڑ برداشت کرنا آسان نہیں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیس ستمبر کو برٹش لال قلعے کی طرف پیشقدمی کر رہے تھے۔ صبح دس بجے ان کی فارورڈ پارٹی نے قلعے کے دروازے پر بارود لگا دیا۔ کوئی مزاحمت نہیں مل رہی تھی۔ محل کے زیادہ تر محافظ بھاگ چکے تھے۔ صرف چند دھن کے پکے جہادی رہ گئے تھے جو خلیفہ وقت کا تخت دوسروں کے حوالے کرنے سے مرنے کو ترجیح دیتے تھے۔
زوردار دھماکے سے محل کا دروازہ نیچے آن گرا۔ اس پارٹی کی قیادت ایڈورڈ کیمپبیل کے ساتھ افغان سردار میر خان کر رہے تھے۔ کیپٹن فریڈ میسے لکھتے ہیں کہ “وجیہہ، عقابی آنکھوں والے اور سیاہ داڑھی والے میر خان کو بادشاہ کو پکڑنے کی جلدی تھی۔ میں ان کے ساتھ محل میں پھرتا رہا۔ محل کی دیواروں میں پورا شہر آباد تھا۔ ہم توقع کر رہے تھے کہ کہیں سے کوئی فائر آئے گا لیکن صرف دو لوگوں سے مڈبھیڑ ہوئی۔ ہمارے افغان دوست نے انہیں گولی مار کر یوں گرا دیا جیسے تیتر کا شکار کیا جاتا ہے۔ ایک اور شخص نظر آیا جو غیرمسلح تھا اور بنجارا لگتا تھا۔ میں نے وعدہ کیا کہ ہم اسے نہیں ماریں گے۔ وہ محل میں راستہ دکھائے۔ وہ بڑھا ہی تھا کہ فائر ہوا اور وہ گر پڑا۔ میر خان نے اسے پیچھے سے گولی مار دی تھی۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ سردار نے کہا کہ دشمن کے بدمعاش کے ساتھ کئے گئے وعدے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ ہوڈسن کو معلوم تھا کہ بہادر شاہ کہاں ہیں اور براہِ راست الہی بخش کے ساتھ رابطے میں تھے لیکن محل پر حملہ کرنے والی ٹیم کو یہ انفارمیشن نہیں دی گئی تھی۔ برٹش فوجی محل کی راہداریوں میں اور کمرہ کمرہ کنٹرول لیتے گئے اور حملہ آوروں کو یہ امید تھی کہ بہادر شاہ مل جائیں گے۔
محل کو لوٹا جا رہا تھا۔ فرنیچر، خواتین اور مردوں کے لباس، برتن، فانوس، آرائش کا سامان، کتابیں، مسودے، تصاویر، پستول، زیورات کی تلاش کی جا رہی تھی۔ شام تک تھک ہار کر فوجی آرام کے لئے چلے گئے۔ جنرل کو پیغام بھجوا دیا گیا کہ محل پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شام کو جامعہ مسجد میں جشن منعقد ہوا۔ ناچ کی محفل سجی، سکھوں نے محراب کے پاس فتح کی آگ جلائی۔ جنرل ولسن اور ہیڈکوارٹر کے سٹاف نے رات کا کھانا دیوانِ خاص میں تناول کیا۔ ملکہ وکٹوریا کے لئے دعا پڑھی گئی۔ لاہور میں بھیجے گئے ٹیلی گرام میں لکھا گیا تھا کہ، “ہماری جدوجہد کامیاب رہی ہے۔ بنگال آرمی کی پھیلائی گئی بغاوت کو اپر انڈیا سے فرو کر دیا گیا ہے۔ کلائیو اور لیک کے دن بحال کر دئے گئے ہیں۔ خدا نے ہماری مدد کی۔ ملکہ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رہے”۔
یہ خبر زخمی نکلسن تک پہنچائی گئی جن کی حالت بگڑ رہی تھی اور سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ “مرنے سے پہلے میری یہ آخری خواہش تھی جو پوری ہو گئی ہے”۔ تین روز بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی قبر پر جو سل لگائی گئی، وہ اس سنگِ مرمر کی تھی جسے بہادر شاہ ظفر کے پسندیدہ مہتاب باغ سے لوٹا گیا تھا۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر1858 میں لی گئی ہے۔ یہ دریائے جمنا کے اوپر کشتیوں کا پل ہے جو دہلی کو ہندوستان کے مشرق سے ملاتا تھا۔