سولہ ستمبر کو شہر کے لوگ لال قلعے کے باہر اکٹھے ہونے لگے۔ ان کے ساتھ جہادی بھی تھے اور انقلابی سپاہی بھی۔ مولوی سرفراز اور انقلابی افسر مل...
سولہ ستمبر کو شہر کے لوگ لال قلعے کے باہر اکٹھے ہونے لگے۔ ان کے ساتھ جہادی بھی تھے اور انقلابی سپاہی بھی۔ مولوی سرفراز اور انقلابی افسر ملکر شاہی محل میں گئے اور بہادر شاہ ظفر سے منت کی کہ وہ بڑے حملے میں ان کی قیادت کریں۔ “اگر آپ ساتھ ہوں گے تو پوری فوج، دہلی کے تمام شہری اور ملک بھر کے لوگ آپ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ آپ کی خاطر لڑیں گے، جان دے دیں گے اور انگریز کو نکال باہر پھینکیں گے”۔ مجمع بڑھتا جا رہا تھا۔ کچھ کے پاس بندوقیں تھیں، کچھ کے پاس تلواریں اور کچھ کے پاس صرف ڈنڈے۔ یہ اس جنگ کا اہم موڑ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محل کے اندر سنجیدہ موڈ تھا۔ چودہ ستمبر کو مرزا مغل نے ظفر کو پیغام بھجوایا تھا کہ کسی طرح فنڈ کا بندوبست کریں تا کہ سپاہیوں کو کھلایا پلایا جا سکے کہ وہ لڑنے کے قابل ہوں۔ ظفر نے چاندی کے ہودے اور کرسیاں اور گھوڑے کی زین مرزا مغل کو دے دی تھی کہ ان کو بیچ کر گزارا چلا لیں۔ ان کے پاس کچھ اور نہیں بچا۔ گولے محل تک پہنچ رہے تھے اور خوراک کی آمد بند ہو چکی تھی۔
اور اب مولوی اور جہادی، سپاہی اور شہری ظفر کے پاس اکٹھے ہوئے تھے اور ایک نئی درخواست کر رہے تھے کہ وہ خود ذاتی طور پر حملے کی قیادت کریں۔ بہادر شاہ ظفر نے ایسا کبھی کیا ہی نہیں تھا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا فیصلہ لیں۔ عید کے بعد سے وہ عجیب موڈ میں ہی تھے۔ اور اب فیصلے کی گھڑی تھی۔ حملے کی قیادت کریں یا انکار کر دیں۔ بادشاہ ہچکچاہٹ میں تھے۔
“آپ کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ آپ پکڑ لئے جائیں گے۔ ایک شرمناک اور بے عزتی والی موت کیوں؟ کیوں نہ لڑتے ہوئے مرا جائے اور ہمیشہ کے لئے نام بنا لیا جائے؟”
بہادر شاہ ظفر نے چار ماہ قبل اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کر کے اس انقلاب کی سربراہی قبول کی تھی۔ اس بار انہوں نے ایک مرتبہ پھر اتنا ہی اہم فیصلہ لینا تھا۔
بادشاہ نے اعلان کر دیا کہ بارہ بجے وہ فوج کے ساتھ نکلیں گے۔ سب کے ساتھ نہیں، بلکہ سب سے آگے۔ دہلی شہر تیاری کر لے۔
جیسے ہی بادشاہ نے ارادہ ظاہر کیا، لوگ اکٹھے ہونے لگے۔ باغی، غازی، شہری۔ کہا جاتا ہے کہ ستر ہزار لوگ جمع تھے۔ بادشاہ کا تموجن لایا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروبرٹش حکیم احسن اللہ خان نے بادشاہ کے سرگوشی کی “اگر آپ لڑائی کی قیادت کرنے گئے تو کل کو برٹش کے جیتنے پر کیا بہانہ بنا سکیں گے۔ آپ کا بھی وہی حشر ہو گا جو ان سب کا۔ اور خدانخواستہ اگر سپاہی آپ کو لے جانے میں کامیاب ہوئے تو ان لوگوں نے پیچھے سے خود بھاگ جانا ہے۔ پکڑے آپ ہی جائیں گے۔ ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کو یہ وعدہ نہیں کرنا چاہیے تھا”۔
تذبذب کے شکار ظفر پر حکیم کے الفاظ کام کر گئے۔ سعید مبارک شاہ لکھتے ہیں، “بادشاہ نے مجمع کو چھوڑا اور محل کے اندر چلے گئے کہ انہوں نے ظہر کی نماز ادا کرنی ہے۔ بادشاہ واپس نہیں آئے۔ مجمع پہلے کنفیوز ہوا، پھر پریشان اور پھر چھٹ گیا۔ اور یوں، 1857 کا غدر، بغاوت، انقلاب، جنگِ آزادی اسی کے ساتھ ہی تمام ہو گئی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح بہادر شاہ ظفر کے گیارہ مئی کے فیصلے نے انیسویں صدی میں برٹش کے ساتھ سب سے بڑی جنگ چھیڑی تھی، ویسے ہی سولہ ستمبر میں یہ فیصلہ اس کا اختتام ثابت ہوا۔ اردو زبان کا ہر ذریعہ یہی بتاتا ہے کہ اس فیصلے کے ساتھ ہی انقلابیوں کی مزاحمت ماند پڑ گئی۔
اس وقت تک انقلابی ہارے نہیں تھے۔ ہارنے کے قریب بھی نہیں تھے۔ انگریز فوج مشکل میں تھی، مورال اور حوصلہ ختم ہو رہا تھا۔ گلی کوچوں میں لڑنے کا تجربہ نہیں تھا۔ جوان اپنے افسروں سے حکم عدولی کر رہے تھے۔ تین روز سے دونوں فوجیں آمنے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گھور رہی تھیں۔ بہادر شاہ ظفر کی عدم اعتمادی کا مطلب یہ تھا کہ انقلابیوں نے آنکھیں جھپکا لیں تھیں۔
دہلی والوں کو یقین ہو گیا کہ خاتمہ قریب ہے۔ لوگ سامان اٹھا کر دہلی چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ اجمیری دروازے پر نکلنے والوں کی لمبی قطار تھی۔ چھوڑ کر جانے والے سپاہیوں کا ریلا تھا۔ بریلی بریگیڈ نے اپنا اسلحہ تباہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ انگریز کے ہاتھ نہ آئے۔ نمیچ اور بریلی بریگیڈ نے دہلی چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔
شاہجہاں آباد کے لال قلعے میں 16 ستمبر 1857 کی رات وہ آخری رات تھی جب کوئی مغل بادشاہ یہاں پر سویا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہادر شاہ ظفر کی بیٹی کلثوم زمانی بیگم سے آنے والی روایت بتاتی ہے کہ اس روز ظفر تسبیح خانے گئے۔ عبادت کرتے رہے اور سوچتے رہے۔ باہر لڑائی کی آوازیں قریب ہوتے لگ رہی تھیں۔ گیارہ بجے انہوں نے اپنی بیٹی کو بلایا۔
“ہر طرف گولیوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ اپنے شوہر کے ساتھ نکل جاوٗ۔ حفاظت کے لئے دعا کی۔ کچھ زیور دئے اور ہمیں نکل جانے کا کہا۔ ہمارا کاروان رات گئے نکلا۔ ہم کورالی کے گاوں پہنچے جہاں جو کی روٹی اور دہی کھایا۔ اگلے روز میرٹھکی طرف جا رہے تھے تو گوجروں کی ایک پارٹی نے ہم پر حملہ کر دیا اور سب کچھ چھین لیا۔ تن کے کپڑے تک نہ چھوڑے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سترہ ستمبر کو فجر کے وقت بہادر شاہ ظفر نے خاموشی سے قلعہ چھوڑ دیا۔ نہ اپنے وزیرِاعظم کو بتایا اور نہ ہی ملکہ عالیہ زینت بیگم کو۔ قدیم نوادرات اور آبائی خزانے کا کچھ حصہ ساتھ رکھا۔ اس میں ایک ڈبے میں نبی کریمﷺ کی داڑھی کے تین بال تھے جو تیمور کے گھرانے میں چودہویں صدی سے چلے آ رہے تھے اور بادشاہ کا ان سے بے حد لگاوٗ تھا۔ چند خدام کے ہمراہ اپنا پالکی میں نکلے۔ کشتی میں جمنا پار کیا۔ ان کی منزل نظام الدین اولیاء کی درگاہ تھی۔
تیموری خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محل کے اندر سنجیدہ موڈ تھا۔ چودہ ستمبر کو مرزا مغل نے ظفر کو پیغام بھجوایا تھا کہ کسی طرح فنڈ کا بندوبست کریں تا کہ سپاہیوں کو کھلایا پلایا جا سکے کہ وہ لڑنے کے قابل ہوں۔ ظفر نے چاندی کے ہودے اور کرسیاں اور گھوڑے کی زین مرزا مغل کو دے دی تھی کہ ان کو بیچ کر گزارا چلا لیں۔ ان کے پاس کچھ اور نہیں بچا۔ گولے محل تک پہنچ رہے تھے اور خوراک کی آمد بند ہو چکی تھی۔
اور اب مولوی اور جہادی، سپاہی اور شہری ظفر کے پاس اکٹھے ہوئے تھے اور ایک نئی درخواست کر رہے تھے کہ وہ خود ذاتی طور پر حملے کی قیادت کریں۔ بہادر شاہ ظفر نے ایسا کبھی کیا ہی نہیں تھا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا فیصلہ لیں۔ عید کے بعد سے وہ عجیب موڈ میں ہی تھے۔ اور اب فیصلے کی گھڑی تھی۔ حملے کی قیادت کریں یا انکار کر دیں۔ بادشاہ ہچکچاہٹ میں تھے۔
“آپ کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ آپ پکڑ لئے جائیں گے۔ ایک شرمناک اور بے عزتی والی موت کیوں؟ کیوں نہ لڑتے ہوئے مرا جائے اور ہمیشہ کے لئے نام بنا لیا جائے؟”
بہادر شاہ ظفر نے چار ماہ قبل اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کر کے اس انقلاب کی سربراہی قبول کی تھی۔ اس بار انہوں نے ایک مرتبہ پھر اتنا ہی اہم فیصلہ لینا تھا۔
بادشاہ نے اعلان کر دیا کہ بارہ بجے وہ فوج کے ساتھ نکلیں گے۔ سب کے ساتھ نہیں، بلکہ سب سے آگے۔ دہلی شہر تیاری کر لے۔
جیسے ہی بادشاہ نے ارادہ ظاہر کیا، لوگ اکٹھے ہونے لگے۔ باغی، غازی، شہری۔ کہا جاتا ہے کہ ستر ہزار لوگ جمع تھے۔ بادشاہ کا تموجن لایا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروبرٹش حکیم احسن اللہ خان نے بادشاہ کے سرگوشی کی “اگر آپ لڑائی کی قیادت کرنے گئے تو کل کو برٹش کے جیتنے پر کیا بہانہ بنا سکیں گے۔ آپ کا بھی وہی حشر ہو گا جو ان سب کا۔ اور خدانخواستہ اگر سپاہی آپ کو لے جانے میں کامیاب ہوئے تو ان لوگوں نے پیچھے سے خود بھاگ جانا ہے۔ پکڑے آپ ہی جائیں گے۔ ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کو یہ وعدہ نہیں کرنا چاہیے تھا”۔
تذبذب کے شکار ظفر پر حکیم کے الفاظ کام کر گئے۔ سعید مبارک شاہ لکھتے ہیں، “بادشاہ نے مجمع کو چھوڑا اور محل کے اندر چلے گئے کہ انہوں نے ظہر کی نماز ادا کرنی ہے۔ بادشاہ واپس نہیں آئے۔ مجمع پہلے کنفیوز ہوا، پھر پریشان اور پھر چھٹ گیا۔ اور یوں، 1857 کا غدر، بغاوت، انقلاب، جنگِ آزادی اسی کے ساتھ ہی تمام ہو گئی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح بہادر شاہ ظفر کے گیارہ مئی کے فیصلے نے انیسویں صدی میں برٹش کے ساتھ سب سے بڑی جنگ چھیڑی تھی، ویسے ہی سولہ ستمبر میں یہ فیصلہ اس کا اختتام ثابت ہوا۔ اردو زبان کا ہر ذریعہ یہی بتاتا ہے کہ اس فیصلے کے ساتھ ہی انقلابیوں کی مزاحمت ماند پڑ گئی۔
اس وقت تک انقلابی ہارے نہیں تھے۔ ہارنے کے قریب بھی نہیں تھے۔ انگریز فوج مشکل میں تھی، مورال اور حوصلہ ختم ہو رہا تھا۔ گلی کوچوں میں لڑنے کا تجربہ نہیں تھا۔ جوان اپنے افسروں سے حکم عدولی کر رہے تھے۔ تین روز سے دونوں فوجیں آمنے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گھور رہی تھیں۔ بہادر شاہ ظفر کی عدم اعتمادی کا مطلب یہ تھا کہ انقلابیوں نے آنکھیں جھپکا لیں تھیں۔
دہلی والوں کو یقین ہو گیا کہ خاتمہ قریب ہے۔ لوگ سامان اٹھا کر دہلی چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ اجمیری دروازے پر نکلنے والوں کی لمبی قطار تھی۔ چھوڑ کر جانے والے سپاہیوں کا ریلا تھا۔ بریلی بریگیڈ نے اپنا اسلحہ تباہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ انگریز کے ہاتھ نہ آئے۔ نمیچ اور بریلی بریگیڈ نے دہلی چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔
شاہجہاں آباد کے لال قلعے میں 16 ستمبر 1857 کی رات وہ آخری رات تھی جب کوئی مغل بادشاہ یہاں پر سویا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہادر شاہ ظفر کی بیٹی کلثوم زمانی بیگم سے آنے والی روایت بتاتی ہے کہ اس روز ظفر تسبیح خانے گئے۔ عبادت کرتے رہے اور سوچتے رہے۔ باہر لڑائی کی آوازیں قریب ہوتے لگ رہی تھیں۔ گیارہ بجے انہوں نے اپنی بیٹی کو بلایا۔
“ہر طرف گولیوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ اپنے شوہر کے ساتھ نکل جاوٗ۔ حفاظت کے لئے دعا کی۔ کچھ زیور دئے اور ہمیں نکل جانے کا کہا۔ ہمارا کاروان رات گئے نکلا۔ ہم کورالی کے گاوں پہنچے جہاں جو کی روٹی اور دہی کھایا۔ اگلے روز میرٹھکی طرف جا رہے تھے تو گوجروں کی ایک پارٹی نے ہم پر حملہ کر دیا اور سب کچھ چھین لیا۔ تن کے کپڑے تک نہ چھوڑے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سترہ ستمبر کو فجر کے وقت بہادر شاہ ظفر نے خاموشی سے قلعہ چھوڑ دیا۔ نہ اپنے وزیرِاعظم کو بتایا اور نہ ہی ملکہ عالیہ زینت بیگم کو۔ قدیم نوادرات اور آبائی خزانے کا کچھ حصہ ساتھ رکھا۔ اس میں ایک ڈبے میں نبی کریمﷺ کی داڑھی کے تین بال تھے جو تیمور کے گھرانے میں چودہویں صدی سے چلے آ رہے تھے اور بادشاہ کا ان سے بے حد لگاوٗ تھا۔ چند خدام کے ہمراہ اپنا پالکی میں نکلے۔ کشتی میں جمنا پار کیا۔ ان کی منزل نظام الدین اولیاء کی درگاہ تھی۔
تیموری خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
(جاری ہے)